حکومت کی ملی بھگت سے شہریوں پر ظلم کی انتہا

eatinghealthyonabudget (1)

اظہاریہ : سجاد اظہر

11737011_10152986981963663_830338395_n

سینئر صحافی

۔ ۔ ۔ ۔

پاکستان میں عام آدمی کا بڑا مسئلہ مہنگائی ہے ۔وہ بازار جاتا ہے تو اشیائے خوردونوش کی قیمتیں دیکھ کر فشار خون کا شکار ہو جاتا ہے۔وہ کڑھتا ہے اس کا دل خون کے آنسو روتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو پیٹ بھر کر کھانا بھی نہیں کھلا سکتا ۔

اگر آپ کسی بیوروکریٹ یا سیاستدان سے اس کی وجہ پوچھیں تو ان کے پاس دو طرح کے جوابات ہوتے ہیں ،بیوروکریٹ کہتا ہے کہ ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کا مسئلہ ہے ۔مانگ زیادہ ہے اور پیداوار کم ۔یہی سوال کسی سیاستدان سے کریں تو وہ کہتا ہے کہ قیمتیں اس لئے زیادہ ہیں کہ لوگوں کی قوت ِ خرید بڑھ گئی ہے اور ظاہر ہے اس کئے لئے وہ اپنی حکومت کو کریڈٹ دیتا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے پاس پیسا آرہا ہے اور وہ خرچ کر رہے ہیں۔

ہو سکتا ہے کہ ان دو نوں آراء میں کچھ صداقت ہو مگر اصل مسئلہ یہ نہیں ہے ۔یہ سمجھانے کے لئے میں آپ کو بازارلئے چلتا ہوں اور صرف دو مثالیں دیتا ہوں ۔رمضان سے صرف ایک روز پہلے لیموں کی قیمت 120 روپے کلو تھی جو کہ یکم رمضان کو 240 تک پہنچ گئی ۔ایک روز میں کیا ہو گیا کہ قیمت ڈبل ہو گئی ؟کل ہی میں افطاری سے پہلے اسلام آباد کے رمضان بازار گیا جہاں پر اربیاں 70 روپے کلو بک رہی تھیں جبکہ بازار کے نوٹس بورڈ پر ان کی قیمت 35 روپے کلو درج تھی۔جب اس کی وجہ پوچھی تو پاس کھڑے ایک صاحب کہنے لگے کہ پانچ منٹ پہلے میں نے اربیاں 35 روپے کلو کے حساب سے خریدیں ہیں مگر اس وقت اسسٹنٹ کمشنر بازار کا دورہ کر رہے تھے ، اب وہ جا چکے ہیں اس لئے اب انھیں پھر من مانی کرنے کا موقع مل گیا ہے ۔

چند روز پہلے جب میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے آفس گیا تو وہاں کئی ریڑھی بانوں اور دوکانداروں کو ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں ۔میں نے وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ گرانی پر انھیں گرفتار کیا گیا ہے ۔یعنی جب گرفتاریاں بھی ہوتی ہیں لوگوں کو جرمانے بھی ہوتے ہیں ۔حکام باقاعدگی سے بازاروں کا دورہ بھی کرتے ہیں مگر پھر بھی مہنگائی کسی کے کنٹرول میں نہیں ۔اس کی آخر وجہ کیا ہے ؟بظاہر اس کی وجہ بڑی سادہ ہے ایک تو انھیں گرفتاری کے بعد صرف اتنا جرمانہ ہوتا ہے جو ان کی ایک روز کی کمائی کے برابر بھی نہیں ہوتا چنانچہ انھیں معلوم ہے کہ اگر پکڑے بھی گئے تو زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا ۔اس سلسلے میں صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو سخت اور موئثر قانون سازی کی ضرورت ہے ۔

آج کی دنیا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سرمایہ داروں کی دنیا ہے جس میں عام آدمی کی حیثیت ایک صارف سے زیادہ نہیں ہے ۔سرمایہ دار اس سے محنت کروا کر اسے اتنا معاوضہ دیتا ہے جتنادوسرا سرمایہ دار اس سے خرچ کرواسکے۔دنیا میں سرمایہ دار اور اس کے نظام کی اجارہ داری ہے ۔اب تک کا سب سے کا میاب نظام ِ حکومت جمہوریت کو قرار دیا جاتا ہے ۔جو درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام کی بائی پراڈکٹ ہے ۔

پاکستان میں چونکہ پوری طرح سرمایہ دارانہ نظام نہیں ہے ۔یہاں جاگیر دار بھی ہے ،اور مراعات یافتہ اسٹیبلشمنٹ بھی جن کا مقصد ایک ایسے ڈھیلے ڈھالے نظام کو دوام بخشنا ہے جہاں ان کا چراغ جلتا رہے چاہے غریب کو خون سے ہی جلے ۔اس لئے یہاں جمہوریت ثمر آور نہیں ہے ۔مغربی ممالک میں آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے یہی حال تھا ۔دوکاندار قیمتوں میں من مانے اضافہ کرتا ۔کبھی مارکیٹ میں آلو نایاب ہو جاتاتو کبھی چینی۔وہاں بھی آڑھتی اور مقامی دوکان داروں نے ایک شیطانی گٹھ جوڑ بنا لیا تھا۔ ایسے ہی حالات تھے جو آج کل ہمارے بازاروں میں ہیں ۔مگر انھوں نے اس کا ایک حل نکالا ۔

اگر ہم اس طریقے کو اپنا لیں تو یہاں بھی مصنوعی مہنگائی ختم ہو جائے گی۔اور وہ حل بڑ اسادہ ہے۔

مہنگائی کی ایک بڑی وجہ آڑھتی اور مقامی دوکاندار ہے ۔آڑھتی کسان سے جو چیز 20 روپے کلو خریدتا ہے اسے 40روپے میں بیچتا ہے ۔اور دوکاندار بھی اسے 40روپے میں خرید کر 80روپے میں بیچ دیتا ہے اس لئے کھیت سے گھر تک پہنچنے تک صارف کی جیب سے 60روپے نکال لئے جاتے ہیں ۔مغرب نے آڑھتی اور دوکاندار کا کردار ہی ختم کر دیا ۔یہ نہیں کہ ان کے کاروبار پر پابندی لگا دی بلکہ ایک ایسانظام وضع کر دیا جہاں یہ لوگ کنگال ہو کر کاروبارہی چھوڑ گئے ۔مغرب میں آج ریٹیل پر دس بڑی کمپنیوں کی اجارہ داری ہے ۔جن میں وال مارٹ 11ہزار سٹورز اور 469ارب ڈالر کی سالانہ آمدن کے ساتھ سرفہرست ہے۔

ٹیسکو7300سٹورز اور 101ارب ڈالر کی آمدن کے ساتھ دوسرے اور کوسکو99ارب ڈالر کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے ۔اسی فہرست میں جنوبی افریقہ کی کیئر فر،جرمنی کی لڈل ،میٹر و اور آلڈی بھی ہیں ۔ہر ملک ان تمام کمپنیوں کو سہولت فراہم کرتا ہے کہ وہ ان ممالک میں آئیں اور کاروبار چلائیں ۔اس کے بعد یہ کمپنیاں کھیتوں میں جا کر براہ ِ راست خریداری کرتی ہیں اور جو چیزیں باہر سے منگوانی ہوتیں ہیں انھیں خود در آمد کرتی ہیں ۔انھوں نے اربوں ڈالرمیں خریداریاں کرنی ہوتی ہیں ۔جو چیز ایک عام درآمد کنندہ کو دس ڈالر میں پڑتی ہے وہ انھیں پانچ ڈالر میں مل جاتی ہے اور یہ آگے چھ ڈالر میں صارف کو بیچ دیتے ہیں ۔ اس کے مقابلے پردوسری کمپنی کو شش کرتی ہے کہ وہ اس سے بھی کم قیمت پر مال بیچے ۔سارا سال ان میں کمپنیوں میں مقابلہ جاری رہتا ہے ۔صارف کو معیار اور قیمت دونوں لحاظ سے اچھی آفرز ملتی رہتی ہیں ۔

پاکستان بھی اب سالانہ 40ارب ڈالر کی سیل مارکیٹ ہے ۔اگر یہاں ہم بڑی کمپنیوں کو دعوت دیں تو وہ بخوشی آئیں گی۔اگر دو چار کمپنیاں بڑے شہروں میں پچاس سپر سٹور کھول لیں تو مصنوعی مہنگائی ختم ہو جائے گی ۔اس کا صرف ایک نقصان ہے اور فائدے بے شمار ، نقصان یہ ہے کہ چھوٹا دوکانداربیروزگار ہو جائے گا ۔لیکن دوسری جانب حکومت کو بڑی مارکیٹوں سے جو ٹیکسز وصول ہوں گے اس سے حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہو گا ۔حکومت اس پیسے سے بڑے منصوبے شروع کرے گی جس سے بیروزگار ہونے والوں کے مقابلے پر روزگار کے نئے مواقع کہیں بڑی تعداد میں پیدا ہوں گے ۔

میں کافی عرصہ برطانیہ اور امریکہ میں مقیم رہا ۔میں نے مسابقت کے اس نظام کا بغور جائزہ لیا ہے ۔امریکہ میں چین سے بنا انرجی سیور پاکستانی 80روپے میں مل جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں وہ 140 روپے کا ہے ۔جبکہ چین سے امریکہ کا فاصلہ بھی زیادہ ہے اس لئے کرایہ بھی زیادہ پڑتاہو گا ۔

اسی طرح حلال مرغی کاایک کلو صاف گوشت تقریباً دو سو پاکستانی روپے کا ہے۔ لیکن پاکستان میں اوسطاً اڑھائی سو روپے کا کلو ہے ۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ مکروہ گوشت جو دیگرلوگ کھاتے ہیں اس کی قیمت تقریباً اس سے بھی آدھی ہے ۔

امریکہ میں فی گھنٹہ اوسط اجرت تقریباً 25سو پاکستانی ہے اور اگر ایک بندہ آٹھ گھنٹے کام کرے تو وہ 20ہزار روپے کما کر گھر جاتا ہے اتنے پیسے پاکستان میں مرغیاں حلال کرنے والا شاید مہینے میں ہی کماتا ہو گا مگر مرغی پھر بھی مہنگی ہے ۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مہنگائی کی وہ وجوہات نہیں جو ہماری بیوروکریسی اور سیاستدان آپ کو بتاتے ہیں ۔

اگر نوازشریف اس فارمولے پر عمل کر لیں تو میں دعوے سے کہتا ہوں کہ مہنگائی ختم ہو جائے گی۔لیکن شاید ایسا نہیں ہو گا کیونکہ مجھے یاد ہے ایک بار میں نے محترمہ بینظیر بھٹو کا انٹرویو کیا ۔ایک سوال پر وہ بہت جذباتی ہو گئیں کہنے لگیں کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس ملک کو سیاستدانوں نے لوٹا ہے تو پھر صرف ایک شہر اسلام آباد کاسروے کرا لیں اور معلوم کریں کہ ان بڑے بڑے محلوں میں کون رہتا ہے ۔ یہ محل کسی سیاستدان کے نہیں بلکہ آڑھتیوں ، ہول سیلروں اور بلیک مارکیٹروں کے ہیں ۔جو عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالتے ہیں ۔یقینا ان لوگوں کی لابنگ بھی ہے اور یہ بڑے بڑے سیاستدانوں کو فنڈنگ بھی کرتے ہیں اس لئے ان کے خلاف کچھ بھی نہیں ہو سکتا ۔اس لئے میں اور آپ مہنگائی کا رونا روتے ہیں اور یہ بھی یقین کر لیتے ہیں کہ یہاں کچھ نہیں ہو گا ۔یہ ملک ایسے ہی چلتا رہے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے