کراچی :پیپلز پارٹی کیسے جیتی

گو صورت حال پیپلزپارٹی والوں کے موافق نہ تھی

ایک جانب اسٹبلشمنٹ تھی تو دوسری جانب اسٹبلشمنٹ کی سیاسی جماعتیں

مگر خلق خدا کی مزاحمت کے آگے کوئی زمینی خدا نہ ٹہرسکا

ووٹرز کو بظاہر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے روکا جارہا تھا، جیالے ایک کے بعد ایک گرفتار ہورہے تھے، چنیسر گوٹھ میں ان کے گڑھ پر نتائج میں چوتھی اور پانچویں پوزیشن آنے والے ووٹنگ کے عمل کو سبوتاژ کررہے تھے

لیاری اور ملیر کے بعد پیپلزپارٹی نے سندھ کی ماروی کراچی کا تیسرا حلقہ بھی جیت لیا

نانا بھی کراچی میں وہ کامیابی حاصل نہ کرپائے جو نواسے نے اب تک حاصل کرلی ہیں

پی ایس 114 کی کامیابی پی پی والوں کے لئے اس لئے بھی اہم ہے کہ اسی روز پیپلزپارٹی کے امیدوار نے ہنزہ نگر میں چار جماعتی اتحاد کو ضمنی انتخابات میں شکست دی

گویا ہمالیہ کی بلندی پر بھی بھٹو زندہ ہے اور بحیرہ عرب کے کنارے بھی

پیپلزپارٹی کی گلگت اور کراچی میں کامیابیوں سے یہ بات تو طے ہوئی کہ یہ پارٹی ختم ہوئی ہے اور نہ سندھ تک محدود بلکہ اب بھی یہ جماعت وفاقِ پاکستان کی واحد علامت ہے، اس جماعت سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر اسے مائنس نہیں کیا جاسکتا

پی ایس 114 میں عوامی مزاحمت کے آگے کوئی نہ ٹک پایا، عرفان اللہ مروت کے روپ میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے امیدوار چوتھی اور پانچویں پوزیشن پر آکر اپنی ضمانتیں تک ضبط کروا بیٹھے

پیپلزپارٹی کی کامیابی کے ساتھ ہی پی ٹی آئی کے روپ میں غلام اسحاق خان کے داماد عرفان اللہ مروت کی سیاست کا بھی خاتمہ ہوگیا گویا غلام اسحاق خان کی سیاست کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک کر بے نظیر بھٹو کے بیٹے نے اپنی ماں سے ہوئی ناانصافیوں کا انتقام بھی لے لیا

فاروق ستار اینڈ کمپنی نے دوسری پوزیشن پر آتے ہوئے حیران کن اور قابل تعریف ووٹ حاصل کئے تاہم ان کی شکست کے ساتھ ہی یہ بات یقینی ہوگئی کہ ایم کیوایم الطاف حسین کے بغیر کچھ نہیں ہے

کراچی میں ضمنی انتخاب کی سرگرمیوں سے پیپلزپارٹی کی تیسری نسل کے اردو بولنے والے جیالوں کی ایک بڑی کھیپ بھی سامنے آئی ہے، ان کی تعداد اور جوش دونوں حیران کن ہیں، پیپلزپارٹی بنائی بھی مہاجروں نے تھی اور یہ مہاجروں کے لئے آج کے کراچی میں ایک بہترین متبادل بھی ثابت ہوسکتی ہے، مہاجر جیالے اس ضمن میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں، نوجوان بلاول اگر مزید کامیابیاں چاہتے ہیں تو انہیں ینگ جنریشن کو آگے لانا ہوگا

لاکھوں انٹلکچوئیل بھی مل کر عوامی شعور کی بلندی تک نہیں پہنچ سکتے، عوام طاقت کا سرچشمہ ہیں، عوام کو جاہل، ذہنی غلام اور زندہ لاش کہہ کر ان کی توہین تو کی جاسکتی ہے مگر عوام انتقام لے لیتے ہیں، بریانی کی دیگوں یا ٹویٹس کے سیلاب سے عوام کی حمایت نہیں ملتی اور آج کراچی میں عوام کی مزاحمت کے ساتھ ایک نئے سیاسی دور کی ابتداء ہوئی ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے