میاں صاحب آئین کی اسلامی شقوں کو اپنی سیاست کا نشانہ مت بنائیں

میاں نواز شریف صاحب کی نااہلی پر چاہیے تو یہ تھا کہ ن لیگ غور کرتی کہ اُس سے پاناما کیس کی عدالتی لڑائی لڑنے میں کیا غلطیاں ہوئیں یا گزشتہ چار سالہ دور میں کہیں کچھ ایسا تو نہیں کیا جس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو اورجس کے نتیجے میں ایک چھوٹے سے بہانہ پر نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے ہی ہاتھ دھونا پڑا۔ ورنہ ایسی تنخواہ جو وصول ہی نہ کی ہو اُس کو ظاہر نہ کرنے پر نااہلی کا کیا جواز۔ لیکن افسوسناک بات ہے کہ ماضی قریب میں جو بات اشاروں کنایوں میں کی جا رہی تھی وہ اب کھل کر سامنے آ گئی۔ خواجہ سعد رفیق نے اتوار کے روز اپنے ایک بیان میں جو میاں صاحب اور ن لیگ پر گزرا اُس کی ذمہ داری آئین کی اسلامی دفعات آرٹیکل 62-63 پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ ان اسلامی دفعات کو آئین سے نہ نکالنا ہماری نالائقی ہے جو 58(2)(b) بن چکا ہے۔

خود کو بدلتے نہیں آئین کو ہی بدلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اگر ن لیگ سمجھتی ہے کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ ٹھیک نہیں کیا اور ان اسلامی دفعات کا غلط استعمال ہو اتو اس کا کیا مطلب ہے کہ ان شقوں کو ہی آئین سے نکال دیا جائے۔ میں تو کتنے عرصہ سے چیختا رہا کہ ان آئینی شقوں کو سختی سے لاگو کیا جائے جس کے لیے پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ ایک مکینزم بنایا جائے جو یہ طے کرے کہ کیسے صرف بہترکردار کے افراد کو پارلیمنٹ کے لیے الیکشن لڑنے کی اجازت دی جائے۔

یہ سب کو معلوم ہے کہ گزشتہ تیس دہائیوں سے ان اسلامی شقوں پر عمل درآمد کے لیے کوئی میکنزم تیار نہیں کیا گیا جس کے باعث کسی بھی لٹیرے، ڈاکو، شرابی، زانی، جھوٹے اور بے ایمان کے لیے پارلیمنٹ کے دروازہ کھلے ہیں۔ہم تو ایک مسلمان ملک ہیں، یہاں تو امریکا یورپ وغیرہ میں جھوٹ بولنے، بے ایمانی اور فراڈ کرنے پر سربراہ مملکت اور دوسرے اہم عہدوں پر کام کرنے والوں کو فارغ کر دیا جاتا ہے۔ ایک اسلامی ملک میں اقتدار کا اصل حقدار وہ ہے جو با کردار ہو، اسلام کے بارے میں مناسب علم رکھتا ہو، سچا اور امانت دار ہو، شراب، زنا وغیرہ جیسے گناہ کبیرہ کرنے کی وجہ سے مشہور نہ ہو اور اسی منشاء کا اظہار آئین پاکستان کرتا ہے۔ لیکن افسوس کہ ن لیگ جو ماضی میں ان اسلامی دفعات کے خاتمہ کے خلاف رہی اب آرٹیکل 62-63 کی اسلامی دفعات کے خلاف بولنے میں سب سے آگے آگے ہے۔ ن لیگ کو یاد رکھنا چاہیے کہ ماضی میں اُن سے بہت بڑی بڑی غلطیاں ہوئیں۔

اپنی پہلی حکومت کے دوران 1991-92 میں وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خاتمہ کا اعلان کیا اور کہا کہ یہ غیر اسلامی کام ہے ۔ لیکن نواز شریف کی حکومت نے اس حقیقت کے باوجود کہ سود ایک بہت بڑا گناہ ہے، کے خاتمہ کی بجائے شرعی عدالت کے فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چینلج کر دیا اور آج 25 سال گزرنے کے باوجود ہم سودی نظام کے ساتھ ہی چل رہے ہیں۔

اب آئین کی اسلامی دفعات کو ختم کر کے ن لیگ اور میاں نواز شریف اپنے اوپر بوجھ کیوں بڑھانا چاہتے ہیں۔ کیا ن لیگ بھی آج کی پی پی پی کی طرح بھٹو کے اسلامی آئین میں سے اسلامی شقوں کو نکال کر پاکستان کو سیکولر بنانے کے در پہ ہے؟؟ اپنے گزشتہ چار سالہ دور میں نواز شریف نے بحیثیت وزیر اعظم کچھ ایسے متنازع اقدام اٹھائے جس کا مقصد سیکولر طبقہ فکر کو خوش کرنا تھا۔

2013 الیکشن سے قبل میاں نواز شریف صاحب نے کچھ افراد سے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ تیسری بار وزیر اعظم بننے پر وہ پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنائیں گے۔ ایسا تو نہ ہوا لیکن میاں صاحب سے درخواست ہے کہ خدارا آئین میں درج اسلامی شقوں کو اپنی سیاست کا نشانہ مت بننے دیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے