غمگین سلیمانی کا زندگی سے بیزار کرنے والا خط…. پیارے عطا!

ان دنوں شہر میں شادیاں بہت ہورہی ہیں۔ اس لئے تمہارے خط کا جواب جلدی نہ دے سکا۔ شہر میں میرج ہالز کی بھرمار ہے اس کےباوجود کم وسیلہ لوگ گلی محلوں میں شادی کی تقریبات منعقد کرتے ہیں،چنانچہ جس طرف نکل جائیں قناتوں اور سائبانوں سے رستہ بند ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے لمبا چکر کاٹنا پڑتاہے۔ پھر ان دنوں کوئی بارات بینڈباجے کے بغیر مکمل نہیں ہوتی اور یوں شور و شغب سے کانوں کے پردے پھٹے جاتے ہیں۔

اوپر سے دولہا نے چہرے کو سہر ےسے چھپایاہوتا ہے جس سے مجھے سخت وحشت ہوتی ہے۔ کس قدراحمقانہ رسم ہے۔ خدا جانے ہم لوگوں کو کب عقل آئے گی۔ میں تو ہر وقت اس خیال سے پریشان رہتا ہوں کہ ہم لوگ ہر وقت خوشیوں کے پیچھے کیوں دوڑتے رہتے ہیں حالانکہ ہم سب نے ایک روز مرنا ہے چنانچہ اس دنیا کے چند روز ہم اگر ہنسی خوشی بسر بھی کرلیں تو کیا فائدہ بالآخر مرنا تو ہے۔ کل میرے بچے کی سالگرہ تھی۔ بہت سارے لوگ گھر میں جمع تھے۔ کیک کاٹا گیا ،پھر تالیاں بجائی گئیں۔ میری بیوی، جو ایک بے وقوف سی عورت ہے، سب سے زیادہ خوش نظر آ رہی تھی اور فرط ِ مسرت سے بیٹے کو باربار چوم رہی تھی۔ میں یہ سب خاموشی سے دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ ہم لوگ کدھر جارہے ہیں۔

آخر ہمیں موت کیوں یاد نہیں۔ یہ خوشیاں دائمی نہیں ہیں، کیا فائدہ ان چیزوں کاکہ بالآخر ہم سب نے تنگ اور تاریک قبر میں لیٹنا ہے مگر ہم لوگ یہ سب کچھ سوچتے ہیں، یہاں میرے دفتر میں جتنے لوگ ہیں سب بے فکرے ہیں۔ لنڈے کے کپڑے پہنتے ہیں، بسوں میں دھکے کھاتے ہیں، غلیظ اور تنگ گھروں میں رہتے ہیں، غربت، افلاس اور بیماری نے ان کا ناطقہ بند کیاہوا ہے۔ مگر دفتر میں آتے ہیں تو سب کچھ بھول کر قہقہے لگانے میں لگے رہتے ہیں۔ مجھےتو ان لوگوں کو دیکھ کر بہت غصہ آتا ہے انہیں چاہئے کہ اکٹھے بیٹھیں تو ایک دوسرے کے دکھ سکھ بلکہ صرف دکھ پھرولیں۔ اگر ان کے دل غموں سے بھرے ہوئے ہیں تو ان کے چہروںپر بھی دکھ کی پرچھائیاں ہونی چاہئیں مگر یہ لوگ جھوٹے قہقہے لگا کر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جوانمردی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔

بھلا یہ کہاں کی جوانمردی ہے اور اگر جوانمردی ہے بھی تو اس جوانمردی کا کیا فائدہ کہ ایک روز بالآخر اس جوانمردی سمیت سب کو مرجانا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں یہ زندگی اسی طرح گزارنی چاہئے جس طرح قبر میں لیٹ کر گزارنی ہے تاکہ ہم اس زندگی کے عادی ہوسکیں۔ جو اس چند روزہ زندگی سے کہیں زیادہ طویل ہے۔ چند روز پیشتر میں نے دیکھا کہ ایک شخص اپنے بچے کی بے معنی سی حرکتیں دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہا تھا حالانکہ اس میں خوش ہونے والی کوئی بات نہیں تھی اور اگر تھی بھی تو خوش ہونا بھی کون سی ایسی بات ہےکہ خوش ہواجائے۔ میں تو روزانہ صبح اٹھتے ہی موت کے مسئلے پر سوچنا شروع کرتا ہوں۔ ناشتے پر بھی دنیا کی بے ثباتی پر غور کرتا ہوں اور رات کو سونے سےپہلے ایک دفعہ پھر موت کا منظر یادکرتاہوں۔ میں نے ان دنوں میں خواجہ اسلام کی معرکتہ الارا کتاب ’’موت کا منظر معہ مرنےکے بعد کیا ہوگا‘‘ بھی پڑھی۔ میرے خیال میں یہ کتاب پہلی جماعت سے بچوں کو پڑھانی چاہئے۔ سبحان اللہ کیا عمدہ کتاب ہے۔جب سے پڑھی ہے زندگی کی جو تھوڑی بہت رمق میرے اندر موجود تھی وہ بھی ختم ہوگئی ہے۔

فانی ہم تو جیتے جی وہ میت ہیں بے گور و کفن
غربت جس کی راس نہ آئی اور وطن بھی چھوٹ گیا

تمہیں لٹریچر سے بہت دلچسپی ہے جبکہ تم جانتے ہو مجھے لٹریچر سے کبھی شغف نہیںرہا، لیکن گزشتہ دنوں میں نے اردو کلاسیکی شعرا کا ایک انتخاب دیکھا تو اردو ادب سے مجھے بھی دلچسپی ہوگئی۔ موت پر ان شاعروں نے کیا کیا شعر کہا ہے۔خواجہ اسلام کی کتاب اور اردو کے ان شعرا نے میری زندگی پر بہت گہرا اثر ثبت کیا ہے، چنانچہ اب زندہ رہنے کی کوئی

خواہش نہیں رہی۔ دو تین شعر تم بھی سنو۔
کسی کی خاک میں ملتی جوانی دیکھتے جائو
کفن سرکائو میری بے زبانی دیکھتے جائو
حسرت برس رہی ہے ہمارے مزار پر
کہتے ہیں سب یہ قبر کسی نوجواں کی ہے
سنگ پھینکتے ہیں مری قبر پہ گل کے بدلے
گالیاں دے ہے پس مرگ بھی قل کے بدلے
میری نمازِ جنازہ پڑھائی غیروں نے
مرے تھے جن کے لئے رہ گئے وضو کرتے

میں جانتا ہوں تمہیں میرا یہ خط اچھا نہیں لگے گا کیونکہ تمہیں زندگی عزیز ہے مگر میرے عزیز ہم سب کو ایک روز مرنا ہے۔ لہٰذا اس زندگی کا ایک ایک لمحہ موت کو یادکرتے ہوئے گزارنا چاہئے۔
تمہارا دوست! غمگین سلیمانی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے