سر رہ گزر… بادی النظر میں

نامزد عبوری وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے:جھوٹے ریفرنسز سے نہیں ڈرتا، اگر وہ ساتھ یہ بھی کہہ دیتے صرف اللہ سے ڈرتا ہوں تو فول پروف ہو جاتے، خیر کوئی بات نہیں اگر انہیں حلالے کے لئے چن لیا گیا ہے تو وہ اپنا فرض ادا کر کے دلہن مستقل دولہے کے سپرد کر دیں گے اس لئے کوئی خلا پیدا نہیں ہو گا، ریفرنسز کو جھوٹا سچا عدالت ثابت کرتی ہے، اس لئے بادی النظر میں ڈرنا نہیں چاہئے 45دن تو ریفرنسز کے دائر ہونے اور دیگر کارروائیوں میں گزر جائیں گے پھر مستقل دولہا جانے اور ریفرنسز جانیں شاہد خاقان عباسی کی آنے والی نسلیں کہہ سکیں گی ہم بھی کبھی وزیراعظم تھے، کیونکہ ہمارے ہاں کوئی ایس ایچ او بھی بنتا ہے تو اس کے سارے رشتہ دار ایس ایچ او ہو جاتے ہیں، اور جسے چاہیں اندر باہر کر دیں، عباسی صاحب شریف النفس ہیں تو گویا عبوری وزارت عظمیٰ بھی شریفوں ہی کے پاس رہے گی، بنیادی طور پر وہ پیشے کے لحاظ سے ایک پائلٹ تھے، جہاز اڑانا اب بھی انہیں آتا ہو گا، وہ 45دن فضا میں رہیں گے اور مدت پورا ہونے پر گرائونڈ کر دیئے جائیں گے، خان صاحب نے اس قدر زور دار چھکا لگایا ہے کہ گیند گم ہو گئی ہے، اب جب تک نیا بال لائیں گے پچ پر کوئی اور بیٹنگ کر رہا ہو گا، انہیں چاہئے کہ پی ٹی آئی کو بال ڈھونڈنے پر لگا دیں، اور اگر وہ ن لیگ کی چھت پر گری ہو گی تو بال کبھی واپس نہیں آئے گی، ایک ہی بال پر سارا زور لگانے کا یہی نتیجہ نکلتا ہے، بادی النظر میں ہم سب بلے باز ہیں سیاستدان نہیں، دان سے کوئی بھی سیاستدان نہیں بنتا، لیکن یہ عوام کی دریا دلی ہے کہ وہ بنا دیتے ہیں اور کبھی کوئی مانگنے والا ان کے در سے خالی نہیں جاتا اور واپس بھی نہیں آتا کیونکہ وہ ایک عاجزانہ دستک پر ہی اتنا دے دیتے ہیں کہ مانگنے والا چاہے تو 5برس کھاتا رہے اس سے ختم نہ ہو گا، بادی النظر میں ہم سب شریف ہیں، اس لئے کسی ایک شریف ہی کو نشانہ نہ بنایا جائے، اور بھی بڑے بڑے با اخلاق قوم میں موجود ہیں ان کی اخلاقیات بھی چیک ہونی چاہئے، ہمیں پوری امید ہے کہ شاہد خاقان وزیراعظم منتخب ہو جائیں گے مگر ہماری عبوری ہو یا غیر عبوری وزارت عظمیٰ بادی النظر میں عبوری ہی ہوتی ہے۔
٭٭٭٭

اس میں بھی کوئی حکمت ہو گی
بچہ گر جائے، اسے چوٹ آئے تو بڑے کہتے ہیں کوئی بات نہیں اس میں بھی کوئی حکمت ہو گی حکمت ہمارے ہاں بڑا جامع لفظ ہے یہ طبیب اور دانا دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے، مطلب یہ ہے کہ صبر کرو فکر نہ کرو اس کی چوٹ کا علاج کرائو اب یہ بچہ جب گر کر اٹھے گا تو جلد سیانا ہو گا، کیونکہ گر گر کر سنبھلنے ہی سے انسان کامیاب ہوتا ہے، لیکن ہمارے بچگان ہیں کہ ان کا گرنا رکتا ہے نہ وہ عقل سیکھتے ہیں، تمام عمر بچے ہی رہتے ہیں، یہ نہیں ہمارے سیاسی بچے اور ان کی نرسریاں، یہ نابالغ سیاسی بچے ڈائس پر کھڑے ہو کر ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں ہم سیاستدان ہیں، جو ہم دیکھ رہے وہ اللہ کسی کو نہ دکھائے، یہ عوام کے عاشق ہوتے ہیں اور عوام جتنے بھی بھوکے ہوں پیار محبت کے پھر بھی بھوکے رہتے ہیں، ہمارے ہاں کسی بھی لفظ کے ساتھ دان لگا دیں پھر اس جیسا لفظ اور انسان کوئی نہیں ہوتا، مثلاً قلم، قلمدان، سیاست، سیاستدان، کوڑا، کوڑا دان، نہ، نادان اور پان، پاندان مگر شرم، شرمدان نہیں بن پاتا، اسی لئے ہم شرم نہ پا کر ایک دوسرے کو کہتے ہیں تمہیں شرم نہیں آتی، تمہیں شرم آنی چاہئے، شرم کرو، بے شرم کہیں کے، اس میں بھی کوئی حکمت ہو گی، یعنی اپنی حماقت کو اللہ تعالیٰ کی حکمت قرار دے کر مطمئن ہو جاتے ہیں، اس نے ہمیں حکمت و دانائی دی ہم نے اس کے چھوہارے کھا لئے، نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری ساری حکمت کبا ڑیوں کے پاس چلی گئی، اور انہوں نے اسے بیچ کر محلات کھڑے کر لئے، ہم نے خود کو حکمت سے محروم کرنے کے بعد محلے بنا لئے، چھوٹے چھوٹے گھروندے تعمیر کئے، کباڑیوں کو جب بھی ہماری ضرورت پڑی ہماری بل میں تھوڑا سا پانی ڈال دیا اور ہم چیونٹیوں کی طرح باہر نکل آئے پھر وہ ہمیں کشاں کشاں ڈٹھے کھوہ لے گئے، اور اس میں جب چند برس گزرے تو اللہ تعالیٰ نے رحم کھا کر ہمیں اپنی حکمت سے باہر نکال لیا، 70سال سے ہماری حکمت ہمیں کھائیوں میں گراتی اور خدا کی حکمت نکالتی آئی ہے، نہ ہم اپنی حکمت سے باز آتے ہیں، نہ خدا اپنی حکمت چھوڑتا ہے کیونکہ وہ حکیم و بصیر ہے، ہمارے سیاستدان اور عوام دونوں اپنی حکمت کے ہاتھوں گرتے ہیں، مگر پھر بھی انہیں عقل نہیں آتی۔
٭٭٭٭

ایک ٹکٹ میں کئی دھکے!
اسمبلیوں کا ٹکٹ ہو، فلم کا ٹکٹ ہو یا ووٹ یہ سارے ٹکٹ مختلف قسم کے مزے دار دھکے دیتے ہیں اسی لئے شائقین کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ دھکے سکون آور منشیات ہیں اور ہم نشئی، ہر ایک اپنی اپنی جگہ اپنے اسٹینڈرڈ کے مطابق دھکے کھاتا اور ہرگز نہیں شرماتا ہے، شاید 70سال سے ہم نے دھکے نہ کھانے کا مزا چکھا ہی نہیں، بلکہ اب تو ہر پاکستانی نے دھکوں کا مزا چکھنا ہے، تاحال وہ مبارک ستارہ ہماری امیدوں کے آسمان پر طلوع ہی نہیں ہوا جو اچھے دن دکھائے یہی وجہ ہے کہ ہمیں دن کو بھی تارے نظر آتے ہیں؎
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ غریب
دھکے کھا کر بھی بے مزا نہ ہوا
حسینوں کے ہجوم میں غریب کا نوجوان بال خواہ مخواہ گھستا ہے، کہ کوئی حسین اسے دھکا ہی مار دے، اس لئے کہ اس کے پاس تو کوئی بھی ٹکٹ نہیں، جو ٹکٹ اسے جنت کا بتا کر دیا گیا وہ لے کر جب مخصوص عوامی ٹرین میں بیٹھا تو بڑی دیر بعد ایک بڑا اسٹیشن آیا جس پر موٹا موٹا لکھا تھا ’’دوزخ‘‘ بعد میں پتہ چلا کہ اس کے ووٹ سے جنت کا ٹکٹ خرید کر اس کے در پر آنے والوں نے باہر اپنی جنتیں خرید لیں، اگر بفرض محال کبھی اس بستی میں بہار آ گئی واقعتاً سب اچھا ہو گیا تو اسے اپنی اپنی جنت میں جانے والوں کے گھر سے ایک بوسیدہ بریف کیس ملے گا جس میں ایک میلی کچیلی بنیان ہو گی، مگر ایسا دن بھی آئے گا یا نہیں سردست اس بارے وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ؎
وہ دعویٰ ہی کیا جو پورا ہوا
وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوا
ہم تو یہی کہیں گے کہ اب غلط ٹرین پر بیٹھنے غلط ٹکٹ خریدنے اور دلدل اسٹیشن پر اترنے سے توبہ کر لیں، اور یہ کہیں شاید سکون مل جائے،
یہ گھر میری جنت ہے اس گھر کا خدا حافظ
٭٭٭٭

پر کیا کریں کہ کام نہ بے دل لگی چلے

….Oمریم نواز:ماضی حال اور مستقبل نواز شریف کا ہے۔
ایک گانا بہت مشہور ہوا تھا:بس کر بس کر!

….Oعمران خان:جمائما مسلمان ہو کر آئی تو نواز شریف نے اسمگلنگ کا کیس بنایا۔
یہ آپ دونوں کا ذاتی معاملہ ہے۔

….Oیاسمین راشد پی ٹی آئی:این اے 120میں شہباز شریف کی کامیابی کا چانس نہیں،
ڈاکٹر صاحبہ یہ چیک کر لیں کہ حلقے میں سانس ہے؟

….Oبلاول بھٹو:نواز شریف کی نااہلی سے جمہوریت اور پارلیمنٹ کو کوئی خطرہ نہیں،
آپ کو بھی نہیں؟

….Oسعد رفیق:لوگ پوچھتے 5ججوں نے کس بنیاد پر نا اہل کیا۔
آپ فیصلے کا اردو ترجمہ تھما دیا کریں وہ خود ہی پڑھ لیں گے، آپ کیوں خواہ مخواہ کی زحمت اٹھاتے ہیں،

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے