سر رہ گزر

وقتِ دعا ہے
جب دوا نہ کی جائے اور صرف دعا پر دارومدار ہو تو بالعموم دعائیں عرش تو کیا پہلے آسمان تک بھی نہیں پہنچ پاتیں، انسان کے ذمہ صرف کوشش ہے، اس کے بعد دعا کا وقت آتا ہے؎
مالی دا کم پانی لانا بھر بھر مشکاں پاوے
مالک دا کم پھل پھُل لانا لاوے یا نہ لاوے
آج ہم تقریباً سب اپنا قیمتی وقت ہی نہیں پاکستان کے آگے بڑھنے کے مواقع بھی ضائع کر رہے ہیں، چلو پاناما میں آئے ہوئے فریق پریشان ہیں حیران ہیں یا شاداں و فرحاں ہیں، یہ تو سمجھ میں آتا ہے، لیکن سب کا سب کاموں سے توجہ ہٹا کر پاناما کا پاجاما باتوں، بحثوں، ٹویٹوں سے سینے کی کوئی تک نہیں، بچہ لوگ جائیں کھیلیں کودیں ان کا اس کیس سے کیا لینا دینا، جس گھر خاندان محلے ملک میں پھوٹ کی وبا پھوٹ پڑے وہاں کوئی اچھے نتائج برآمد نہیں ہوتے، عوام، خواص جسے دیکھو پاناما ٹرک کی بتی کے پیچھے دوڑ رہا ہے، ڈالر اسی افراتفری میں 108.5کا ہو گیا کہتے ہیں روک دیا گیا ہے مگر خدا جانے وہ رُکے نہ رُکے، اسٹیٹ بینک کا کوئی مستقل گورنر تعینات کیا جا رہا ہے، بھلا اس طرح ریٹ نیچے آ جائے گا، وزیراعظم نے تو کہہ دیا ہے جو احتساب ہمارا خیال ہے اگر ہماری ہاں جعلی عدل ہورہاہے تو پھر ہمارے چرچلز کو فکر مند ہونا چاہئے، ہمارے تمام چرچلز فرماتے ہیں کہ ’’ستے ای خیراں‘‘ مگر ہم سب کی تو شاید ماسی خیراں ہی علیل ہے، تنور پر روٹیاں کون لگائے گا، ایک ہمارے پاس خان صاحب بھی ہیں، ایک بھٹو کے نام لیوا جانشین، اس کے علاوہ ملک و قوم کے درد سے پھوڑے کی صورت رسنے والے کتنے ہی ایرے غیرے نتھو خیرے ہیں، ان کا مسئلہ ہے کہ اچھی بھلی روزی لگی ہوئی تھی روٹھ گئی تو وہ کہاں جائیں گے، سچ تو یہ ہے کہ ہمارے جملہ اقسام کے خواص سے دولت منفی کر دی جائے تو سکندر کی طرح ان کے دونوں ہاتھ خالی رہ جاتے ہیں بھلا مال و زر سے بڑھ کر بھی کوئی اہلیت صلاحیت ہے؟
٭٭٭٭
ملکی سیاست کیا ایک کٹی پتنگ ہے
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کہتے ہیں:حکمران صحافیوں اور وکلاء پر پیسہ لگا رہے ہیں۔ ہم بھی ایک صحافی ہیں ہم تک تادم تحریر ایک دھیلہ بھی نہیں پہنچا، پتہ نہیں خان صاحب کن خوش نصیبوں کا ذکر فرما رہے ہیں، رہ گئے وکلاء حضرات تو ظاہر ہے ان سے مقدمے لڑوائیں گے تو وہ فیس تو لیں گے، بہرحال پریشانی کی بات نہیں عوام کا پیسہ صحافیوں پر خرچ ہو یا وکیلوں پر اپنا پیسہ اپنے گھر ہی میں لگ رہا ہے کسی آف شور کمپنی میں نہیں، ویسے خان صاحب تو بڑے آئوٹ اسپوکن ہیں صحافیوں کے نام لے دیتے تو ہم ان کی منت ترلا کر کے کچھ پیسے ان سے حاصل کر لیتے، کیونکہ ہر صحافی کا تو عالم بالا سے رابطہ نہیں ہوتا ہم تو اپنی پھٹی پرانی قبائے صحافت کو پیوند تک نہیں لگا سکتے کہ پیوند کہاں سے لائیں، پرانی قبا پر نئے کپڑے کا پیوند لگانے کی ہوس ہی لئے بیٹھے ہیں، جبکہ ’’وہ‘‘ میرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں، ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کسی بھی کام کا بڑا اہتمام کرنا سوچ بچار کرنا اس کام ہی کو بگاڑ دیتا ہے، اور انسان اپنے ہی دام میں پھنس جاتا ہے، لاپروا اور بے فکر ہو کر جو بھی کیا جائے کمال ہو جاتا ہے، اس کا مطلب ہے سوچتے ہم ہیں دماغ کسی اور کا خرچ ہوتا ہے اور یہ کہ جب بھی یہ دل اداس ہوتا ہے، جانے کون آس پاس ہوتا ہے، اس کون کا تعاقب کریں اور باقیوں کو ’’پراں کرو‘‘ انسان کے قول و فعل میں وحدت ہو تو توحید بھی سمجھ آ جاتی ہے، اور اگر دماغ میں وسوسوں کا بھوسہ بھرا ہو تو کچھ سجھائی نہیں دیتا،خدا کی شان ہے، زندگی کی پتنگ اس لئے عطا کی گئی کہ اسے اونچا اڑایا جائے، ہم نے پیچے ڈال کر وہ بھی کٹوا دی۔
٭٭٭٭
آئو حسنِ یار کی باتیں کریں
ہم بہت ٹینشن میں آ گئے ہیں، اور ہم میں سے 90 فیصد تو خواہ مخواہ کی ٹینشن لے رہے ہیں ایک مثل ہے کہ ’’انگار جانے تے لوہار جانے‘‘ ہم جو عوام ہیں ہم نے کیوںسر درد کی گولی کھانا شروع کر دی ہے، آپا زبیدہ کے بتائےلذیز کھانے تیار کریں اور کھائیں، غم دنیا کو غم یار سے الگ کر دیں پھر دیکھیں یاری چوری چکاری کا کیسا لطف آتا ہے، ہم بالکل مثبت ہیں اور سب ہم وطنوں سے گزارش کرتے ہیں کہ آپ تو ریلیکس رہیں آپ نے تو کوئی آف شور کمپنی بنائی ہی نہیں، اس لئے اچھے اچھے اشعار پڑھیں، بھولے بسرے گیت سنیں اور اگر آنگن ٹیڑھا نہیں تو بیشک تھوڑا سا ناچ بھی لیں، اس میں حرج ہی کیا ہے، جو ہم وطن بالواسطہ یا بلاواسطہ عشق فرما رہے ہیں وہ محترم عاشق بھٹی سے فلمی عشق کے نسخے حاصل کریں، کسی حسین کی زلف ہو نہ ہو اس سے کسی نہ کسی طرح چپک کر کے اس کے اسیر بن جائیں اور ہو سکے تو میر تقی میر بھی بن جائیں کیونکہ انہوں نے سب کو عشق کے اجتماعی مشترکہ ڈنڈے سے ہانکا؎
ہم ہوئے کہ تم ہوئے کہ میر ہوئے
سب اسی کی زلف کے اسیر ہوئے
تسی کسی کو بھی ’’اُسی‘‘ بنا کر اس کی زلف گرہ گیر سے لٹک جائو پنکھے سے لٹکنے کی ضرورت ہی نہیں، یاد رکھیں حسن کے انکار کو اقرار اور اقرار کو انکار سمجھیں فائدے میں رہیں گے، آپ کے اسٹاک میں کوئی محبوب ہو نہ ہو کوئی مسئلہ نہیں ایک عدد فرضی محبوب خیالوں کے صنم خانے میں رکھ چھوڑیں پھر تمام دیکھی ہوئی رومانوی فلموں ناولوں میں سے کسی طریقہ واردات عشق کا انتخاب کریں اور دوستوں میں بیٹھ کر اپنی عشق کہانی بیان کریں۔ اس کو کہتے ہیں:آئو حسن یار کی باتیں کریں، زلف کی ابرو کی رخسار کی باتیں کریں۔
٭٭٭٭
اکھاڑہ
….Oخورشید شاہ:وزیراعظم سازشیوں کو بے نقاب کریں، جمہوریت کے لئے کھڑے ہوں گے،
جب آپ کو معلوم ہے تو میاں صاحب کو کیوں زحمت دیتے ہیں،
….Oشہباز شریف:عوام کے ٹھکرائے ہوئے سیاسی عناصر کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہو گی۔
عوام کے پاس کوئی آپشن ہی نہیں انہیں راہ میں خربوزے کا چھلکا پڑا مل جائے تو اٹھا لیتے ہیں، کیونکہ وہ انہی پر پھسلتے ہیں،
….Oپیپلز پارٹی لاہور کے صدر عزیز الرحمٰن چن: ہر جیالا بھٹو ازم کے لئے پُر عزم،
پھر زرداری ازم کا کیا بنے گا؟
….Oذکر سیاست عذاب ہے یارو۔
اس لئے الیکشن آنے کے لئے لوگ اپنی ٹھیک ٹھیک رائے کو ہوا نہ لگنے دیں،
….Oسیاسی بحث مباحثے ترک کر دیں، اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دیں، کہ اس میں ہمارا روشن مستقبل پوشیدہ ہے۔
جھوٹ اکثر کسی سچ کو چھپانے کے لئے بولا جاتا ہے، اور بار بار بولا جاتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے