سر رہ گزر …دارالمکافات

ایک ترازو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، باقی سب ترازو اس کے ماتحت ہیں، اب یہ تعین کرنے، ثابت کرنے کچھ کہنے، سننے کی ضرورت نہیں کہ کون غلط ہے کون صحیح ہر شخص اپنے کئے کا ذمہ دار ہے، ملکی حالات و واقعات ہمیں بتا رہے ہیں کہ فتوے، فیصلے اور ایک دوسرے کو برا مت کہو، ہر شخص اپنے گریبان میں جھانکے اور اپنے عیبوں کا سراغ لگائے، جوں جوں وقت گزرتا جائے گا دست قدرت ناکردنیوں کا حساب لیتا جائے گا، یہاں ہم بازیاں لگانے اور بازیگریاں دکھانے کے لئے نہیں بھیجے گئے، جب ہم خیر و شر کو گڈمڈ کر دیں گے تو وہ ان میں امتیاز باقی رکھے گا، بلاشبہ اسی کی حکمرانی اٹل ہے، اور وہ خلاقِ عظیم سبحانہ و تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے جو بھی کنواں کھودے گا دوسروں کے لئے اس کے راستے میں جنت نہیں کنواں ہی آئے گا، اور وہ خود اپنی مرضی سے اس میں گرے گا، ہم سب نے کوئی خطا تو کی ہے جس کی سزا بھگت رہے ہیں، ہر شخص کو معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کہاں غلطی کی، لیکن یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتا، پاکستان کے تمام اداروں میں انسان کام کرتے ہیں فرشتے نہیں، بعض اوقات جرم کوئی اور ہوتا ہے پکڑا کسی اور میں جاتا ہے، بہرحال انسان خطا کا پتلا ہے، لیکن خطا مان کر اپنے رب سے عاجزی کے ساتھ معافی مانگنے سے وہ آتی بلا سے بچ جاتا ہے، انسان کو اس کی یہ سوچ مرواتی ہے کہ جو وہ سوچتا کرتا ہے ٹھیک ہے، ایسے لوگ بھی اس دھرتی پر موجود ہیں جو اپنی نیکیوں میں بھی برائی تلاش کرتے ہیں کہ کہیں کوئی کسر تو نہیں رہ گئی، حسن اخلاق کبھی تکبر سے پیدا نہیں ہوتا یہ عاجزی و انکساری سے پیدا ہوتا ہے، اس لئے ہر شعبہ حیات میں کام کرنے والا ہر بندہ تکبر سے بچے کہ اس نے کسی متکبر کو کبھی چھوڑا نہیں، عظمت صرف عظمت والی ذات باری تعالیٰ ہی کو سزا وار ہے، آزمائشیں امتحان مصیبتیں آتی جاتی رہتی ہیں، حق سچ پر کوئی مٹی نہیں ڈال سکتا وہ بوئے ہوئے بیج کی طرح اگتا ضرور ہے، اسی طرح ناکردنی بھی پوشیدہ نہیں رہتی خود چھپانے والے کے اپنے ہاتھوں بے نقاب ہو جاتی ہے، عیش طیش میں خوف خدا کا دامن نہیں چھوٹنا چاہئے۔
٭٭٭٭

قربانی
جن افراد نے اس ملک کے بنانے بچانے کے لئے قربانیاں دیں وہی تاریخ میں زندہ ہیں، اور آج اس خلا میں بھی ان کے فیوض و برکات اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، جب یہ ملک لا الٰہ الا اللہ کی بنیاد پر بنایا گیا ہے تو اللہ جل جلالہ ہی اس کی حفاظت کر رہا ہے، ورنہ ہم نے اس کو مٹانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، یہ چلتا رہے گا، اور غیبی قوت اس میں اصلاحات کرتی رہے گی، اس لئے نا امید ہونے کی ضرورت نہیں، اس کے خیر خواہ آج بھی قربانیاں دے رہے ہیں وہ کون ہیں اس کا تعین کرنے کی حاجت نہیں، قربانی کا ذکر تو شیخ رشید بھی اکثر کرتے ہیں مگر اکثر ان کی قربانی والی پیش گوئی بروقت پوری نہیں ہوتی، پھر وہ انتظار کرتے ہیں کہ کہیں کوئی قربانی ہو تو وہ بھی گوشت مانگ لائیں، جب بھی کسی کوے پر کوئی افتاد پڑتی ہے تو کائیں کائیں کر کے سارے کوے اکٹھے کر لیتا ہے، اور پھر مل کر آپریشن کرتے ہیں، میڈیا بھی ایک سیانا کوا ہے جب بھی کہیں کوئی انہونی دیکھتا ہے آسمان سر پر اٹھا کر سب کو جگا دیتا ہے، سب کی باتیں سب کو بتا دیتا ہے، خطرے کی ہر گھڑی میں وہ سوئے ہوئے لوگوں کو جگا دیتا ہے کہ کوئی تیرا کھیت برباد کر رہا ہے، یہ بھی ایک بڑی قربانی ہے جو میڈیا دیتا رہتا ہے، بعض اوقات اس کی خیر خواہی اس کے گلے پڑ جاتی ہے مگر یہ اپنا فرض ادا کرتا رہتا ہے، اور زہر کو مٹھائی سمجھ کر کھانے والوں کو دلائل دیکر باور کرتا ہے کہ یہ قند نہیں زہر ہلاہل ہے، اس سے لوگ لڑتے بھی ہیں کہ کیوں مٹھائی نہیں کھانے دیتے لیکن یہ مسلسل زہر پر چڑھی میٹھی تہیں ہٹاتا رہتا ہے اور بالآخر اس کی بات کا اعتبار ایک آدھ قربانی واقع ہونے کے بعد کر لیا جاتا ہے، اور لوگ بڑے نقصان سے بچ جاتے ہیں، صحافت صحافت ہی رہے گی کبھی غیر صحافت نہیں بنے گی بشرطیکہ یہ صحافت ہی ہو، صحافی بنیادی طور پر آسمانی صحیفوں کے وارث ہوتے ہیں، یہ وہ صنف ہے جو قربانیاں دیتی ہے، مگر ان کو شرف قبولیت وہ لوگ نہیں دیتے جن کے یہ نقاب اتارتی ہے، قربانی والی عید بھی آنے کو ہے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں جانوروں کی قربانیاں دی جائیں گی تاکہ مسلم امہ کی قربانی نہ دینی پڑے۔
٭٭٭٭

شاعر سیاستدان ہو گئے یا سیاستدان شاعر
کسی زمانے میں ایک گیت بہت مشہور ہوا جس کے الفاظ لگ بھگ یوں تھے؎
میں شاعر تو نہیں مگر جب سے تمہیں دیکھا مجھ کو شاعری آ گئی!
ان دنوں سیاست کے بازار میں کچھ ایسی ہوا چلی کہ ہر سیاستدان کو شاعری آ گئی، بڑے اچھے اچھے شعر ہم نے خشک سیاست کے ہونٹوں سے جھڑتے دیکھے، اب یا تو شاعروں کو سیاست میں کچھ دکھائی دیا یا پھر سیاستدانوں کو شاعری میں کچھ نظر آ گیا، بہرحال کچھ تو ہے کہ سیاستدان شاعری پر آ گئے، جب بھی سیاست کے کوچے میں کوئی انہونی ہوتی ہے تو وہاں سے درد بھرے شعر سنائی دیتے ہیں، شاعری کے ساتھ ساتھ سیاستدان اپنے مطلب کے محاوروں کہاوتوں پر اس طرح ٹوٹ پڑے ہیں، جیسے جیالے اپنے شہیدوں کے کیکوں پر حملہ آور ہوتے ہیں، ایک وزیر سے معذرت کے ساتھ کہ ہم نے جب ان کے دہن خشک سے آنسو بھرے شعر سنے، جب انہوں نے یہ الفاظ کہے کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے، تو ہمیں تب سمجھ آئی کہ وہ اور ان کے دیگر چند محترم ساتھی روزانہ کی بنیادوں پر جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ کے باہر تبرا پڑھتے تھے تو اس وقت شاید سر کچھ زیادہ ہی اٹھ گئے تھے، بہرحال انہوں نے شعر سناتے ہوئے یہ کہا مگر ہم نہ سر جھکا کے چلیں گے نہ بدن چرا کے، وہ ایک شہید کے بیٹے ہیں اس لئے ان کی محبتوں میں خلوص ہوتا ہے، بلاشبہ وہ نواز شریف کے ایک رفیق ہیں، انہوں نے کڑے وقت میں بھی حق رفاقت ادا کیا، ہم نے دیکھا کہ جب کوئے سیاست میں مندی ہوتی ہے تو وہاں سے ایسی دلدوز آوازیں اٹھتی ہیں کہ اس پر غزل کے شاعروں کی بستی کا گمان ہوتا ہے۔ ان کا دل ان کے خیال کے مطابق جس نے بھی توڑا ہے اسے بار بار میر کا یہ شعر ضرور سنائیں؎
دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے
پچھتائو گے سنو ہو یہ بستی اجاڑ کے
٭٭٭٭
نہ کوئی صداقت علی نہ کوئی امانت علی

….Oخبر ہے کہ نواز شریف کی رخصتی پر کہیں خوشی کہیں غم۔
میاں صاحب کو اللہ تعالیٰ نے تین مرتبہ وزارت عظمیٰ جیسی عظیم نعمت سے نوازا، تینوں بار وہ اپنی مدت پوری نہ کر سکے، اس پر وہ غور کریں مگر خارج سے بے پروا ہو کر، ممکن ہے اصل سبب ان پر کھل جائے،

….Oعمران خان نے یوم تشکر منانا شروع کر دیا،
خان صاحب ہمیشہ جشن کو یوم تشکر کہتے ہیں، انہوں نے یہ بھی کہا شروعات ہو گئی اب بڑے ڈاکو پکڑے جائینگے، نہ جانے بڑے ڈاکوئوں سے ان کی کون مراد ہے؟

….Oمریم اورنگزیب:عوام کے دلوں کے وزیراعظم نواز شریف ہیں۔
عوام کے دل میں جو چیز چلی جائے اس پر یہ فارسی محاورہ لاگو ہو جاتا ہے۔
’’ہر کہ ورکان نمک رفت نمک شد‘‘

….Oپاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ نہ ہوتا تو آج کچھ اور ہوتا، بہر صورت یہاں کچھ نہ کچھ ہوتا رہے گا، مگر انجام یہ ہے کہ غریب عوام کے دونوں ہاتھ خالی ہیں حالانکہ سکندر کوئی اور ہوتا ہے۔

….Oاقتدار سے تو دولت اچھی کہ پھر بھی وہ ساتھ نہیں چھوڑتی،
کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستان ہم سب سے انتقام لے رہا ہے، کیونکہ ہم نے اسکا نام کچھ زیادہ ہی روشن کر دیا ہے،

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے