آکاس بیل کا خاتمہ؟

آج پاکستان میں سب سے اہم مسئلہ وزیر اعظم پاکستان کے استعفیٰ کا ہی ہے۔

. جس کے بارے میں انہوں نے ببانگ دُہل اعلان کیا ہے کہ وہ استعفیٰ نہیں دیں گے کیونکہ وہ کرپشن کے ثبوت مانگ رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے عوامی پیسے میں اپنے حکومتی ادوار میں کوئی خورد برد نہیں کی اور نہ ہی ان پر ایسا کوئی الزام ہے ۔ یقینی طور پر بہت سے افراد اس جواب سے مطمئن نہیں ہیں۔

میرے نزدیک حالات اب اس نہج پر آن پہنچے ہیں کہ اب وزیر اعظم کے استعفیٰ دینے یا نہ دینے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ جے آئی ٹی نے جو رپورٹ سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے پاس جمع کروائی ہے اس میں لگائے جانے والے الزامات کے بعد اگر وزیر اعظم اپنے عہدے سے مستعفٰی ہو جاتے ہیں تو ایسا محسوس کیا جائے گا کہ شاید وہ اس رپورٹ کے مندرجات کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے عہدے سے علیحدہ ہو رہے ہیں۔

ایسا تاثر نہ صرف آنے والے دنوں میں ان کے ووٹروں کو ان سے دور کرنے کی وجہ بن سکتا ہے بلکہ سپریم کورٹ کے بنچ کے سامنے ان کی قانونی ٹیم کی طرف سے پیش کئے گئے دلائل پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔

ہمارے ملک کی سیاست چونکہ حقیقت سے زیادہ "perception”پر چلتی ہے، اس لئے سیاسی طور پر وزیر اعظم کا اس وقت استعفیٰ دینا ان کے اور ان کی پارٹی کے لئے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

شاید پانامہ کیس کے فیصلے میں دو ججز کے اختلافی نوٹ کے بعد اگروزیر اعظم مستعفٰی ہو جاتے تو اس عمل کو ان کی اخلاقی برتری سمجھا جاتالیکن اس موقع پر ان کا استعفٰی سیاسی خودکشی سے کم نہیں ہوگا۔

جے آئی ٹی کی رپورٹ کو نہ صرف قانونی بنیادوں پر عدالت میں چیلنج کیا جائے گا بلکہ سیاسی طور پر اس کے اثرات سے نبرد آزما ہونے کے لئے وزراء کو ٹاسک دے دیا گیا ہے۔

دراصل یہ پیغام مسلم لیگ ن کے ان ووٹرز کے لئے ہے جو نوے کی دہائی سے پارٹی کو صرف اس بنیاد پر ووٹ دیتے آئے ہیں کہ ان کی نظر میں مسلم لیگ کے رہنمائوں پر عوامی خزانے کو لوٹنے کے الزامات نہیں ہیں۔

ماضی میں مسلم لیگ ن کی قیادت پاکستان پیپلز پارٹی پر وقتاََفوقتاََ ایسے الزامات لگاکر خود کو پی پی پی سے مختلف ظاہر کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ اب اس کے رہنمائوں کو یہ تشویش ہے کہ پانامہ کیس کے بعد عوام ان کے بارے میں بھی کہیں ایسی ہی رائے نہ رکھنا شروع کر دیں۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب ایک طویل عدالتی جنگ شروع ہو گی جس سے سیاسی فضامیں کشیدگی بڑھے گی۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں موجود خامیوں کی نشاندہی کے لئے ملک کی مشہور قانونی شخصیات کی وزیر اعظم ہائوس آمد جاری ہے۔

کچھ کھل کے سامنے آ رہے ہیں جبکہ دیگر اٹارنی جنرل کے ذریعے شریف خاندان کی مدد کر رہے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی قیادت تو دوہزار تیرہ کے انتخابات کے بعد سے ہی مختلف اوقات پر وزیر اعظم سے مستعفی ہو جانے کا مطالبہ کرتی رہی ہے، اب ایسا لگتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم بھی پی ٹی آئی قیادت کے ہمنواہو گئی ہیں۔

میری ناقص رائے میں اس سب کا مقصد وزیر اعظم پر دبائو بڑھا کر حالات کو اس مقام پر لے جانا ہے جہاں وزیر اعظم خودیا ان کے استعفیٰ کے بعدان کی پارٹی کی جانب سے نامزد کیا جانا والا نیا وزیر اعظم اس قدر بے بس ہو جائے کہ اس کے پاس پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کی سفارش کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ رہے اور مسلم لیگ ن سینیٹ 2018 کے الیکشن تک نہ پہنچ پائے۔

یقیناََ اپوزیشن کی جماعتیں اس تمام تر صورتحال کو اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کریں گی، آخرکار سیاست حالات کو اپنے فائدے میں استعمال کرنے کا ہی تو دوسرانام ہے۔

یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مسلم لیگ ن کی حامی جماعتیں جن کا تعلق بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے ہے ان کے ساتھ کھڑی ہیں۔ ایسے میں کوئی ایسا عمل جو غیر آئینی ہو بہت سے سوالات کو جنم دے گا۔

کچھ اپوزیشن جماعتیںوزیر اعظم کے استعفیٰ کو سسٹم بچانے کے لئے ضروری سمجھتی ہیں، میری نظر میں آنے والے دنوں میں اگر وزیر اعظم نواز شریف کو سپریم کورٹ کی جانب سے سزا ہو بھی جاتی ہے تب بھی سسٹم کو کوئی خاص خطرہ لاحق نہیں ہو گا۔ نواز شریف نا اہل ہو جائیں گے تو ان کی پارٹی میں سے کسی اور کو وزیر اعظم بنا دیا جائے گا۔

ان کی جماعت قومی اسمبلی میں اتنی عددی اکثریت رکھتی ہے کہ ایسا کرنا ان کے لئے کسی مشکل کا باعث نہیں بنے گا۔یہ کہنا کہ اگر وزیر اعظم نا اہل ہو جاتے ہیں تو پارٹی تتر بتر ہو جائے گی اور اس حوالے سے ماضی کی مثالیں دی جاتی ہیں۔

ماضی میں پارٹی اس وقت بکھری جب سربراہ نے خود دس سال تک سیاست میں حصہ نہ لینے کا معاہدہ کیا اور پارٹی میں موجود افراد کے لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ اتنے لمبے عرصے تک انتخابی سیاست سے الگ رہتے۔

فوجی دور میں مجبوریاں اور حالات کچھ اور ہوتے ہیں، جمہوری دور کے تقاضے اس سے یکسر مختلف ہیں۔اس لئے پارٹی کو فی الحال کوئی بڑا خطرہ نظر نہیں آتا اگرچہ ذوالفقار کھوسہ اور چوہدری نثار کے حوالے سے مختلف کہانیاں سننے کو آرہی ہیں۔

جے آئی ٹی کی رپورٹ نے ویسے بھی اس تاثر کو زائل کر دیا ہے کہ نواز شریف کے وزیراعظم ہوتے ہوئے ملکی ادارے ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے گریز اں ہوں گے، اسی لئے میرے خیال میں نواز شریف کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کے لئے جہاں اپوزیشن نے اتنا انتظار کیا ہے وہیں کچھ مزید دن ان کے وزیر اعظم ہونے کو بھی برداشت کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

جس طرح آصف زرداری کے بارے میں ایک دور میں خبریں آتی تھیں کہ وہ پستول سرہانے رکھ کر سوتے ہیں اسی طرح نواز شریف کے حوالے سے تاثر پھیلایا جا رہا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی تسلیم نہیں کریں گے۔

اگر ایسا ہوتا ہے تو عین ممکن ہے کہ دیگر ریاستی ادارے فیصلے پر عملدرآمد کے لئے عدالت کی مدد کو آ پہنچیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو صورتحال واقعی خراب ہو سکتی ہے۔

دوسری جانب وزیر اعظم اور مریم نواز کی جانب سے یہ بات بار بار کہی جارہی ہے کہ اگر انہوں نے رازوں سے پردہ اٹھا دیا تو بہت برا ہو گا ۔۔۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک وزیر اعظم جو حلف کے تابع ہے ان رازوں سے پردہ اٹھا سکتا ہے جو بحیثیت آئینی سربراہ مملکت اس کے علم میں آئیں؟

گلابی سنڈی سے کپاس کی فصل کو خطرہ ہے، لا کڑا کاکڑا کی بیماری پھیل رہی ہے، عوام کو کانگو وائرس سے خبردار کیا جا رہا ہے۔۔۔ بدلتے ہوئے موسم میں گیسٹرو، یرقان ، ٹائیفائڈ پھیلنے کا بھی خطرہ ہے۔ اب آپ ہی بتائیں ان بیماریوں کا مقابلہ کیا جائے یا سیاسی درخت پر چڑھی ہوئی نا اہلی، نا لائقی ، کرپشن اور بیڈ گورننس کی آکاس بیل کا خاتمہ ضروری ہے تاکہ یہ ملک ” بنانا رپبلک ” بننے سے بچ جائے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے