فلاحی معاشرہ کیسے؟

رفاہ عامہ کے لئے کام کرنا ،ادارے بنانا نہ صرف اچها کام ہے بلکہ اس کے بارے میں اسلام میں تاکید بهی ہوئی ہے، چونکہ اسلام ضابطہ حیات ہے، اسلام نے جس طرح حقوق اللہ کی رعایت کرنے کا حکم دیا ہے حقوق العباد کی اہمیت پر بهی زور دیا گیا ہے اور انسان کی نجات وسعادت کو حقوق اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی سے جوڑ رکهی ہے، چودہ سو سال قبل اسلام نے مسلمانوں کے لئے نظام خمس اور زکاۃ وضح کرکے اس حقیقت کا اعلان کیا ہے کہ فقرآء، مساکین اور محروم وکمزور طبقوں کو اسلام نے نظر انداز نہیں کیا ہے، اسلام کا یہ پاکیزہ خمس وزکات کا نظام اس قدر بہتر اور جامع ہے کہ اگر سارے مسلمان اللہ تعالی کے اس نظام پر بلا چون وچرا دل وجان سے ایمان لاکر خوشی خوشی اسے قبول کرتے ہوئے بروقت ان واجبات کو ادا کرکے بریءالزمہ ہوجاتے، خمس وزکات کی ادائیگی میں بخل نہ کرتے تو آج مسلمان معاشرے میں کوئی بهی مفلوک الحال باقی نہ رہتا- مگرآج کے مسلمان اسلام کے ان اہم واجبات سے روگردانی کرنے میں اپنی عافیت تلاش کررہے ہیں، ایمان کی کمزوری کے سبب خمس اور زکات بروقت ادا کرنے میں بخل اور سستی کا مظاہرہ کررہے ہیں، اور دوسری طرف سے حکمرانوں کی پوری توجہ اپنے ذاتی مفادات پر ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں غربت اور فقر سے کمزور طبقوں کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے-

پاکستان کے معاشرے میں اکثریت خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی ہے، جو انسانی بنیادی حقوق تک سے محروم ہے- صحت ،تعلیم، لباس اور طعام انسان کی ضروریات اولیہ میں سے ہے مگر ہم دیکهتے ہیں کہ ہمارے ملک میں زیادہ تعداد انہیں ضروریات اولیہ سے بهی محروم ہے، جس کی وجہ پاکستان غریب ملک ہونا نہیں ہے، ایسا نہیں ہے کہ ہمارے ملک کے وسائل موجودہ پاکستانی باشندوں کے لئے ناکافی ہوں، پاکستان ثروتمند اور دولتمند ملک نہ ہو ،جو ایسا سمجهتا ہے یقین کیجے وہ اشتباہ کا شکار ہے، بلکہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شمار ہوتا ہے جنہیں اللہ تعالی نے بے شمار نعمتوں سے نواز رکها ہے، پاکستان میں قدرتی وسائل کی کوئی کمی نہیں ، ہماری دھرتی میں سونا، تانبا، لوہا، قدرتی گیس، خام تیل، سنگ مرمر، کوئلہ،اور دیگر کئی نایاب معدنیات بہتات سے موجود ہیں، زراعت اور کاشتکاری کے لئے مناسب زرخیز زمین ہے، موسم سازگار رہتا ہے، دنیا کا بڑا نہری نظام ہمارے ہاں پایا جاتا ہے ،مختلف رنگ برنگ میوہ جات اور انواع واقسام کی سبزیاں ہمارے ہاں موجود ہیں، سیاحت کے لئے خوبصورت ترین علاقے ہمارے ملک میں ہیں جیسے گلگت بلتستان –

یہ پاکستان کے خوبصورت ترین علاقوں میں سے ایک ہے جو زیادہ تر پہاڑی علاقہ ہے۔ گلگت بلتستان پاکستان میں سیاحت کا مرکز ہے خاص کر دنیا کا دوسرا بڑا پہاڑ کے ٹو بھی اسی خطے میں واقع ہے۔اس کے علاوہ اس خطے میں مختلف جھیل،پہاڑ،وادیاں،ندیاں ،کھیل کے میدان،تاریخی عمارتیں،وغیرہ موجود ہیں۔ گلگت بلتستان میں اہم سیاحتی مقامات یہ ہیں کے ٹو پہاڑی ،کچورہ جھیل، سدپارہ جھیل، ژربہ تسو جھیل، دیوسائی نیشنل پارک ،بلتورو گلیشیر، بیافو گلیشیر ،قلعہ التیت 4) وغیرہ- مگر یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ کسی ملک کی ترقی اور اس ملک کے عوام کی خوشحالی کے لئے تنہا قدرتی وسائل موجود ہونا کافی نہیں ہے، جب تک اچهی مدیریت کرکے ان وسائل سے درست استفادہ نہیں کریں گے ترقی اور خوشحالی کا حصول ممکن نہیں – پاکستان میں ترقی کے بہت سارے مواقعے موجود ہونے کے باوجود عوام کو خوشحالی اس لئے میسر نہیں آرہی ہے چونکہ اس ملک کی باگ ڈور جن کے ہاتهہ میں ہے، اس کے قدرتی وسائل پر جن کا قبضہ ہے وہ اچهی مدیریت کرتے ہوئے انہیں بروئے کار لاکر استفادہ کرنے کی صلاحیت سے عاری ہیں، ظاہر ہے اس کے لئے ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی میں اپنی خوشی محسوس کرنے والے انصاف، عدالت اور مساوات پسند افراد چاہئے ہوتے ہیں، مگر ہمارے ملک کے وسائل پر قابض لوگ ایسے ہیں جو اپنی خوشحالی میں عوام کو خوش رکهنا چاہتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ قدرتی وسائل سے درست استفادہ کرنے کے لئے ٹهوس منصوبہ بندی نہیں کرپارہے ہیں،

یہاں کی پے در پے نااہل اور کرپٹ قیادتوں نے دنیا کا امیر ترین ملک بننے کی اہل مملکت کو اپنے کرتوتوں اور مسلسل لوٹ کھسوٹ سے دنیا کا غریب ملک اور یہاں کے عوام کو مفلوک الحال بنا دیا ہے۔ ایسے میں غربت کے دلدل سے عوام کو نکال کر ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کا واحد حل یہ ہے کہ تعلیم یافتہ لوگ عوام میں شعور بیدار کریں، اور شعور تعلیم سے پیدا ہوتا ہے لہذا ضروری ہے جوانوں اور نسل نو کو علم اور تحقیق کے میدان میں آگے لائیں، اب ظاہر ہے غریب طبقے مالی غربت کی وجہ سے اپنے بچوں کو اپنی مدد آپ کے تحت تعلیم دلوانے کی مالی طاقت نہیں رکھتے ہیں، دولت مند اور وہ افراد جن کی مالی پوزیشن اچهی ہے انہیں چاہئے کہ غریب طبقوں پر بهی توجہ کریں، ان کی مالی مدد کرنے کے لئے تنظیم اور ادارے تشکیل دیں ،غریب گهرانے کے بچوں کی تعلیمی اخراجات پورا کرنے کے لئے چندہ جمع کریں ،اسی طرح ان کو قرض الحسنہ دیا کریں تاکہ غریب طبقوں کے بچے بهی تعلیم یافتہ ہوکر باشعور ہوسکیں –

غرض یہ کہ جب تک پاکستان میں وراثتی اور چند خاندانوں کی باری باری پہ کی جانے والی حکومت کا سلسلہ ختم کرکے باصلاحیت افراد بر سر اقتدار نہیں ہوں گے پاکستانی عوام اسی طرح ظلم وستم کی چکی میں پستے رہینگے ،عوام کی خوشحالی خواب بن کررہے گی، ہماری ساری مشکلات کی جڑ نااہل افراد کی قیادت اور ملک کی زمام ان کے ہاتهہ میں ہونا ہے، جس کی بنیادی وجہ ہمارے عوام کی بے شعوری ہے – شعور کی کمی کے سبب ہمارے لوگ انتخابات کے دوران قابل ، باصلاحیت اور منصف افراد کو اپنے لئے حکمران انتخاب نہیں کرپاتے ہیں، انتخابات کے دوران مختلف سیاسی گروہ اور پارٹیوں کی جانب سے کی جانے والی تبلیغات میں ہوشمندی اور فکری بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے چشم بصیرت سے یہ دیکهہ نہیں سکتے ہیں کہ ان کی تبلیغی باتوں میں کتنا فیصد جهوٹ ومبالغہ گوئی ہے اور کتنی باتیں صداقت پر مبنی ہیں – اس سے زیادہ ہمارے عوام کی بے شعوری اور کیا ہوسکتی ہے کہ جو افراد عوام کو ترقی کا خواب دکها کر ہزاروں وعدے کرکے عوام کے ووٹوں کے بل بوتے پر اقتدار کی کرسی پر پہنچ جاتے ہیں پهر عوام کے ساتهہ کئے ہوئے وعدے پورا کرنا تو اپنی جگہ وہ عوام کے مسائل پر توجہ تک نہیں دیتے ہیں یوں وہ اپنی جیب پر کرکے مدت پوری کرتے ہیں اور جب دوبارہ الیکشن لڑتے ہیں تو عوام دوبارہ انہیں دهوکہ باز افراد کو ووٹ دے کر جتواتے ہیں، یہی سلسلہ آج تک چلتا آرہا ہے جس کی وجہ سے غریب عوام کی مشکلات اور مسائل میں کمی کے بجائے روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے، ایسے میں دانشمندی کا تقاضا یہ ہے ہم بیدار ہوجائیں اور اپنی مدد آپ کے تحت نسل جدید کو تعلیم یافتہ بنا کر باشعور بنانے میں بهرپورکردار ادا کریں- غریب طبقوں کے بچوں کی تعلیم کے بارے میں فکرمند رہیں، انہیں حکومت کے رحم وکرم پر چهوڑنے کے بجائے دولت مند افراد ملکر ان کے مالی مسائل کو حل کرنے میں مدد کریں-

یہاں اس نکتے کی طرف قارئین محترم کی توجہ دلانا ضروری سمجهتا ہوں کہ خطہ بے آئین گلگت بلتستان سے ہماری حکومت کی بے توجهی کسی پر ڈهکی چهپی نہیں، اگرچہ گلگت بلتستان کے جوانوں نے پاکستان کی حفاظت اور سالیمت کے لئے بے مثال قربانیاں دی ہیں، کرگل جنگ میں گلگت بلتستان کے لاتعداد جوانوں نے اپنا لہو دے کر پاکستان کو بچایا، تاریخ شاہد ہے کہ جہاں کہیں بهی پاکستان کو دشمنوں کا خطرہ ہوا خطہ بے آئین کے جوانوں نے سینہ تان کر پاکستان کا دفاع کرنے سے دریغ نہیں کیا، مگر اتنی ساری قربانیاں دینے کے باوجود اب تک ہماری حکومت گلگت بلتستان کو پاکستان کا حصہ قرار دینے سے انکاری ہے، اسی نظریے کی بنیاد پر گلگت بلتستان کو حقوق سے بهی محروم رکها ہوا ہے- برای نام مختصر حقوق حکومت دیتی ہے جو مختلف افراد کے ہاتهوں کرپشن کی نزر ہوکر عوام تک اس کی تھوڑی مقدار ہی پہنچ جاتی ہے جو خود گلگت بلتستان کے شہریوں کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لئے ناکافی ہے، اب شہروں سے دور دراز علاقوں اور دیهاتوں میں زندگی بسر کرنے والے غریبوں کے حالات تو بالکل ناگفتہ ہیں صحت، تعلیم اور دوسری ضروریات زندگی کے فقدان کی وجہ سے شہروں سے دور علاقوں میں شرح اموات اور ناخواندگی میں ہرسال اضافہ ہورہا ہے ،یہاں کے نمائندوں کو بهی غریب عوام کی فکر نہیں جب کہ وہ خود انہی محروم علاقوں میں پلے بڑھے ہوتے ہیں ، ان علاقوں کے حالات زار سے وہ بخوبی واقف ہوتے ہیں مگر منصب انسان کو کور کرتا ہے کا مصداق بن کر وہ بهی منصب سنبهالنے کے بعد صرف حکومت کی خوشامدی، چاپلوسی اور مدح وتعریف میں اپنی مدت گزارتے ہیں اور عوام کے مسائل جیسے تهے ویسے رہتے ہیں- لہذا ثروتمند افراد خصوصا گلگت بلتستان کے جو جوانان دوسرے ممالک میں رزق حلال کی تلاش میں نکلے ہوئے ہیں وہ اپنے اپنے علاقوں کے بچوں کی تعلیم وتربیت کے لئے مالی تعاون کریں، یقین جانیے تعاون کی مد میں جو مختصر رقم آپ دیتے ہیں وہ آپ کے لئے آخرت میں زخیرہ رہے گی، ضائع نہیں ہوگی، آپ کے مختصر چندے سے بہت بڑا تعلیمی ادارہ بن سکتا ہے اور بے شمار غریب بچے تعلیم یافتہ ہوکر باشعور بن سکتے ہیں-

نیکی میں ایک دوسرے کے ساتهہ تعاون کرنے کا اسلامی تعلیمات میں باقاعدہ حکم آیا ہے، ایک حدیث میں رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ نے تعاون کو لوگوں کی خیر و عافیت کا سبب بتایا ہے۔ لایزال الناس بِخیر ما امروا بِالمعروفِ و نہوا عنِ المنکرِ و تعاونوا علی البِرِ والتقوی 1) لوگ اس وقت تک خیروعافیت میں رہیں گے جب تک امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرتے رہیں اور جب تک نیکی و پرہیزگاری میں ایک دوسرے کا تعاون کرتے رہیں۔

حضرت علیؑ تعاون کو دینداری و امانت داری مانتے ہیں: طلب التعاونِ علی اقامۃِ الحقِ دِیانۃ و امانۃ 2 )

حق کو برپا کرنے کے تعاون کی اپیل کرنے میں دیانت داری کی بھی علامت ہے اور امانت داری کی بھی- ایک اور مقام پر حضرت علیؑ تعاون کو اللہ کے حقوق میں شمار کرتے ہیں: مِن واجِبِ حقوقِ اللہِ علی العِبادِ النصیحۃ بِمبلغِ جہدِہِم و التعاون علی اقامۃِ الحقِ بینہم 3)امکان بھرنصیحت کرنا اور بندوں کے درمیان حق قائم کرنے کے لئے تعاون کرنا بندوں پر اللہ کے حقوق میں سے ہے -خدمت خلق کرنے والا شیخ سعدی علیہ الرحمة کے اس مصرع کے مصداق بن جاتا ہے:”ہر کہ خدمت او مخدوم شد “یعنی جو شخص دوسروں کی خدمت کرتا ہےایک وقت ایسا آتا ہے کہ لوگ اس کی خدمت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں-
یہی ہے عبادت یہی دین وایمان
کہ کام آئے دنیا میں انسان کے انسان

مآخذ
1) تہذیب الاحکام ج 2 ص 181
2 )عیون الحکم والمواعظ ح 5563
3 )نہج البلاغہ خطبہ 216
4 )وکیپیڈیا کمپیوٹر

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے