تنویر جہاں کی شجر کاری اور سائیں مرنا کی سوز خوانی

تنویر جہاں کو مزے مزے کی باتیں سوجھتی ہیں۔ کل ملا کے 15 x 20 فٹ کا ایک باغیچہ سا بنا لیا ہے۔ لان کہنا تو اسے زیب نہیں دیتا۔ درویش عمر بھر مٹی کے گملوں میں زیر زمین خوابوں کو پانی دیتا آیا ہے۔ اب جو موقع ملا تو اس تنک سے قطعہ ارضی پر انجیر، انار، شریفہ، آواکاڈو، لیموں، لیچی اور چکوترے کے کچھ پودے گاڑ دیئے، انگور کی بیل چاروں طرف چڑھا دی۔ اور ہاں بھائی انتظار حسین کی اماں کا حکم یاد تھا، ایک پودا سکھ چین کا بھی دھانس دیا۔ تنویر جہاں آج کل فلسفہ اور تاریخ نہیں پڑھتیں، بس وہ ٹی وی چینل دیکھا کرتی ہیں جس کے ہر مکالمے سے روایت کی کافوری بساند آتی ہے۔ ایک روز جب ڈرامے کے وقفے میں ایک طلاق مطبوعہ اور ایک نکاح مخدوش کی نیو رکھ دی گئی تو لاؤنج سے باہر تشریف لائیں۔ درویش کو برگ و بار کی الجھنوں میں ہلکان پایا تو فرمایا کہ اتنے چھوٹے سے لان میں اتنے پیڑ لگا لو گے تو گھاس کا ستیاناس ہو جائے گا۔ شریک حیات بھلے تنویر جہان ہی کیوں نہ ہوں، عرض و معروض کی گنجائش کم ہی ہوتی ہے ورنہ دست بستہ کہتا کہ گھاس کا واحد جواز یہ تھا کہ والٹ وٹمن کوئی ڈیڑھ سو برس پہلے گھاس کی پتیوں پر نئی شاعری کا چھینٹا دے اور یہ کام وہ بخیر و خوبی کر چکا۔ اب آپ چھ فٹ کے گھاس کے قطعے پر کیا صوفی غلام مصطفیٰ کی چہل خرامی کا نظارہ کرنا چاہیں گی۔ یہ لاہور کا نواح ہے، نیو امریکہ کا منطقہ نہیں کہ بوسٹن کے ہرے قالین پر صاحبان علم گیان کی ورشا دیں۔

ہم غریب لوگ ہیں، زندگی لقمہ خشک اور آب سرد کے گھونٹ کی کشمکش میں گزر گئی۔اب اگر حسن اتفاق سے مٹی کا ایک ٹکڑا مل گیا ہے تو اسے رچنا بنا لیتے ہیں۔ سوچے سمجھے نقشے سے ترتیب پانے والے باغ تو مالیوں کے دست ہنر کا کرشمہ ہوتے ہیں۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق کا نام دیو مالی کیسا کڑھا ہوا ہنر مند تھا اور موت بھی ایسی ہی نصیب ہوئی جو نیک لوگوں کے حصے میں آتی ہے، ادھر ادھر سے ٹہنی، شاخ اور کونپل کا جو گپھا سا بنتا ہے، واللہ، گورنر ہاؤس کے وسیع و عریض میدانوں کی قسمت میں ایسی روئیدگی کہاں۔ اگرچہ تنویر جہاں کی نویافت اشرافیہ حیثیت کو یہ اردو میڈیم شاعری ایک آنکھ نہیں بھاتی، لیکن قصہ زمین، بر سر زمین۔ اس برس انگور کی شاخوں میں کھٹے انگور کے خوشے لٹکے۔ انجیر نے کاسنی جامہ پہنا۔ بھائی طارق علی نے کوئی بیس برس پہلے ایک ناول لکھا تھا، انار کے پیڑوں تلے…..تاریخ کی آویزش اور ذات کی باز آفرینی کا مرقع تھا۔ مگر صاحب، طارق علی نے کیا لکھا ہو گا جو اس برس ہم نے نے انار کی خوش رنگ سبز پتیوں میں فاختئی پرندوں کا رقص دیکھا۔ اگر جیتے رہے تو اگلے برس لال امرود پر ہرے طرطے کی چونچ کا کرشمہ دیکھیں گے۔ ہر برس فروری کا دوسرا ہفتہ شروع ہوتا ہے تو درویش رخصت کا سفید جامہ احتیاط سے لپیٹ کر چھاتی کے پنجرے میں رکھ لیتا ہے۔ کسے معلوم کہ خوشی کی یہ فراوانی اگلے برس نصیب ہو نہ ہو، جو جئے گا، دیکھ لے گا۔

جیسے درویش کو شجر کاری میں ترتیب پسند نہیں اسی طرح ہماری قوم کو بھی معمولات حیات سے رغبت نہیں۔ دو چار برس سیدھی سڑک پر گزر جائیں تو خواہ مخواہ طبیعت میں پگڈنڈیوں اور ذیلی راستوں پر سیر گل کی اکساہٹ ہوتی ہے۔ یہاں وہ محاورہ تو استعمال نہیں کیا جا سکتا جس میں خوئے بد کے لیے ہزار بہانوں کا ذکر کیا گیا تھا مگر خود ہی سے پوچھنا چاہیے کہ سن اٹھاون میں درشن دینے والے نابغے چند واقعات سے گھبرا کر قوم کی نیا سنبھالنے پر مجبور ہو گئے تھے یا کئی برس سے اس حادثہ فاجعہ کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ یہ جو شہید ضیاءالحق نے رونمائی دیتے ہی نوے روز کی دند مچائی تھی، بعد کے واقعات میں تو ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ حضرت نے کبھی ایک لمحے کے لیے بھی نوے روز کے وعدے کو نبھانے کا ارادہ تک باندھا ہو۔

اکتوبر 99ءکی وہ تاریک شام ابھی حافظے میں مدہم نہیں ہوئی جب کئی گھنٹے تک چودہ کروڑ کی قوم بیم و رجا کے تختے پر سزا سنائے جانے کی منتظر رہی۔ بعد میں جمشید گلزار کیانی اور شاہد عزیز نے تو کھل کر لکھ دیا کہ پرانی دلی کے سید بادشاہ سری لنکا کے دورے پر جانے سے پہلے منصوبہ مکمل کر چکے تھے۔ ذمہ داریاں تقسیم ہو چکی تھیں۔ اس بار تو نوے روز کا حیلہ بھی نہیں کیا گیا۔ عدالت عظمی کے نام پر جو کچھ بچا تھا اس سے ٹھیک تین برس کی مہلت لے لی گئی۔ مراکش کے ایک استاد احمد اوباؤ اکتوبر 99ء کے فورا بعد جرمنی کے ایک قصبے کاٹن ہائیڈ میں درویش کے استاد ٹھہرے۔ فرمایا کرتے تھے کہ پرویز مشرف کو وسطی ایشیا سے گیس پائپ لانے کا ذمہ سونپا گیا ہے۔ باقی سب کہانیاں ہیں۔ حضور، کہانیاں ہمیں بہت بھاتی ہیں۔ پرانی دلی کی حویلی سے آنے والا سید زادہ نو برس اقتدار میں گزار کر دس برس قبل سبکدوش ہو گیا، اور ایک عرصے سے کمر درد کا علاج کرانے مشرق وسطی کی حرم سراؤں میں مقیم ہے۔ گیس کی پائپ لائن شاید دوشنبے کی گلیوں میں کہیں گم ہو گئی۔ ایوب خان اپنی عظیم سیاسی فکر کے مطابق جمہوریت کو مناسب خدوخال نہیں دے سکے اس لیے کہ جمہوریت بنیادی یا ثانوی درجوں کی متحمل نہیں ہوتی۔ یحییٰ خان سے ملک ٹوٹ گیا کیوں کہ سیدھے سادے سولجر کو اپنی صدارت کی ضمانت درکار تھی۔

جالندھر والے کحل جواہر فروش نے ملک کو اسلامیانے کا بیڑا اٹھایا تھا۔ یہ وہ نیک کام ہے جو صدیوں سے شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا۔ مغرب سے مانگا ہوا ہوائی کھٹولا دغا نہ دیتا تو ملک کو اسلامیانے کے ہزارہا بہانے ابھی باقی تھے۔ ہزار بادہ ناخوردہ در رگ تاک است….. ہم لوگ بھی طرفہ طبیعت رکھتے ہیں۔ چھان بین پر اتر آئیں تو ٹائپ کے فونٹ پر جمہوریت کو مصلوب کر دیتے ہیں اور طبیعت جودوسخا پر مائل ہو تو مڑ کر یہ نہیں پوچھتے کہ صاحب آپ کا وہ جو سات نکاتی پروگرام تھا وہ کہاں سے ٹپکا تھا، اور یہ کہ کیا اب قوم کو سات نکاتی پروگرام کی ضرورت نہیں ہے؟ بات یہ ہے کہ ہم پکی ہوئی انجیر پر چونچ مارنے والی چڑیا کے پیچھے بھاگتے ہیں اور باغ کو روند ڈالنے والے ہاتھی سے چشم پوشی فرماتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ تنویر جہاں کا ہتھیلی بھر باغ بھی اجڑ جاتا ہے۔ اور ہمارے حصے میں سائیں مرنا کی ہوک بھری کوک رہ جاتی ہے۔ ایک ایک ہفتے کے وقفے سے ہواخواہوں کو تسلی دی جاتی ہے تاکہ سانبھر کی اونچی گھاس میں گنے کی بربادی کا ارادہ باندھے ہاتھی پر کسی کی نظر نہ پڑے۔ چڑیا انجیر پر چونچ مارے جا رہی ہے، امرود پر طوطا نشان چھوڑ رہا ہے، ہمارے لیے کہانی کا یہی حصہ کافی ہے۔ باقی سائیں مرنا کے اکتارے کی سوز نہانی کا قصہ ہے، جو جیے گا، سن لے گا۔

بشکریہ : روزنامہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے