ہیریسمینٹ؟ یہ تو معمول ہے !

چھیڑ چھاڑ کرنا، ہراساں کرنا، تکلیف یا دکھ دینا، ایذا رسانی یہ سب مطلب ڈکشنری میں ہیریسمینٹ کے لیے دئیے جاتے ہیں۔ کوئی ایسا لفظ ہمارے پاس موجود نہیں جو اس لفظ کا وہ ترجمہ کر سکے کہ جن معنوں میں یہ لفظ مغرب میں استعمال ہوتا ہے ۔ کہہ سکتے ہیں کہ فریق مخالف سے اگر صنفی بنیاد پر امتیازی سلوک کیا جائے جو اس کے لیے باعث رنج ہو تو وہ ہیریسمینٹ کہلائے گی۔ یا پھر یوں کہہ لیجیے کہ کوئی مرد کسی خاتون کو یا کوئی خاتون کسی مرد کو چھیڑے ، اشارے کرے یا اس کے ساتھ ایسی باتیں کی جائیں جن میں جنسی اشارے پائے جاتے ہوں تو یہ سیکشوئل ہیریسمنٹ ہے جو عرف عام میں ہیریسمنٹ ہی کہلاتا ہے ۔ وہی مادر پدر آزاد مغرب جس کے اخلاقی زوال کی مثالیں ہم دیتے نہیں تھکتے ، وہاں اس ہیریسمنٹ سے بچنے کے لیے ٹھیک ٹھاک سخت قسم کے قانون موجود ہیں۔ مثلاً امریکہ میں دیکھیے تو ریاست کیلیفورنیا اس چیز کو چار حصوں میں تقسیم کرتی ہے ۔ ایک تو وہ تشدد یا غلط رویہ جو گھر کے اندر فریقین ایک دوسرے سے روا رکھیں۔ دوسرا یہ کہ اگر کوئی معذور یا عمر رسیدہ انسان ہے ، اسے زندہ رہنے کے لیے کسی سہارے کی ضرورت ہے ، اور وہ گھر میں ساتھ ہے ، تو گھر کے مالکان کا سلوک اس کے ساتھ کیسا ہے ۔ تیسرے نمبر پر سول ہیریسمنٹ ہے یعنی کسی کو فون کال کرنا، میسیج کرنا، اس سے کوئی بھی ایسی بات کرنا جو اس کی مرضی کے خلاف ہو یا اسے کسی خاص مقصد کے لیے مجبور کرتی ہو تو وہ سب چیزیں اس تیسری کیٹیگری میں آتی ہیں۔ چوتھے نمبر پہ ورک پلیس ہیریسمنٹ ہے ۔ یہ ایک دم سخت قسم کا شکنجہ ہوتا ہے ۔ شقیں اس کی زیادہ تر وہی سول ہیریسمینٹ والی ہیں لیکن وہ "اخلاق باختہ” لوگ اگر کسی وجہ سے بات کرتے ہوئے بہت سنبھلے ہوئے محسوس ہوتے ہیں تو اس میں بہت ہاتھ اس ورک پلیس والے معاملے یعنی کام کرنے والی جگہ پر دوسروں سے رویہ کیسا رکھنا ہے اس کا ہے ۔ آپ کسی کو گھور کے بھی دیکھ لیتے ہیں تو وہ بھی دھمکی یا برے ارادے ہونے کے زمرے میں آئے گا۔ برطانیہ اور تمام دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں تقریباً یہی حالات ہیں۔

ہم میں سے کتنے ہیں جو دعوے کے ساتھ یہ کہہ سکیں کہ نہ ہم کبھی اس ہیریسمنٹ کا شکار ہوئے اور نہ ہی کبھی ہم نے کسی کو ہیرس کیا ہے ؟ چلیے ہم چونکہ پاک صاف ہونے اور رہنے کے دعویدار ہیں تو مردوں کو اس لسٹ سے نکال دیتے ہیں۔ بچوں کی ہیریسمنٹ والی کہانیاں ویسے بھی دوسری سائیڈ پر چلی جائیں گی، اسے فی الوقت ایک طرف کرتے ہیں۔ خواتین کی بات کر لی جائے ۔ کیا اس بات پر یقین آئے گا کہ ہمارے یہاں یہ اس قدر نارمل رویہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کے لیے کوئی لفظ سرے سے ہی موجود نہیں ہے ؟ اگر کوئی بیٹی یہ کہے کہ وہ مجھے تنگ کر رہا تھا، چھیڑ رہا تھا، تو بس یہ بات ان دو لفظوں سے آگے نہیں بڑھتی۔ وہ کیا کہہ رہا تھا، وہ کیا تنگ کر رہا تھا، یہ سوال کرنے کی اجازت نہ معاشرہ دیتا ہے نہ وہ بے چاری کھل کر کچھ کہہ سکتی ہے ۔ تو یہ جو "تنگ کرنا یا چھیڑنا” ہے یہ اس قدر زیادہ ہے کہ کسی قبرستان میں بھی بکل مارے پہنچ جائیں تو ادھر بھی عورتوں کے ساتھ یہی سلوک ہو گا۔

کیا بازار میں جاتے ہوئے کوئی خوب صورت چہرہ دکھ جائے تو آپ کی گردن کبھی نہیں مڑتی؟ کیا آپ کی نظریں کچھ چہروں کو گھر تک رخصت کر کے نہیں آتیں؟ کیا دفتر میں ساتھ کام کرنے والی یا ساتھ پڑھنے والی خواتین کے بارے میں آج تک آپ نے کوئی ایسی بات وہیں کام کرنے یا پڑھنے والے دوسرے دوستوں سے نہیں کی جو بلحاظ جنس نازیبا ہو؟ ایسا ہو ہی نہیں سکتا، اور چونکہ یہ سوچنا بھی محال ہے کہ کوئی کیریکٹر دعوے کے ساتھ ان تینوں چیزوں کو جھٹلا سکے تو ہم اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ یہ اس قدر کامن چیز ہے جو اب تقریباً نارمل کے ضمن میں آتی ہے ۔ ایسا نہیں ہے ؟ برقع پہن کر بازار میں نکل جائیے ، کسی رش والی جگہ کا انتخاب کیجیے ، واپس تشریف لائیے تو گنتی اگر یاد رہ جائے کہ کتنی بار کیا کیا ہوا، تب بات ہو گی۔

اب ہوتا کیا ہے کہ اگر یہ شکایت اپنے گھر میں کوئی کرے کہ فلاں نے مجھے تنگ کیا یا چھیڑا تو ہم یہ نہیں پوچھتے کہ اس بات کا ثبوت کیا ہے ۔ ہمیں یقین ہوتا ہے کہ جو بات ہماری بہن، بیٹی یا بیوی نے کہی وہ ٹھیک ہے ، بلکہ بعض اوقات تو ہم یہ تک سوچتے ہیں کہ اس بے چاری نے خدا جانے کتنا برداشت کرنے کے بعد یہ بات کہی ہو گی۔ ہماری تمام ہمدردیاں ان کے ساتھ ہوتی ہیں اور حسب طاقت ہم یہ معاملہ نمٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی مخالف فریق کے ماں باپ سے بات کی جائے گی، کبھی لمبا پھڈا چلے گا، کبھی اسلحے کا استعمال ہو گا اور کبھی اس سب کے بغیر تھانے کچہری کی نوبت آ جائے گی۔ لیکن وہ سب اس وقت ہو گا جب آپ تھوڑے ریسورس فل ہوں اور لڑکے کو پھینٹی وغیرہ لگوانے کے لیے آپ سے ثبوت نہ مانگے جائیں۔ اگر آپ ایک عام انسان ہیں تو یہ سب سوچ کر ہی آپ کے کان سرخ ہو جانے چاہئییں۔

اچھا یہی بات اگر کوئی باہر والی لڑکی کہے اور آپ سنیں تو آپ کا ری ایکشن کیا ہوتا ہے ؟ ثبوت لاؤ! بھئی کتنے ثبوت بازار میں، سکولوں میں، یونیورسٹیوں میں، مدرسوں میں، سینما میں، دکانوں میں، گلیوں میں، سڑکوں پر اور یہاں تک کہ گھروں میں آپ کو روز نظر آتے ہیں کیا وہ کافی نہیں ہیں؟ ٹھیک ہے اعتبار کرنا یا نہ کرنا آپ کا حق ہے ، آپ بالکل نہ کریں لیکن کیا خاموش نہیں رہا جا سکتا؟ کیا یہ ضروری ہے کہ ساری عورتیں خاموش ہو کر اس واہیات جنسی بیماری کا سامنا کرتی رہیں؟ ان میں سے کوئی ایک بھی اٹھ کر بات نہ کرے شکایت نہ لگائے ؟ اس رویے کے نتیجے میں صرف یہ ہوتا ہے کہ بے چاری شکایت لگانے والی خود اپنے گھر والوں کی نظروں میں مشکوک ہو کر رہ جاتی ہے کہ ضرور اسی نے کچھ کیا ہو گا جو اس کے ساتھ ہوا۔ بابا کرنے والے یہ نہیں دیکھتے کہ آپ چل کیسے رہی ہیں، آپ نے پہنا کیا، آپ نے میک اپ کیسا کیا ہے ، آپ کس کے ساتھ ہیں، آپ گھر سے نکلی ہی کیوں ہیں، وہ بس کر جاتے ہیں۔ ان کا دماغ مردانہ جنسی اجارہ داری کے ناسور کا شکار ہوتا ہے ۔

کوئی ہے جو یہ دعویٰ کرے کہ ہاں ہمیں معلوم ہے چاند رات پر ہمارے گھروں سے بیٹے کیا کرنے بازار نکلتے ہیں اور ہم ہنس کر نہیں ٹال جاتے ؟ یا کوئی ایسا ہے جو بتا سکے کہ نوجوانی میں موٹر سائیکلوں پہ سوار ہو کے ایک ایک بازار سے آٹھ آٹھ مرتبہ ہم نہیں گزرے ؟ جب کوئی ایسا نہیں ہے تو پھر جان لیجیے کہ اعتراض کرنے والوں کو بھی حق ہونا چاہئیے کہ وہ کم از کم چیخ سکیں، بول سکیں، بتا سکیں، ثبوت مانگیے گا تو سرکار آئینہ اٹھائیے اور چہرہ مبارک ملاحظہ کر لیجیے ۔

سیاست میں یا قومی سطح پر لیڈروں کے معاملے میں بے شک ثبوت درکار ہوتے ہیں۔ عائشہ گلالئی نے اگر پوری دنیا کے سامنے اتنی بڑی بات کی ہے تو یقیناً کسی بنیاد پر کی ہو گی لیکن معاملہ یہاں بھی وہی ہے ۔ بجائے ان کی بات پرکھنے کے ، معاملے کی جڑ تک پہنچنے کے ، بات کرنے والے‘ ان کے ذاتی کردار کو زیر بحث لے آئے ہیں۔ ان کے خاندان کو بیچ میں گھسیٹا جا رہا ہے اور وہ سب کچھ ہو رہا ہے جس سے بچنے کے لیے بے نظیر یا مریم نواز شریف بھی کان لپیٹے سب کچھ برداشت کرتی رہی ہیں۔ یاد کیجیے ، بہت کم ہی کوئی خاتون سیاست دان ایسا دعویٰ کرتی نظر آئیں گی۔ آخری خبروں تک ناز بلوچ نے بھی اس معاملے میں عائشہ گلالئی کا ساتھ دیا ہے ۔ خدا بہتر انجام کرے ۔
انسان مٹی سے بنا ہے ، خطا کا پتلا ہے ، اس سے اگر فرشتہ ہونے کی امیدیں لگائی جائیں گی اور وہی سب کچھ جب سیاست کرنے کے لیے بھی لازم ہو گا تو پھر بقول شاعر؛ بات نکلی ہے تو پھر دور تلک جائے گی!

بشکریہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے