جنگ گروپ اورسٹاک ایکسچینج کیسے پھنسے؟

[pullquote]جنگ گروپ اورسٹاک ایکسچینج کیسے پھنسے؟[/pullquote]

بے یقینی ،جھوٹ اور فراڈ کا پہلا نشانہ آج وہ چھوٹے سرمایہ کار بنے ہیں جنہوں نے صبح وزیر اعظم کے بچ نکلنے کی خبر پر یقین کرتے ہوئے اپنی جمع پونجی حصص میں اضافہ کی امید پر سٹاک مارکیٹ میں جھونک دی .پیسوں کو اس طرح حصص بازار میں جلانے سے مارکیٹ میں تو شاندار اضافہ ہوا گیا لیکن جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مندرجات سامنے آتے ہیں ان چھوٹ سرمایہ کاروں کے منہ سے اپنے اور جے آئی ٹی کیلئے گالیاں اور درد بھر آوازیں نکلنیں لگیں کیونکہ ان کی سرمایہ کاری ڈوب گئی ہے اور مارکیٹ میں جو بے یقینی چھاگئی ہے اس سے اس کی سرمایہ کاری پر منافع تو دور کی بات اگر یہ اپنے حصص سے جان چھڑا لیں تو بڑی بات ہو گی لیکن زیادہ چالاک جو کبھی ہجوم کے ساتھ نہیں بھاگتے انہوں نے یقینی طور پر آج مارکیٹ میں اضافہ کے ساتھ اپنے حصص فروخت کرنا شروع کر دئے ہونگے اور اب ان کے منہ سے خوشی کی آوزایں نکل رہی ہوں گی۔

اس معاملہ کا ایک اور پہلو بھی ہے وہ جنگ اور نیوز کی غلط خبر اور قربانی کا بکرا بننےوالانوجوان رپورٹر احمد نورانی بھی ہے میں نورانی کو بھی جانتا ہوں اور اس گروپ کو بھی اور یہاں میں 15 سے زیادہ سال گزارے ہیں ،رپورٹر کو کوئی خواب نہیں آتا کہ وہ حساس دستاویزات تک رسائی حاصل کر لے ہمیشہ کوئی نہ کوئی خبر دیتا ہے اور جب کوئی اہم معاملہ چل رہا ہو تو ‘بڑے لوگ ” براہ راست مالک سے بات کرتے ہپں اور اپنی خواہش کا اظہار بھی اس موقع پر لین دین ہوتا ہے جس کے بعد مالک کسی کی ڈیوٹی لگا دیتا ہے اوتر وہ معصوم مالک کی عین منشا کے مطابق سورس سے رابطہ کرتا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر خفیہ اور حساس خبریں چلنا شروع ہو جاتی ہیں ،ایک اور طریقہ بھی ہے وہ خبروں کی چوری اور دستاویزات پر ہاتھ صاف کرنا ،کسی چھوٹی ملازم کو پیسے دے کر خبریں حاصل کرنا وغیرہ وغیرہ یا پھر اپنے اچھے سورس بنانا اور اہم خبریں حاصل کرنا جیسے روف کلاسرا یا اس طرح کے دیگر کام کرنے والے ”کبھی ہم بھی پیسے دے کر خبریں حاصل کرتے تھے ” لیکن یہ عمومی طریو کار ہے جب کوئی اہم معاملہ چل رہا ہو تو اس وقت یا خیال آارئی ہوتی ہے یا پھر پلانٹڈ خبریں چلتی ہیں جیسے اے آر وائی اور جنگ گروپ کی خبریں اپنے اپنے فریق اپنے اپنے گروپ کو خبریں دیتے ہیں،لیکن اس مرتبہ لگتا ہے جنگ گروپ کو ڈبل کراس کیا گیا ہے جھوٹی خبر پلانٹ کر ا کے گروپ کو سپریم کورٹ کے سامنے بھی اور قوم کے سامنے بھی اور میڈیا کے سامنے بھی شواہد کے ساتھ غلط غلط اور جھوٹا ثابت کر دیا گیا ۔

یہ معاملہ کا ایک پہلو ہے یہ تو نورانی کوپتہ ہو گا کہ اس کو کس نے خبر کس کے کہنے پر دی اور کس کے حکم پر اس کو لیڈ سٹوری بنایا گیا لیکن یہ لیڈ سٹوری تو بنتی تھی،، اب جو صورتحال بنی ہوئی ہے اس نورانی کو قربانی کا بکرا بنا کر بھی کام نہیں چلے گا ٹھوڑا بہت حساب تو دینا ہی ہو گا .

اگر نواز شریف کو سیکورٹی رسک سمجھ کر پھنسایا گیا ہے تو جنگ گروپ کو تو حامد میر پر حملہ کے بعد کی صورتحال میں پہلے ہی مشکوک قرار دے دیا گیا تھا اور مشکل سے جان بچی تھی ،معاملہ کا دوسرا پہلو کور کمانڈر کانفرنس ہے اس کی پریس ریلیز پر جے آئی ٹی کی رپورٹ کا زکر ہو نہ ہو اس پر بحث ضرور ہوئی ہو گی کیونکہ اس سے پہلے اسی طرح کی کور کمانڈر کانفرنس میں پریس ریلز میں سپریم کورٹ کی ہدایات پر اور اس کی بھر پور معاونت کا زکر کیا گیا تھا ،اب آئین اور قانون کی بالا دستی کسی کو تو یقینی بنانا ہے اور جس کے پاس بندوق ہو اس سے زیادہ کون طاقتور ہو گا جو آئین اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنا سکے اور جہاں تک ووٹ دینے والے لاکھوں عوام کا تعلق ہے تو ان کی نہ پہلے کوئی ایمیت تھی نہ اب ہے اور انشاللہ نہ مستقبل میں ہو گی میرے منہہ میں خاک کم از کم میرا اخری جملہ سچا ثابت نہ ہو اور ایک دن اس ملک کے عوام ہی اس ملک کے اصل حاکم بن سکیں۔۔

نواز شریف کو اور مریم نواز شریف کو قصور وار ٹھرائے جانے کے بھی متعدد مزیدار پہلو ہیں ،مریم نواز شریف کو ڈان لیک سے تو بچا لیا گیا تھا لیکن جے آئی ٹی سے نہیں بچا پائے ، اب میاں نواز شریف کسطرح مریم نواز شریف کو اپنی جگہ وزیر اعظم بنا پائیں گے بہت مشکل صورتحال بنتی نظر آ رہی ہے ،اب اگر نواز شریف جاتے ہیں یا انہیں جانے کا کہا جاتا ہے تو پھر وہ اپنی پرانی بغاوت والی تقریر کا اعادہ نہیں کر پائیں گے کیونکہ اب فوج نے نہیں کسی اور ادارے نے انہیں قصور وار سمجھا ہے ” کوئی اور ادارہ؛؛ تو اب صرف اگر ایا تو وہ آئین اور قانون کی بالادستی کیلئے آئے گا اور نواز شریف اس طرح بد قسمت قرار پائیں گے کہ سی پیک اور توانائی کے منصوبوں کا کریڈٹ جمہوریت کے ثمرات نہیں ہونگے ۔

موجودہ صورتحال بے یقینی کو جنم دے گی جس کا پہلا نشانہ تو صبح حصص بازار ہو گا اور دوسرا نشانہ سرمایہ کاری کا ماحول ، اب سرمایہ کار بے یقینی کے بادل چھٹنے کا انتظار کریں گے اور خطہ کی صورتحال میں یہ انتظار طویل بھی ہو سکتا ہے لیکن نشانہ ملکی میشت بنے گی اور بننا شروع ہو گئی ہے ،معاملات اب پر سکون نہیں ہونگے اس کھیل کی بہت سارے کھلاڑی ہیں جن میں سی پیک اور توانئی منصوبوں کے دشمن بھی ہیں اور محب وطن دوست بھی ،نواز شریگ کو نکالا گیا تو اس کا ردعمل بھی ہو گا اور نہ نکالا گیا اس کا ردعمل بھی ہو گا اگر عمران خان کسی کے اشارے پر لوگوں کو ڈی چوک میں لا سکتا ہے اور ریاست انہیں مار کر بھگا بھی نہیں نہیں سکتی تو نواز شریف بھی لوگوں کو اکھٹا کر سکتا ہے دونوں صورتوں میں ملکی معیشت کیلئے اچھا نہیں ہوا اور لڑائی ہو گی اور یہ لڑائی نہ ملک کیلئے اچھی ہے اور نہ ہی سی پیک کیلئے جس کو ناکام بنانے کیلئے بھارت امریکی گھٹ جوڑ تو سامنے کی بات ہے کچھ اور کردار بھی ہیں جو ہر گز اس ملک کے دوست نہیں اللہ ٌپاکستان پر رحم کرے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے