ریمنڈ ڈیوس کتاب، چند مزید حقائق

ریمنڈ ڈیوس کی کتاب پر لکھنا چاھتا تھا لیکن ظاہر ھے یہ کتاب پڑھے بغیر ممکن نہ تھا ھمارے ہاں کتاب پڑھے بغیر محض اخباری خبروں اور تراشوں پر اپنی رائے قائم کرلینا عام روش ھے اس سے پہلے سی آئ اے کے سابق سربراہ لیون پنیٹا اور ھلیری کلنٹن بھی کتابیں لکھ چکی ھیں کتاب کے ابتدائی صفحات میں ریمنڈ ڈیوس تسلیم کرتے ہیں کہ کتاب کا مسودہ سی آئ اے کی نہ صرف نظر سے گزرا بلکہ بہت سی معلومات قومی سلامتی کے پیش نظر کتاب سے نکال دی گئی ھیں ۔

ظاہر ھے کہ یہ امریکہ کے سیکورٹی اداروں کا بیانیہ ھے جو انہوں نے اپنے عوام کو اعتماد میں لینے کے لئے ترتیب دیا ھے تو پھر سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ پاکستان کا قومی سلامتی معاملات پر بیانیہ کیا ھے اور کہاں ھے کیا سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سابق آرمی چیف جنرل کیانی اور سابق سربراہ آئ ایس آئ جنرل پاشا کو اپنا ذاتی اور پاکستان کا نقطئہ نظر کتاب لکھ کر بیان نہیں کرنا چاھئے ۔

ھمارے ہاں خارجہ پالیسی حساس معاملہ تصور کی جاتی ھے کیونکہ خارجہ پالیسی تشکیل دینے والے نہ ھی عوام کے منتخب نمائندے ھیں اور نہ ھی عوام کو جوابدہ لہذا وہ چاھتے ہی نہیں کہ عوام ان سے سوال پوچھیں یا عوام کی اس عمل میں شمولیت ھو اب وقت آگیا ھے کہ خارجہ پالیسی کے معاملات میں عوام کو اعتماد میں لیا جائے اور ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کو منظر عام پر لایا جائے۔

ریمنڈ ڈیوس کی کتاب سے یہ بھی پتہ چلتا ھے کہ اس جیسے بلیک واٹر تنظیم کے کئ اور کنٹریکٹرز پاکستان کی سرزمین پر موجود تھے ایسی تنظیموں اور بیرونی ایجنسیوں کو پاکستان میں آپریٹ کرنے کی اجازت جنرل مشرف کے دور میں ملی اور کیا بعد میں آنے والی حکومتوں نے بھی یہ سلسلہ جاری رکھا
جن دنوں ریمنڈ ڈیوس گرفتار تھا اور اس پر مقدمہ چل رھا تھا ان دنوں میڈیا کی اکثریت اور بڑے بڑے لکھاری دفاعی تجزیہ کار اس معاملے پر یہ موقف اختیار کئے ھوئے تھے کہ ھماری سیاسی قیادت صدر زرداری اور وزیراعظم گیلانی امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ریمنڈ ڈیوس کو رھا کر کے واپس بھجوانا چاھتے ھیں لیکن قومی جذبے اور قوم پرستی سے مالا مال ھماری عسکری قیادت جنرل کیانی اور جنرل پاشا ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔

جبک کتاب یہ ثابت کرتی ھے کہ سیاسی قیادت کے ساتھ ساتھ جنرل پاشا کا اس معاملے میں سب سے اھم کردار تھا۔

رپمنڈ ڈیوس پاکستانی قوم کی تذلیل کرتے ھوئے اسے ایک ہجوم سے تشبیہہ دیتے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ کتاب میں وہ واقع بھی تفصیل سے بیان کرتے ہیں کہ جب لاھور کی سڑک پر انہوں نے ان کا پیچھا کرنے والے حساس اداروں کے اہلکاروں کو قتل کیا تو سب سے پہلے ٹریفک وارڈن نے اسے گرفتار کیا اور عوام کے بپھرے ھوئے ھجوم جسے ریمنڈ ڈیوس قوم تسلیم کرنے کو تیار نہیں نے تھپڑوں اور مکوں سے نہ صرف تواضع کی بلکہ اسکے بھاگنے کی کوشش ناکام بنا دی اس سے یہ حقیقت بھی نمایاں ہوتی ھے کہ پاکستان کا دفاع اور اسکی سرزمین کا تحفظ عوام اور اس ملک کے عام لوگوں کے مضبوط ھاتھوں میں ھے ٹریفک پولیس کا معمولی سپاھی حساس ادارے کے موثر سائیکل پر پیچھا کرتے ہوئے معمولی اہلکار سب فرض شناس اور مادر وطن کی حفاظت کے جذبے سے سرشار تھے پولیس نے ریمنڈ ڈیوس کو گرفتارکر کے حساس ادارے کے سپرد کردیا اور پھر ھماری عسکری اور سیاسی قیادت نے اسے امریکہ کی خوشنودی کا ایک اور موقع سمجھتے ہوئے سرکاری پروٹوکول کے ساتھ واپس بھجوا دیا ھمارے دوست مرزا امتیاز کی پنجابی نظم کے مطابق
ریمنڈ وی آزاد سی
تے عدلیہ وی آزاد اے

اس تمام واقعہ سے یہ سبق حاصل ہوتا ھے کہ جب بھی پاکستان پر کڑا وقت آیا اور اسکی جانب میلی نظر اٹھی پاکستان کے عوام ھی اسکا تحفظ کریں گے اور ھماری اشرافیہ بیرونی طاقتوں کی آلہ کار ھو گی یا ھمارے ریٹائر افسران اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے بیرون ملک ملازمت تلاش کر رھے ھوں گے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے