پاکستانی سیاست میں عزت کا دھندہ

عورت ناقص العقل ہے ، اسے اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ عزت اور غیرت صرف اور صرف مرد کی ہوتی ہے۔ جو عورتیں عزت کمانے یا عزت کے نام پر آواز اٹھانے کے لیے نکلتی ہیں پہلا سوال ان پر ہی کھڑا ہوتا ہے۔ کہ راتوں رات ایسا خیال کیوں آگیا؟ جو کہا اس میں کتنی حقیقت ہے؟کیااس کے پاس کوئی شہادت یا ثبوت موجود ہے ؟ بی بی خودکتنی پاک دامن ہے؟ اس بیوقوف خلقت کی ذات ، بات اور کردار کو استعمال کرکے فائدہ اٹھایا جاتا ہے ۔کبھی اپنے اور کبھی پرائے خود کو اچھا ثابت کرنے کے لیے دودھاری تلوار سے وار کرتے ہیں ۔اور یہ ناکام مہرا بالآخر بساط سے باہر کردیا جاتا ہے۔

اس کی تازہ مثال ہے خواتین کے مخصوص کوٹے سے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی نشست سنبھالنے والی عائشہ گلا لئی وزیر۔۔۔ جنوبی وزیرستان سے انسانی حقوق کی کارکن کی حیثیت سے کرئیر کا آغاز کرنے والی عائشہ گلالئی نے بطور رکن پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین قبائلی علاقہ جات میں کوارٹینیٹرکے فرائض انجام دئیے ، آل پاکستان مسلم لیگ کا بھی حصہ رہیں ۔

2012 سے پی ٹی آئی سے وابستہ رہنےوالی عائشہ گلا لئی نے پانچ سال بعد پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کیا اور پریس کانفرنس میں لنکا ڈھا دی ۔ لیکن قومی اسمبلی کی نشست سے استعفے کا ذکر تک نہ کیا، جو خود میں ہی ایک سوال ہے ۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران عائشہ گلا لئی کا کہناتھا کہ وہ ایک روایتی خاتون ہیں اور عزت سے بڑھ کر ان کے لیے کچھ نہیں اور یہی ان کے پارٹی چھوڑنے کی وجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان پوری دنیا کو خراب اور خود کو فرشتہ سمجھتے ہیں۔ پاکستان کو لندن سمجھ کر یہاں مغربی کلچر متعارف کرانا چاہتے ہیں،67 سال کی عمر میں ان کی عادتیں اب ختم نہیں ہوسکتیں۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے ہاتھوں عزت دار خواتین کی عزتیں محفوظ نہیں، عمران خان خواتین کو غلط پیغامات بھیجتے ہیں لیکن اس کے برعکس نوازشریف ایک خاندانی آدمی ہیں جو ماؤں بہنوں کی عزت کرنا جانتے ہیں۔

ذرا ٹھہرئیے۔۔۔ کسی کے بارے میں بھی غلط تاثر لینے سے پہلےسوچ لیں ، سچ کون بول رہا ہے ، حقیقت کیا ہے؟ بقول عائشہ کے انہیں عمران خان کی طرف سے پہلا میسج 2013 میں موصول ہوا ، توا نہوں نے ہراساں کیے جانے کی شکایت پہلے کیوں نہ کی ؟ کیا کسی کو اس بارے میں آگاہ کیا ؟ کیا کسی کو اس اہم مدعے پر راز داں بنایا؟ یا وہ میسج ہی ایسا نہ تھا کہ اس پر کوئی کارروائی کی جاتی؟

عائشہ گلا لئی کے مطابق عمران خواتین کوکہتےہیں آپ بلیک بیری فون استعمال کریں یہ ٹریس نہیں ہوتے،سوال: بلیک بیری کے استعمال پر فوکس کیوں کیا گیا؟ کیا سروس سینٹر سے بلیک بیری سے بھیجے گئے پیغامات ری کور نہیں کرائے جاسکتے ؟ کیا ان پیغامات کی تصدیق کرانا مشکل ہے؟

ٹھیک اسی وقت کاانتخاب کیوں کیاگیا، جب ملک میں عبوری وزیراعظم کے انتخاب کے لیے سیاسی جوڑ توڑ جاری تھی ، ملک کے 28ویں وزیراعظم کوصادق وامین نے ہونے پر نا اہل کردیاگیاتھا۔ توسوچنا ہوگا کیا62،63ہر دو طرح کے لوگوں پر لگتی ہے اثاثے ظاہر کرنے والوں پر بھی اور نہ کرنے والوں پر بھی۔۔

پریس کانفرنس کے فورا بعد ہی تحقیق کے بجائے ڈھنڈورا پٹنے لگا۔ پی ٹی آئی ارکان نے سچ اور حقیقت بے نقاب کرنے ، اپنی پارٹی اور سربراہ کا دفاع کرنے کے بجائے خاتون سیاستدان کو آڑے ہاتھوں لیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ عائشہ گلالئی جیسی عورتیں چوبیس گھنٹےکےلئے بکتی ہیں اور وہ استعمال ہوکر اپنی بولی لگا چکی ہیں۔

اگر عائشہ گلالئی کو بدکردار مان لیا جائے تو سوال یہ ہوگا کہ پی ٹی آئی نے مخصوص نشستوں پر ایم این اے بنانے کے لئے کیا معیار رکھا ہوا ہے؟ کیا واقعی نئے پاکستان میں خواتین کی ایسی عزت ہوگی ۔

ایک وقت تھا جب نیوز چینلز ریٹنگ کے چکر میں عمران خان کےجلسے کو کوریج دیا کرتے تھے ۔ کہ وہاں خواتین کی بڑی تعداد شرکت کرتی ہے، اپنے قائد سے والہانہ محبت کا اظہار کرتی ہے، میک اپ کا دور ہوتا ہے، ڈی جے بھی مختلف دھنوں سے خوب رنگ جماتا ہے ۔تو ایک اچھا ائیر ٹائم دینے سے ریٹنگ بھی اچھی ہوجائے گی اور کمائی بھی ، دور عروج پر پھر سیتا وائٹ یاد آئی ۔ عمران خان کے لیے گلی کوچوں ،شاہراہوں پر لغو باتیں اور گالیاں لکھ دی گئیں۔ریحام سے شادی اور طلاق ،اس کے بعد حق مہر نے بھی نئے پاکستان کی نئی سیاست کو گرمائے رکھا ۔ مردو خواتین جوق در جوق عمران کے جیالے بننے پر فخر محسوس کرر ہےتھے،

خواتین کی بڑی تعداد میں تحریک انصاف کے جلسوں میں شرکت سےکچھ نامراد خوش نہ تھے اور معاشرتی بے راہ روی کا شکار لوگوں نے اسے سبوتاژ کر نے کی کوشش کی ،دھکم پیل ، گالم گلوچ ہوئی، عمران خان کی طرف سے تنبیہ کے بعد معاملات قابو میں آئے ،کراچی آمد پرتحریک انصاف کے کاررواں میں ایک نیوز چینل کی خواتین رپورٹرز اور اینکرز کو ہراساں کیاگیا۔ پھر عمران نے سختی دکھائی، اسی اپریل میں نوازشریف نے خواتین کی اس طرح عزت کی تھی ۔

اپنے خطاب میں انھوں نے کہا ’میں اپنی اِن بہنوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو کونے میں کھڑی ہیں۔ یہ اُس طرح کا جلسہ نہیں جیسا مخالفین کا جلسہ ہوتا ہے۔ آپ نے کل بھی ٹی وی میں دیکھا ہے، وہاں بہنیں کیا کر رہی تھیں؟‘

کیا ملکی وزیراعظم کو ایسا بیان زیب دیتا ہے ؟ کیا خواتین کا مقام کونے میں کھڑے ہونے کا ہے؟ کیا ایک جلسے میں شرکت کرنے والی خواتین اچھی اور باقی بری ہیں؟ کیا عورت کی عزت کرنے کے لیے اسے بہن کہنا ضروری ہے؟اپنےسیاسی مستقبل کے لیے عورتوں کو نشانہ بنانا شرمناک نہیں ؟

ان ہی شریف کی بیٹی نے خاتون ایس پی اسپیشل برانچ کو سرعام رسوا کیا اور اوچھے ہتھکنڈے سے اپنے سامنے جھکنے پر مجبور کیا

یہ وہ ہی ن لیگ ہے جس نے ایوان میں خواتین کو ٹریکڑ ٹرالی کہہ کر ذلیل کیا۔

چند روز قبل پاکستان تحریک انصاف کی رہنما ناز بلوچ نے بھی پارٹی چھوڑ کر پاکستان پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن عائشہ گلالئی کا یہ سامنے آ نے پر انہوں نے سخت ردعمل دیا۔۔پی پی رہنماؤں نے مبینہ ہراساں کیے جانے کی مذمت کرتے ہوئے تحقیق کا مطالبہ کیا۔۔۔ یہ وہ پیپلز پارٹی ہےجس کے صوبائی وزیر امداد متافی اسمبلی سیشن میں خواتین پر آ وازیں کستے اور تضحیک کرتے پائے گئے اور وزارت جانے کے ڈر سے مافی تلافی کر لی گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی میں پھر خاتون سیاستدان کس ہراساں کیا گیا لیکن سن بن کوئی نہیں۔۔

تحریک انصاف کی رہنماشیریں مزاریکہتی ہیں کہ خواتین کی جتنی عزت پی ٹی آئی میں ہے کسی اور جماعت میں نہیں۔ عائشہ گلالئی کے الزامات سے پارٹی کی تمام خواتین کی ہتک ہوئی ہے۔

جس کے پارٹی کی جانب سے عائشہ گلالئی کو لیگلن نوٹس بھجوا دیا گیا۔

کسی نے شاید ٹھیک ہی کہا ہے

میرےوطن کی سیاست کا حال مت پوچھ ۔۔۔۔۔طوائف گری ہے تماش بینوں میں

جب تک عورت سی سی ٹی وی کیمرے لگاکر خود پر ظلم کی ویڈیو ریکارڈ کرکے چوک پر پروجیکٹر کے ذریعے پیش نہ کرے، ہمارا معاشرہ اسے مظلوم نہیں مان سکتا

لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ صرف عورت ہونے کے ناطے اسے مظلوم نہیں کہا جاسکتا۔

عورت تو وہ خربوزہ ہے کہ چھری اس پر گرے یا وہ چھری پر گرے نقصان خربوزے کا ہی ہوتا ہے ۔

بہتان تراشی،الزام تراشی چاہے کوئی مرد یا خاتون کرے کوئی سیاستدان کریں یا اُن کےخلاف ہو دونوں صورتوں میں غلط ہے۔ اگر کسی نے کسی سے زیادتی کی تو ثبوت دیں، تحقیقات کریں۔

سیاست بھی ایک دھندا ہے ، گندا ہے پر دھندا ہے۔جہاں عوام کو بنیادی سہولتوں اور وسائل سےفائدہ پہنچانے اور حق بات کہنے کے بجائے اپنی تجوریاں بھری جاتی ہیں ،رشتہ داریاں و یاریاں نبھائی جاتی ہیں اور ایک دوسرے پر کیچڑا اچھالا جاتا ہے ، یہ بات تو روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ کیچڑ میں پتھر مارا جائے توچھینٹے خودپر بھی پڑتے ہیں ۔اس لیے اس حمام(سیاست) میں سب ہی ننگے ہیں اور یہ سیاست عزت کا دھندا ہے صاحب!!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے