مائنس تھری۔ کیوں اور کیسے؟

میاں نوازشریف اور عمران خان ۔ سماجی حوالوں سے ایک دوسرے سے یکسر مختلف اور سیاسی حوالوں سے ایک دوسرے کے کتنے ہی بڑے مخالف کیوں نہ ہوں، حقیقتاً ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ۔ دونوں اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں ۔ دونوں کے مشکل دنوں کے ساتھی الگ اور اچھے دنوں کے الگ ہیں ۔ دونوں شاہانہ زندگی گزارتے ہیں اور دونوں کی طرز زندگی معلوم ذرائع آمدن سے مطابقت نہیں رکھتی ۔ دونوں کا کوئی سیاسی نظریہ نہیں ۔ دونوں دائیں بازو کے ہیں نہ بائیں بازو کے ۔ بوقت ضرورت دائیں بازو کے بن جاتے ہیں اور پھر کچھ اور اشارہ ملے تو بائیں بازو کے ۔ دونوں کی سوچ انتہائی آمرانہ ہے ۔ نوازشریف سے اختلاف کرنے والا مسلم لیگ میں نہیں رہ سکتا اور عمران خان یا ان کی اے ٹی ایم مشینوں سے اختلاف کرنے والا ان کی پارٹی میں نہیں رہ سکتا۔ مشکل دنوں میں ساتھ دینے والے غوث علی شاہ ، پیر صابر شاہ اور میجر(ر) عامر جیسے لوگ اقتدار کے دنوں میں نوازشریف کے ساتھ نظر نہیں آتے اور ان کے اردگرد پرویز مشرف کے پروردہ زاہد حامد ، ماروی میمن اور دانیال عزیز وغیرہ نظر آتے ہیں ۔

اسی طرح عمران خان کے مشکل دنوں کے ساتھی مثلاً حفیظ اللہ نیازی، سیف اللہ نیازی اور اکبر ایس بابر کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے دھکیل دیا گیا اور اچھے دنوں میں ان کی جگہ پرویز مشرف کے پروردہ فواد چوہدری اورفردوس عاشق اعوان وغیرہ نے لے لی ۔ ایک نے اچھے بھلے پرانے ساتھیوں کو مریم نوازکی قدم بوسی پر مجبور کیا اور جس نے انکار کیا تو اسے مغضوب ٹھہرا دیا گیا ۔ دوسرے نے قرآنی آیات پڑھنے والے اچھے بھلے انقلابیوں کو جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کے قدموں میں لابٹھایا اور جس نے انکار کیا ، وہ خواہ ضیاء اللہ آفریدی یا جاوید ہاشمی کیوں نہ ہو، اسے باہر پھینک کر بے عزت کیا گیا ۔شریف فیملی اور عمران خان دونوں کوسنگین الزامات میں عدالتوں کا سامنا ہے اور دونوں ہی اپنے اپنے دفاع میںتاویلات پیش کررہے ہیں۔ میاں نوازشریف کے دونوں بیٹے بھی لندن میں رہتے ہیں اور عمران خان کے دونوں بیٹے بھی وہاں گولڈ اسمتھ کے گھر میں پارٹی اور پھر پاکستان کی قیادت کے لئے تیار ہورہے ہیں ( جو لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان اقربا پروری نہیں کرتے تو ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ اقربا انہوں نے اپنے ساتھ چھوڑے نہیں ۔ جب کزن سے صلح تھی تو پارٹی میں لوگوں کا آنا جانا ان کے ذریعے ہوتا تھا ۔

جب ریحام خان اہلیہ بنیں تو پارٹی عہدے اور ٹکٹ کے لئے پارٹی کے بڑے بڑے نام ان کی قدم بوسی کرتے رہے ) ۔ نوازشریف کو بھی وزارت عظمیٰ سے عشق کی حد تک محبت ہے اور عمران خان بھی جنون کی حد تک اس کے حصول کے لئے پاگل ہوتے جارہے ہیں ۔ نوازشریف کہتے ہیں کچھ بھی ہوجائے لیکن وہ وزیراعظم رہیں اور عمران خان کہتے ہیں کچھ بھی ہوجائے لیکن وہ وزیراعظم بن جائیں ۔ ایک کہتے ہیں کہ وہ وزیراعظم نہ رہیں تو پھر بے شک نظام بھی نہ رہے ۔۔ اسی طرح دھرنے ، لاک ڈائون اور سول نافرمانی کے اعلانات اس بات کا ثبوت ہیں کہ عمران خان صاحب کو بھی پاکستان اور نظام صرف اپنے لئے چاہئے ۔ لیکن یہ دونوں ایک دوسرے کی انشورنس پالیسی بھی رہے۔ یہ عمران خان کی برکت تھی کہ میاں نوازشریف نے اقتدار کے چار سال پورے کردئیے ۔ ورنہ تو وہ کبھی ڈھائی سال سے زیادہ کا عرصہ نہیں گزارتے ۔ اسی وجہ سے میاں نوازشریف نے ان سے دھرنوں کا حساب نہیںلیا۔ اسی وجہ سے انہوں نے پی ٹی آئی کے مستعفی شدہ ایم این ایز کو غیرقانونی طور پر اسمبلی میں نہ صرف لابٹھایا بلکہ ان کو ناجائز طور پر اس دور کی ناجائزتنخواہیں بھی ادا کردیں جن دنوں میں وہ اسمبلی کو گالی دیا کرتے تھے ۔ اسی لئے وفاقی نیب پشاور کی طرف سے پی ٹی آئی کے وزیراعلیٰ، چھ وزراء اورا سپیکر کے خلاف تیار کردہ کیسزپر کارروائی آگے نہیں بڑھارہے تھے ۔ اسی طرح نوازشریف کو قابو میں رکھنے کے لئے عمران خان امپائروں کی ضرورت تھے ۔ لیکن لگتا ہے اب دونوں کی ڈیوٹی پوری ہوگئی ۔ میاں نوازشریف اب امپائروں کے لئے بھی بوجھ بن گئے ہیں اور ان دوست ممالک کے لئے بھی جنہو ںنے پچھلی مرتبہ انہیں بچایا تھا۔ تبھی تو انہوں نے پورے خاندان کا دبئی اور انگلینڈ میں سارا ریکارڈ نکال کر جے آئی ٹی کے حوالے کردیا ۔ اسی طرح ایمپائر سمجھتے ہیں کہ اب عمران خان کی ڈیوٹی بھی پوری ہوگئی ۔ جب نوازشریف کریز میں نہیں رہیں گے تو پھر عمران خان جیسے اناڑی سیاسی بائولر کی کیا ضرورت ہے ۔

امپائروں کی یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ سیاست کے میدان میں عمران خان صرف بائولنگ کے لئے ٹھیک ہے اور اسے کسی بھی صورت بیٹسمین یا کپتان بنانے کا رسک نہیں لیا جاسکتا ۔ چنانچہ امپائروں کے اشارے پر شریف فیملی کے بال ٹمپرنگ معاملے کو تھرڈ امپائر کے پاس لے جایا گیا اور جواب میں طیش میں آکر میاں صاحب عمران خان کی بال ٹمپرنگ کو وہاں لے گئے ۔ اب اتنے سارے الزامات کے بعد اگر شریف فیملی کو معاف کیا جاتا ہے تو شکوک وشبہات ابھریں گے ماضی میںبعض جج حضرات کے متنازع فیصلوں کی وجہ سے عدلیہ پر سوال اٹھائے گئے اس مرتبہ اگر شریف فیملی اور عمران خان پر الزامات کے حوالے سے شفاف فیصلے کئے گئے تو عدلیہ کی ساکھ بہت بلند ہوگی ۔

اسوقت بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ مائنس تھری فارمولے پر عمل درآمد کا آغاز ہوگیا ہے ۔ جب یہ دو وکٹ گر جائیں گی توتیسرے کو گرانا بائیں ہاتھ کا کھیل ہوگا۔ امپائروں کی خوش قسمتی یہ ہے کہ تینوں بڑی جماعتوں میں دوسری لائن کی قیادت اس منصوبے پر عمل درآمد کی امپائروں سے زیادہ آرزو مند ہے ۔ میاں نوازشریف مائنس ہورہے ہیں تو سگے بھائی شہباز شریف اور اسحاق ڈار سمیت دوسرے درجے کی قیادت بھی دل سے میاں نوازشریف کا ساتھ نہیں دے رہی۔ تحریک انصاف کی صفوں میں شاہ محمود قریشی اور اسد عمر وغیرہ اس د ن کے لئے تڑ پ رہے ہیں کہ عمران خان صاحب نااہل ہوجائیں ۔ وہ سمجھتے ہیں اور بجا سمجھتے ہیں کہ عمران خان میدان میں رہیں گے تو پہلی کرسی ان کی ، دوسری جہانگیر ترین کی اور تیسری جہانگیر ترین کے کسی خاص بندے کی ہوگی ۔ رہی پیپلز پارٹی تو وہاں کا تو ہر کارکن اور رہنما اپنے ہاں کے مائنس ون کے لئے دعائیں کررہے ہیں ۔

تماشا یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف پر مائنس ون کا اطلاق ہوتا ہے تو یہ پارٹیاں تباہ ہوتی ہیںاور ایمپائر کو پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے باغی دھڑوں کی صورت میں کئی مسلم لیگ (ق) ہاتھ آجاتی ہیں لیکن پیپلز پارٹی کو مائنس ون کی صورت میں نئی زندگی ملتی ہے ۔ تبھی تو عرض کرتا رہتا ہوں کہ پیپلز پارٹی کا مستقبل اتنا خراب نہیں جتنا کہ سمجھا جارہا ہے ۔ایک اور بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ’’دوست‘‘ ممالک کے لئے نوازشریف بوجھ بن گئے ہیں توعمران خان بھی انہیں قبول نہیں جبکہ پیپلز پارٹی کی پوزیشن ان کی کتاب میںبہت بہتر ہے ۔ ظاہر ہے امپائر فیصلہ کرتے وقت دوستوں کی رائے تو مدنظر رکھیں گے۔

جو بھی ہونا ہے اللہ کرے جلدی ہوجائے تاکہ اہل سیاست اور اہل صحافت اس ملک کے اصل مسائل کی طرف متوجہ ہوجائیں ۔ وزارت عظمیٰ کی اس جنگ نے اس ملک کی سیاست اور صحافت کو کہاں تک پہنچایا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ قلعہ سیف اللہ (بلوچستان )میں اس ملک کی حفاظت کے لئے جان نچھاور کرنے والے بہادر ایس ایس پی ساجد مہمند کی خودکش حملے میں شہادت کی خبر کسی ٹی وی چینل کی سرخیوں کا حصہ نہ بن سکی کیونکہ وہاں جے آئی ٹی ، جے آئی ٹی کا کھیل زوروں پر تھا یا پھر قوم کو طلال چوہدری اور فواد چوہدری کی طرف سے اپنے اپنے لیڈر کی خوشامد اورچمچہ گیری کے مظاہر دکھائے جارہے تھے۔ اس سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ ساجد مہمند کی میت کو لانے کے لئے وفاقی، بلوچستان یا خیبر پختونخوا حکومت نے جہاز بھی فراہم نہیں کیا اور ان کی میت بذریعہ سڑک کوئٹہ سے پشاور لائی گئی ۔

ساجد مہمند اس سے قبل پختونخوا کے اضلاع چارسدہ، نوشہرہ اور بنوں وغیرہ میں جوانمردی کے ساتھ دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے رہے ہیں لیکن ان کی شہادت پر جنازے میں جانا تو دور کی بات وفاق کے حکمران میاں نوازشریف یا پھر پختونخوا کے حکمران عمران خان کا کوئی تعزیتی بیان بھی نظر سے نہیں گزرا ۔ دو دن نہیں گزرے تھے کہ کوئٹہ ہی میں فائرنگ کرکے دہشت گردو ں نے ایک اور پولیس ایس پی مبارک شاہ کو چار پولیس اہلکاروں سمیت شہید کردیا۔ ان کے ساتھ بھی اہل صحافت اور اہل سیاست نے وہی عدم توجہی کا رویہ اپنائے رکھا جو ساجد مہمند کے ساتھ کیا تھا۔

اس قوم میں نیازی وزیراعظم رہے یا پھر کوئی شریف ، وہ تباہی سے کیسے بچ سکے گی جو اپنی مٹی پر قربان ہونے والوں کے ساتھ یہ سلوک روا رکھے ۔ تبھی تو میں کہتا ہوں کہ ایک نے مائنس ہونا ہے، تین نے مائنس ہونا ہے ،چار نے یا پھر سب نے ۔جو بھی ہونا ہے اللہ کرے ، جلدی ہوجائے تاکہ یہ قوم اپنے اصل مسائل کی طرف متوجہ ہوسکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے