سر رہ گزر…. خوش آمدید! خوشامد

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا: پرائم منسٹر! خوشامدیوں نے یہاں تک پہنچایا، معجزہ ہی بچا سکتا ہے، خوش آمدید سے محتاط رہیں کہ اس میں اور خوشامد میں نہایت خوشگوار فرق ہے، اس لئے بڑے بڑے اس کی مٹھاس اور ٹھنڈک سے بڑا نقصان اٹھا بیٹھتے ہیں، معجزہ صرف انبیاء علیہم السلام کے لئے ہوتا ہے، اگر پہلے روز ہی سے وزیراعظم اپنے لوگوں کو خاموش رکھتے، عدالت اور جے آئی ٹی کی بابت کچھ نہ کہتے تو کم از کم اتنا ہوتا کہ سیاسی ساکھ بچ جاتی، اگرچہ ہر جگہ خاموشی اختیار نہیں کرنا چاہئے تاہم یہ وہ جگہ تھی جہاں ایک چپ سو سکھ دے سکتی تھی، خوشامد کے پیچھے خوشامدیوں کے اپنے مفادات ہوتے ہیں، اور ایسے افراد میں خودداری اور صلاحیت سرے سے موجود ہی نہیں ہوتی وہ اہلیت، خوشامد ہی سے پیدا کرتے ہیں، اور ممدوح کتنا ہی دیدہ ور اور تجربہ کار کیوں نہ ہو اس دام خوشرنگ و ہمرنگ زمیں آ ہی جاتا ہے، بہرحال اب تو وزیراعظم ہائوس کے نیچے سے کافی آب خوشامد گزر چکا ہے، اپوزیشن بھی فیصلے سے پہلے کوئی فیصلہ کر کے اچھا نہیں کر رہی، اگر سپریم کورٹ کو سپریم ادارہ انصاف مانتے ہیں تو ساری قوم عدالت عظمیٰ کے حتمی فیصلے کا انتظار کرے، اگر اب بھی ممکن ہو تو خوشامد ایمپلی فائر کا والیوم بند کر دیا جائے، چوہدری نثار نادان دوستوں یعنی خوشامدیوں کی صف میں کبھی شامل نہیں ہوئے، اب بھی انہوں نے جو کہا ہے وہ سچے دوست کی پکار ہے، لیکن شاید خوشامدیوں نے ان کا پتہ بھی کاٹ دیا ہے، اور وہ اب بیڈ بکس کی زینت بنا دیئے گئے ہیں، ساری قوم کم از کم حکومتی ارکان سے یہ توقع نہیں رکھتی کہ وہ عدالت اور جے آئی ٹی کے کمرے کے باہر ایسی تقاریر کریں گے کہ ان میں اور اپوزیشن میں کوئی فرق باقی نہ رہ جائے، وزیراعظم کو دفاع کی آڑ میں غیر محفوظ بنانے والوں کو خاموش رکھا جاتا تو بہتر ہوتا۔

٭٭٭

اندر کی سنو باہر والے بھی سنیں گے

اعتزاز احسن کہتے ہیں:وزیراعظم پر استعفیٰ کے لئے مسلم لیگ کے اندر سے دبائو بڑھ سکتا ہے، اعتزاز احسن ناپ تول کر بات کرتے ہیں، کبھی تو ان کے پیمانے کام نہیں کرتے مگر اکثر وہ جو کہتے ہیں ویسا ہو بھی جاتا ہے، اس میں اب کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم آخر تک لڑیں گے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بے تیغ لڑنے والے سپاہی نہیںبنیں گے، کیا پتہ مسلم لیگ کے اندر کچھ تھوڑے سے افراد مائنس خوشامدی ٹولہ بھی ہوں اور بالآخر نواز شریف تیسرے روز اس نتیجے پر پہنچیں کہ استعفیٰ دینا مناسب تھا، انہوں نے چوہدری نثار علی خان سے صلاح مشورے کا فیصلہ کر لیا ہے، ممکن ہے اتوار کا سورج طلوع ہونے سے پہلے وہ چوہدری صاحب کی ’’صلاح‘‘ مان لیں، دوسری جانب محترمہ عاصمہ جہانگیر کی بات میں بھی بہت وزن ہے کہ جے آئی ٹی سپریم کورٹ نہیں فیصلے کا انتظار نہیں کرنا تو عدالتیں بند کر دیں، وہ بہتر تشریح کر سکتی ہیں کہ استعفیٰ کا کوئی اخلاقی جواز تو ہو سکتا ہے مگر یہ قانونی جواز کس قانون کے تحت کہا جا رہا ہے؟ شاید ہم من حیث القوم شہنشاہ جذبات ہیں اور جذبات کی ملکائیں بھی کوئی کم نہیں۔ بات الزام، قانون اور سزا و جزا کی ہوتی ہے لیکن اسے پنجابی فلم بنا دیا جاتا ہے، بڑھکوں کے گنڈاسے ہر کوئی کاندھے پر لئے پھرتا ہے،ہمارا اپنے سمیت یہ خیال کہ ہم سب کی اخلاقی تربیت ہونے والی ہے، غالب نے تو کہا تھا ’’رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل‘‘ مگر ہم خون کے رگوں سے باہر نکلنے کے قائل ہو چکے ہیں، برداشت نام کی چیز عنقا ہے، غصہ ناک پر مکھی بن کر براجمان رہتا ہے، کوئی اسے اڑاتا ہی نہیں، دیکھتے ہیں اعتزاز احسن کا اندازہ درست نکلتا ہے یا غلط۔

٭٭٭

سو بار جنم لیں گے سو بار فنا ہوں گے

مولانا فضل الرحمٰن نے وزیراعظم سے کہا ہے: نواز شریف ڈٹ جائو! خورشید شاہ نے پہلے وزیراعظم کو بچایا اب نکالنے بیٹھے ہیں، عمران خان کہتے ہیں نواز شریف نے پیسے چلا کر انصاف خریدا، اگلے ہفتے نیا پاکستان بنتا دیکھ رہا ہوں،
ہماری دعا ہے اللہ تعالیٰ ’’پاکستان کو بچائے کہ اس میں بچت ہے، ورنہ سب چوپٹ ہے، سیاسی ساون زوروں پر ہے لیکن ساون کے بادل ہیں چھٹ جائیں گے کوئی لوڈ شیڈنگ نہیں کہ ختم ہی نہ ہوں، پاناما نے دھوم تو پوری دنیا کے اقتدار کے ایوانوں میں مچائی لیکن تماشا پاکستان میں بن گیا، معاملہ عدالت پہنچا، قانون اپنا راستہ بناتا اور فیصلہ دے دیتا، مگر عدالت اور جے آئی ٹی کے باہر جو سرکس لگے، اس میں پکوڑے بیچنے والوں نے خوب کمایا، یہاں تک کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کو پکوڑا کاغذات قرار دے دیا گیا، انصاف قانون کیا قرار دیتا ہے اس کی دونوں فریقوں کو پروا ہی نہیں عوام جن کا نام لے کر اس ملک میں ہر ناکردنی نادیدنی ناگفتنی ہوتی ہے، ان کا حال یہ ہے کہ بجلی اور مہنگائی کو روتے ہیں، ایک بارش ہو جائے تو نظام زندگی مفلوج ہو جاتا ہے، کیونکہ ہر حکومت نےچل چلائو سے کام چلایا کسی شعبے میں دیر پا بندوبست نہ کیا، اس لئے کہ عوام میں قوت برداشت اور اپنے اندر عدم برداشت پیدا کرنے پر سارا زور و زر خرچ کر دیا گیا، بھلا کڑوا سچ میٹھے جھوٹ پر کب فوقیت لے جا سکتا ہے، البتہ کڑوا سچ عبرتناک سزا سنا سکتا ہے، فضل الرحمان اور خورشید شاہ ایک نہیں کئی ہیں، جن کو کبھی نواز شریف اور کبھی عمران خان کام میں لاتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے