جنرل باجوہ نے سینے پہ ہاتھ رکھا اور کہا ’جی ہاں، بالکل‘۔

[pullquote]قومی اسمبلی نے شاہد خاقان عباسی کو ملک کا نیا وزیراعظم منتخب کر لیا[/pullquote]

پاکستان مسلم لیگ ن کے شاہد خاقان عباسی نے ملک کے نئے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد ایوان صدر میں وزارت عظمیٰ کے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔

شاہد خاقان عباسی نے منتخب ہونے کے بعد صدر پاکستان ممنون حسین کی موجودگی میں وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا۔
اس سے قبل منگل کو قومی اسمبلی میں ہونے والے اجلاس کے دوران ہونے والی ووٹنگ میں انھوں نے 221 ووٹ حاصل کیے تھے۔

ان کے قریب ترین حریف پیپلز پارٹی کے نوید قمر رہے جنھوں نے 47 ووٹ لیے۔ تحریکِ انصاف کے امیدوار شیخ رشید نے 33 ووٹ حاصل کیے جب کہ جماعت اسلامی کے امیدوار حافظ طارق اللہ نے چار ووٹ لیے۔

اس سے قبل جب اجلاس شروع ہوا تو سپیکر نے اراکین سے اپنی پسند کے امیدوار کے لیے مقرر کردہ لابی میں جمع ہونے کو کہا۔
جس کے بعد ان ارکان کی گنتی کی گئی اور پھر سپیکر نے نتیجے کا اعلان کیا۔ قومی اسمبلی کا خصوصی اجلاس پاکستانی وقت کے مطابق دوپہر تین بجے شروع ہوا۔

خیال رہے کہ اجلاس سے قبل حکمران جماعت مسلم لیگ ن اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان ہونے والی ملاقات میں ایم کیو ایم نے مسلم لیگ ن کے امیدوار کی حمایت کرنے پر اتفاق کیا تھا جبکہ دوسری جانب حزب مخالف کی جماعتیں اپنا متفقہ امیدوار لانے میں ناکام رہی تھی۔

واضح رہے کہ کسی بھی امیدوار کو کامیابی کے لیے342کے ایوان میں کم سے کم 172ووٹ حاصل کرنا تھا جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اس کی اتحادی جماعتوں کے پاس اپنے امیدوار کو منتخب کرانے کی لیے پہلے ہی واضح برتری حاصل تھی۔

اس سے قبل گذشتہ روز ابتدائی طور پر جن اُمیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور کیے گئے تھے اُن میں حکمراں جماعت کے شاہد خاقان عباسی، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ، پاکستان پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید نوید قمر، متحدہ قومی مومومنٹ کی کشور زہرہ، جماعت اسلامی کے رہنما حافظ طارق اللہ اور ایک ہی نشست رکھنے والی جماعت عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید بھی شامل تھے۔

تاہم بعد میں پیپلز پارٹی کے امیدوار سید خورشید شاہ نے سید نوید قمر کے حق میں اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے تھے جبکہ حکمران جماعت کی حمایت کا اعلان کرنے کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کی کشور زہرہ بھی شاہد خاقان عباسی کے حق میں دستبردار ہو گئی تھیں۔

حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اس وقت قومی اسمبلی میں 187نشستیں ہیں جبکہ حکمراں اتحاد میں شامل دیگر جماعتیں بھی شاہد خاقان عباسی کو ہی ووٹ دیں گے۔ حکمراں اتحاد میں جمیعت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ قابل ذکر ہے۔
حکمراں جماعت کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کا انتخاب جیتنے کے بعد اُن کی جماعت کی توجہ اُن منصوبوں پر ہو گی جو ابھی مکمل نہیں ہوئے۔

اس کے علاوہ ان کی جانب سے اس عزم کا بھی اعادہ کیا گیا ہے کہ انہی پالیسیوں پر عمل درآمد کیا جائے گا جو پالیسیاں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دور سے چلی آرہی ہیں۔

[pullquote]نئے وزیر اعظم کی حلف برداری پر مرکز نگاہ فوجی سربراہ[/pullquote]

موقع تھا وزیر اعظم پاکستان کی تقریب حلف برداری اور مقام تھا ایوان صدر جہاں حکمران جماعت کے رہنماؤں اور ارکان پارلیمنٹ کی بڑی تعداد کے علاوہ مسلح افواج کے سربراہان اور صحافی موجود تھے۔صحافیوں اور سیاستدانوں کے درمیان رسمی و غیر رسمی گفتگو تو وقفے وقفے سے چلتی ہی رہی، اس میں غیر معمولی اور مختصر جملے بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے سننے کو ملے جو اس تقریب کا مرکز بنے رہے۔

فوجی سربراہ اپنے چند ساتھیوں اور محافظوں کے جھرمٹ میں جس طرف چلتے حاضرین کی اکثریت کا رخ بھی اسی جانب ہو جاتا۔اس ہٹو بچو کے درمیان کچھ صحافی جنرل قمر باجوہ تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے اور سوال و جواب کا بہت ہی مختصر سیشن ہوا۔

ملکی حالات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر فوجی سربراہ نے کہا اللہ کے فضل سے پاکستان میں سب ٹھیک چل رہا ہے۔

ایک اور صحافی نے سوال کیا کہ یہ جو حکومت میں تبدیلی (ٹرانزیشن) کا عمل ہے یہ آپ کو کیسا محسوس ہو رہا ہے؟
آرمی چیف نے کہا بہت اچھا لگ رہا ہے۔

تیسرا سوال جو ہوا تو فوجی سربراہ نے اسے آخری سوال کے طور پر لیا۔ پوچھا گیا کہ کیا فوج ملک میں جمہوریت کو نقصان نہ پہنچنے دینے کے اپنے عزم پر قائم ہے؟

جنرل باجوہ نے سینے پہ ہاتھ رکھا اور کہا ’جی ہاں، بالکل‘۔

ایوان صدر کے دربار ہال اور اس کے باہر کی لابی میں صحافی، مسلم لیگی سیاستدان اور بیوروکریٹس چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں سیاست اور خاص طور پر مسلم لیگ کی مستقبل کی حکمت عملی پر بات کرتے نظر آئے۔

شاہد خاقان عباسی عارضی وزیراعظم ہیں یا مستقل؟ یہ سوال مسلم لیگ کے نو منتخب وزیراعظم کے حلف اٹھانے کے چند منٹ بعد ہی موضوع گفتگو بن چکا تھا۔

بعض کا تو یہ بھی خیال تھا کہ عین ممکن ہے کہ شاہد خاقان عباسی ایوان وزیراعظم کے عارضی نہیں بلکہ مستقل مکین بن جائیں (آئندہ انتخابات تک)۔

مسلم لیگ کے پنجاب سے تعلق رکھنے والے رہنما خاص طور پر توجہ کا مرکز رہے۔ ہر ایک کو تجسس تھا کہ شہباز شریف کب اسلام آباد میں وزیراعظم کی حیثیت سے وارد ہوں گے اور پنجاب کے اقتدار کا ہما کس کے سر بیٹھے گا۔ پنجاب کے اہم رہنما جو اس تقریب میں موجود تھے، ان کے پاس ان دونوں سوالوں کا واضح جواب نہیں تھا۔

ایسے میں سوال پیدا ہوا کہ ان رہنماؤں کو علم نہیں ہے یا یہ کہ اس بارے میں ابھی فیصلے نہیں ہوئے؟ معلوم ہوا کہ فیصلے تو نواز شریف کی نا اہلیت سے پہلے ہی ہو چکے تھے۔ اب ان پر نظر ثانی کا عمل جاری ہے۔

بعض لیگی رہنماؤں کا خیال تھا کہ پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے حصول کے لیے پارٹی اور خود شریف خاندان کے اندر جو بھاگ دوڑ اور رسہ کشی شروع ہو چکی ہے وہ پارٹی کے لیے اچھی نہیں ہے۔

[pullquote]اپوزیشن جماعتیں وزارت عظمیٰ کا متفقہ امیدوار نامزد کرنے میں ناکام[/pullquote]

وزارت عظمیٰ کا متفقہ امیدوار نامزد کرنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس کل صبح 11 بجے تک کے لیے ملتوی ہوگیا ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے کمرے میں اپوزیشن پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم کے امیدوار کے لیے مختلف ناموں پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں خورشید شاہ، شاہ محمود قریشی، شیخ رشید ، پرویز الہٰی ، طارق بشیر چیمہ، آفتاب شیر پاؤ، شیخ صلاح الدین اور شیریں رحمان بھی شریک ہوئے۔

اس موقع پر صحافی نے اپوزیشن رہنماؤں سے سوال کیا کہ کیا ایک امیدوار پر اتفاق ہوجائے گا یا اختلاف برقرار رہیں گے اور اپوزیشن کے دو امیدوار سامنے آئیں گے۔ خورشید شاہ اور شاہ محمود قریشی نے سوال کا جواب دینے سے گریز کیا جب کہ شیخ رشید نے مبہم جواب دیتے ہوئے کہا کہ دیکھیں جو اللہ کو منظور۔

اپوزیشن رہنماؤں کے اجلاس سے قبل خورشید شاہ سے شاہ محمود قریشی اور شیخ رشید نے علیحدگی میں ملاقات کی جس کے دوران عمران خان کی جانب سے شیخ رشید کی وزارت عظمی کے لیے نامزدگی اور زرداری کے خلاف تقریر پر بات ہوئی تاہم ملاقات میں تحفظات دور نہ ہو سکے۔ ملاقات کے بعد شاہ محمود قریشی نے خورشید شاہ سے استفسارکیا کہ کیا ہم چلے جائیں؟ تاہم خورشید شاہ نے انہیں جانے سے روک دیا اور اپوزیشن پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس میں شرکت کی ہدایت کی۔

پرویز الہٰی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہماری کوشش ہے اپوزیشن میں اتفاق رائے پیدا ہوجائے، انشاء اللہ اپوزیشن کو اکٹھا رکھیں گے، عوامی مسلم لیگ ایک جماعت ہے اور شیخ رشید اس کے امیدوار ہیں۔

واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے خورشید شاہ، پی ٹی آئی اور عوامی مسلم لیگ کی جانب سے شیخ رشید جب کہ ایم کیو ایم کے شیخ صلاح الدین نے کاغذات نامزدگی حاصل کیے ہیں۔

[pullquote]سپریم کورٹ میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف درخواست دائر[/pullquote]

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف درخواست محمود اختر نقوی نے دائر کی جس میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف عدالتی فیصلے کے بعد پارلیمانی اور پارٹی سیاست سے نا اہل ہوگئے لہذا ان کے پاس شاہد خان عباسی کو عبوری وزیراعظم نامزد کرنے کا اختیار نہیں تھا۔

درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ شاہد خاقان عباسی کے خلاف ایل این جی درآمد کا معاملہ نیب میں زیرالتواء ہے، شاہد خاقان نے پیپرا رولز کی خلاف ورزی کر کے ایل این جی کا ٹھیکہ دیا اور خلاف قواعد ایل این جی ٹھیکہ دے کر قومی خزانہ کو نقصان پہنچایا۔

درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ ایل این جی اسکینڈل میں ملوث شاہد خاقان و دیگر افراد کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے جب کہ شاہد خاقان عباسی کو عبوری وزیراعظم نامزد کرنے پر حکم امتناعی جاری کیا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے