سر رہ گزر…. حتمی بات

سپریم کورٹ:منی ٹریل لائیں مقدمہ ختم، وزیراعظم بری الذمہ نہیں ہو سکتے فلیٹس میں قیام کرتے رہے، کہتے ہیں مالک کو نہیں جانتا، نا اہلی یا مقدمہ فیصلہ شواہد پر کریں گے۔ لگتا ہے مقدمہ مدعا علیہ ختم ہی نہیں کرنا چاہتے، اور وہ یہ رونقیں جو ریڈ زون میں ایک بار پھر بہ انداز دگر لگی ہوئی ہیں برقرار رکھنا چاہتے ہیں، کہیں یہ رونق شادی غم نہ ہو جائے، اس لئے اب ملک کی سب سے بڑی عدالت نے جو کہا ہے اس کا مثبت جواب دے دیا جائے تاکہ فیصلہ ہو اور ہر بیقرار دل کو قرار آ جائے، وزیراعظم تسلی رکھیں سپریم کورٹ کے جج صاحبان آئین قانون کو خوب جانتے ہیں اس کے مطابق ہی فیصلہ دیں گے، بھلا سیاست کا ایک مالیاتی اسیکنڈل سے کیا تعلق، ویسے بھی عدالت عظمیٰ سے سیاسی فیصلے کی توقع ناجائز بھی ہے اور آداب انصاف کی پامالی بھی، اب تو بات ایک نقطے پر آ کر مُک سکتی ہے اور وہ ہے منی ٹریل، سپریم کورٹ نے منی ٹریل مانگی ہے کوئی ٹریلر تو نہیں مانگا، اس لئے ہمارا سادہ سا خیال ہے کہ وزیراعظم اپنے ’’وفا داروں‘‘ کو مزید جفا نہ کرنے دیں اور قصہ ختم کرنے کی کوشش کریں، ٹریلر لا کر پیش کر دیں، یہ جو انسان کے پیٹ میں درد ہوتا ہے اس میں پیٹ کا کوئی قصور نہیں ہوتا انسان خود ہی کوئی غلط چیز کھا بیٹھتا ہے، اس سے نجات پانے کا نسخہ تجویز کر دیا گیا ہے، اب خاموشی سے اس پر عمل کر کے روز روز کی ’’ڈھڈ پیڑ‘‘سے نجات حاصل کی جائے، البتہ اپنے مشیروں، وزیروں امیروں کا شکریہ ضرور ادا کریں، جنہوں نے ان کی سیاسی ساکھ کو چار چاند لگائے باقی عدالت تو باہر کی آوازیں نہیں سنتی صرف آئین، قانون اور شواہد پر فیصلہ صادر کرے گی، اس لئے اب مزید گنجائش تلاش کرنا عبث ہو گا۔
٭٭٭٭

ایک علاقہ کہ لوڈ شیڈنگ اس کی تقدیر

صوبائی دارالحکومت میں یوں تو لوڈ شیڈنگ ہوتی رہتی ہے، لیکن ایک علاقہ ہربنس پورہ جسے بجلی کی ترسیل کے لئے فتح گڑھ سب ڈویژن ذمہ دار ہے، وہ لوڈ شیڈنگ سے بھی محروم ہے، کیونکہ لوڈ شیڈنگ تو گھنٹہ آتی گھنٹہ جاتی ہے مگر فتح گڑھ کے زیر بجلی علاقے تو پورا دن بجلی جانے کے لئے تختہ مشق ستم بنا دیئے گئے ہیں، کبھی کہا جاتا ہے ہفتہ وار مرمت کے لئے بند ہے اور اب کہا جا رہا ہے سڑک زیر تعمیر ہے بجلی سارا دن نہیں آئے گی یہ پریکٹس ہر دوسرے تیسرے دن باقاعدگی سے جاری ہے۔ یو پی ایس دم توڑ جاتے ہیں آئے ہوئے مہمان گھر چھوڑ جاتے ہیں لیکن بجلی نہیں آتی،ہم جی ایم لیسکو سمیت وزیر اعلیٰ پنجاب سے مودبانہ گزارش کرتے ہیں کہ بجلی نہیں آتی پھر بھی بل آتے ہیں اگر بجلی نہیں دینا تو بل بھیجنا بھی بند کریں، خدا شاہد ہے ہر کالم بجلی کی غیر حاضری میں لکھتا ہوں، اب اس میں بھی میں بجلی کی شکایت نہ لکھوں تو کیا ہیر رانجھے کی کہانی لکھوں؟ وجہ بہانہ کوئی بھی ہو ہم بجلی کی قیمت دیتے ہیں اس میں کوئی پرائس شیڈنگ نہیں ہوتی، یہ صرف آج کی بات نہیں لاہور کے تمام سب ڈویژنوں سے زیادہ فتح گڑھ ڈویژن کی حدود میں لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے، یہاں بجلی کی ترسیل کا بندوبست بے حد ناقص ہے، ایک ٹرانسفارمر کو دیکھا کہ اس سے ایک اینٹ بندھی ہوئی ہے، ذرا سی تیز ہوا چلے اینٹ ہلے تو بجلی ندارد، آخر یہ کیسا سسٹم ہے کہ لوڈ شیڈنگ تو اپنی جگہ پیچھے سے بجلی آ کر بھی نہیں آتی، متعلقہ افسران جن کے نمبر بل پر درج ہوتے ہیں وہ فون ہی اٹینڈ نہیں کرتے، خدارا بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کو وزیر اعلیٰ حکم دیں کہ مذکورہ علاقے میں بجلی کی پورا پورا دن بندش کب ختم ہو گی۔

٭٭٭٭

فیصلے سے پہلے فیصلے

پاناما لیکس پر مشتمل کیس عدالت عظمیٰ میں زیر بحث ہے، لیکن ججز کے ریمارکس پر قیاس آرائیاں اپنی جگہ پورے ملک کے زیر بحث ہیں، پاکستانی قوم ایک زمانے سے خود اپنے زیر بحث ہے، کاروبار زندگی بھی زیر بحث چل رہا ہے، شاید کہ ہم ڈور الجھانے کے ایکسپرٹ ہیں، بات کو طول دینا اس بات کی علامت ہے کہ کہنے کو حتمی بات نہیں، گویا کہ یہ قصہ ہزار داستان ہے ایک رات کی بات نہیں، کسی بھی معاشرے میں کسی بھی سطح پر اس طرح کے معاملات مچھلی بازار کی رونقیں نہیں بنتے، نتیجہ نکلنے سے پہلے ساری قوم اور مختلف چینلز پر ایک ایک لفظ کہانی بن رہا ہے، یہ بیقراری یہ گرم گفتاری، یہ اندازے اور ناقص عقلی کے مظاہرے ظاہر کرتے ہیں کہ ہم میں برداشت ہے نہ انتظار کی سکت، ہم سب دولہے ہیں جھٹ منگنی پٹ بیاہ کہ، بہرحال پاناما کیس کو عدالت عظمیٰ نے اس کے آخر تک تقریباً پہنچا دیا ہے، اور اب حتمی فیصلہ کے آنے میں زیادہ دیر نہیں، اندھیر بھی نہیں، مگر یہ بیقراری اور باہم دست و گریباں ہونے کی حالت کو پاکستان دشمن ہماری کمزوری سمجھ کر اپنی کارروائیاں تیز کر چکے ہیں، اگر اس قدر جوش و خروش ظاہر نہ کیا جاتا، حالات معمول کے مطابق رہتے تو کاروبار متاثر نہ ہوتا، وزیراعظم نے کہا ہے محاذ آرائی نہیں کروں گا، فیصلہ سیاسی نہیں قانونی ہونا چاہئے، محاذ آرائی نہ کرنے کی بات تو بہت اچھی ہے مگر کیس کا فیصلہ تو عدالت عظمیٰ نے کرنا ہے پھر یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ فیصلہ سیاسی نہیں قانونی ہونا چاہئے، مقدمہ سیاستدانوں کی زیر سماعت نہیں قانون دانوں کے کٹہرے میں ہے، اور وہ اب تک آئین، قانون کے مطابق ہی چل رہے ہیں، آخر سپریم کورٹ سے سیاسی فیصلے کی توقع چہ معنیٰ دارد؟ بہر صورت سب کا سانس کیوں چڑھا ہوا ہے، ایک کیس کو کیس ہی سمجھ کر ملک کا کاروبار متاثر ہونا شاید ہم سب کو نااہل قرار دینے کے لئے کافی ہے۔

٭٭٭٭

کوئی معجزہ بچا سکتا ہے

….Oاحسن اقبال:کسی بھی عہدے کا امیدار نہیں وزیراعظم کی قیادت میں متحد ہیں۔
وفاداری بشرط استواری اصل سیاست ہے؟
….Oعطا مانیکا ناراض، استعفیٰ دے دیا،
دیکھنا یہ ہے کہ کس کے گلشن کا پھول بنتے ہیں؟
….Oاعتزاز احسن:نواز شریف کی نا اہلی کے واضح امکانات ہیں۔
مگر کوئی معجزہ پھر بھی بچا سکتا ہے۔
….Oجاوید ہاشمی:کمزور جمہوریت آمریت سے بہتر اس کے لئے آخری دم تک لڑوں گا۔
مگر آمریت کے امکانات تو نظر نہیں آ رہے، کیا یہ جمہوریت نہیں کہ عدالت عظمیٰ آزادانہ آئین اور قانون کے مطابق کام کر رہی ہے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے