نااہل شریف

قارئین تصیح فرمالیں۔ گزشتہ کالم میں میں نے دو لفظ درست لکھے تھے لیکن غلطی سے غلط چھپ گئے۔ لفظ ’’فائنانس‘‘ ہے فنانس نہیں، اسی طرح ’’ہائوزنگ‘‘ ہے ’’ہائوسنگ‘‘ نہیں حالانکہ عموماً یونہی لکھے جاتے ہیں جو غلط ہے۔ گزشتہ کالم کا عنوان تھا ’’اس کا انجام دیکھنا ہے مجھے‘‘ تب تک ’’فیصلہ‘‘ کی تاریخ اور وقت کا کسی کو علم نہ تھا اور یہ مصرعہ میں نے اپنےاس شعر سے لیا؎

جس کا آغاز میں نے دیکھا تھا
اس کا انجام دیکھنا ہے مجھے

انجام سامنے ہے اور استاد محترم صوفی تبسم یاد آتے ہیں جو برسوں پہلے لکھ گئے۔

’’آغاز بھی رسوائی انجام بھی رسوائی‘‘

یہی زندگی ہے اور یہی اس کا سبق بھی اگر کوئی سیکھنا سمجھنا چاہے کہ کانٹے کاشت کر کے کوئی کنول نہیں کاٹ سکتا۔ تم بدی بیج کر نیکی کی فصل نہیں اٹھا سکتے۔ تم شرپھیلا کر خیر نہیں سمیٹ سکتے اورانگارے دہکا کر اوس کی آس؟
محاورہ ہے ’’تھوتھا چنا باجے گھنا‘‘ آپ کو وہ وزیر یاد ہوگا جو خود کو لوہے کا چنا بتایا کرتا۔ میں نے ’’میرے مطابق‘‘ میں جواباً کہا تھا کہ اگر سپریم کورٹ پر حملہ کا ایکشن ری پلے ہوا تو اس بار ان کے دانت اور مسوڑھے ہی نہیں جبڑے بھی توڑ دیئے جائیں گے سو اسلام آبادمیں بندوبست پورا تھا۔ ریڈ الرٹ، رینجرز اورایف سی تعینات تھے اور ریڈزون سیل، سخت سیکیورٹی، 3 ہزار اہلکار تیار تاکہ کوئی گلو بٹ ماضی کی تاریخ دہرانے کی حماقت کرے تو اسے عبرت کا نشان بنا دیا جائے۔
ضمیر مردہ نہ ہو، ذہن بنجر نہ ہو، روح میلی نہ ہو اور ملک سے تھوڑی سی بھی محبت ہو تو آدمی اس فیصلہ کو برکت کیلئے گھر میں آویزاں کرے کہ ان شاء اللہ ملک کی سمت تبدیل کرے گا بشرطیکہ فالو اپ سے محروم نہ رہے اور اس کی نسل بڑھتی چڑھتی اور پھولتی پھلتی رہے۔ سرغنے گئے تو ان کے پیچھے پیچھے ان کے پالتو بھی جائیں تاکہ دھرتی کا یہ حصہ افقی عمودی قسم کی کرپشن سے پاک ہو سکے کہ اس مافیا نے تو ہر قسم کی کرپشن کو کلچر، وے آف لائف اور سکہ رائج الوقت بنا دیا تھا لیکن وہاں دیر سےہے اندھیر نہیں۔ اس کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے، اور ات خدا دا ویر…..سودن چورکا ہو بھی تو قدرت ایک آدھ دن سادھ کیلئے وقف کردیتی ہے اور فیصلہ کا دن ایسا ہی ایک روشن دن تھا۔ میں روز اول سے کہہ رہا ہوں کہ یہ مافیا ملکی قانون نہیں قانون قدرت کی زد میں ہے جس کی ضرب شدید بڑے بڑے فرعونوں، نمرودوں، شدادوںکو پاش پاش کردیتی ہے، یہ تو کسی کھاتے میں ہی نہیں۔

عوام نے برف فروشوں کو بادشاہ بنا دیا۔
عوام نے دست کار، مزدوروں کو مہابلی بنا دیا۔
پاتال سے اٹھا کر اوج کمال تک پہنچا دیا۔
جواباً انہوں نے عوام کو کیا دیا؟
دھوکہ در دھوکہ …..فریب در فریب…..جھوٹ در جھوٹ۔
’’یہ لوگ جرم کرتے ہیں، ان کو خدا کے ہاں ذلت اور عذاب شدید ہوگا، اس لئے کہ مکاریاں کرتے ہیں‘‘
(سورۃ الانعام آیت 124)
’’گنہگار اپنے چہرے ہی سے پہچان لئے جائیں گے تو پیشانی کے بالوں اور پائوں سے پکڑ لئے جائیں گے‘‘۔
(سورۃ الرحمٰن آیت 41)
’’مومنو! جو پاکیزہ چیزیں خدا نے تمہارے لئے حلال کی ہیں، ان کو حرام نہ کرو اور حد سے نہ بڑھو کہ خدا حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا‘‘۔
(سورۃ المائدہ آیت 87)
’’اور اللہ جس کو چاہتا ہے سیدھا رستہ دکھاتا ہے‘‘۔
(سورۃ البقرہ آیت 213)
’’جو لوگ اپنے (ناپسند) کاموں سے خوش ہوتے ہیں اور جو کرتے نہیں ان کیلئے چاہتے ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے، ان کی نسبت خیال نہ کرنا کہ وہ عذاب سے رستگارہو جائیں گے، انہیں درد دینے والا عذاب ہوگا‘‘۔
(سورۃ آل عمران آیت 188)
وقت بدل چکا۔

اب اپنی 60کروڑ روپے کی گھڑی سے کہو اسے تبدیل کرنے کی کوشش کر دیکھے کہ قیمتی ترین گھڑی بھی برا وقت تبدیل نہیں کرسکتی….. نواز فیملی سے بھی بڑا امتحان ان کے سیاسی اور فکری ’’ورکرز‘‘ کا ہے کہ وہ شخصیت پرست ہیں یا وطن پرست؟ ہڈیاں، چیچھڑے، مفادات، مراعات کافی ہوگئیں۔ ان کی تاریخ گواہ ہے کہ نہ یہ عوام کے دوست ہیں، نہ افواج سے ان کی بنتی ہے اور عدلیہ پر یلغار بھی ان کے چہرے پر چیچک کے داغوں کی طرح ہمیشہ ’’چمکتی‘‘ رہے گی۔ادارے انہوں نے روند کے رکھ دیئے۔

دیر آید درست آید۔
نواز شریف…..نااہل شریف۔

کاش نظام ایسا ہو کہ چور پکڑنے میں پینتیس سال نہ لگیں۔ کیسا خاندان تھا جو پاکستان کےتقریباً پینتیس سال کھا گیا۔
یہ انجام نہیں آغاز ہے۔

جس کا آغاز میں نے دیکھا تھا
اس کا انجام دیکھنا ہے مجھے
نہ صادق ہے نہ امین
جھوٹا ہے اور خائن بھی

گارڈ فادر گیا لیکن گینگ یعنی بچے بلونگڑے ابھی باقی ہیں اور صرف سیاست میں نہیں، ہر شعبہ حیات میں ان کے جرثومے باقی ہیں۔ ’’استعفیٰ نہیں دوں گا‘‘ والی بڑھک پر کہا تھا میاں نواز ’’سو جوتے سو پیاز‘‘ کس طرف رواں دواں ہیں لیکن ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے…..ابھی تو مال مسروقہ کی واپسی کا بندوبست شروع ہونا ہے۔ نوازشریف ضیاء الحق کی ’’باقیات‘‘ تھا لیکن نواز شریف کی ’’باقیات‘‘ ابھی باقی ہیں لیکن یہ ’’سیاپا گروپ‘‘ اور ’’چنڈال چوکڑی‘‘ کب تک؟
میری ذاتی جنگ تو 24,23سال پر محیط ہے۔ دل کرتا ہے کہ چند کئی سالوں پرانے کالم ری پروڈیوس کروں لیکن جشن منانے سے زیادہ یہ شکر منانے کا وقت ہے۔ بے شک وہی ہے جو عزت دیتا ہے اور ذلت بھی۔

عوام کومبارک ہو۔
عدلیہ کو سلام۔
اور عمران خان کو…..

ہاتھوں میںہاتھ پکڑے ہوئے یوں کھڑے تھے لوگ
دریا کو بھی گزرنے کا رستہ نہیں ملا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے