کیا ڈکٹیٹر کو سزا ملے گی؟

کوئی عدالت ڈکٹیٹر کو سزا دےگی؟ یہ سوال سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اٹھایا ہے جنہیں چند دن قبل سپریم کورٹ نے نااہل قرار دے دیا تھا۔ نااہلی کے بعد نواز شریف مری چلے گئے اور کچھ دن خاموش بیٹھے رہے۔ پھر سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے بی بی سی کو ایک انٹرویو دیا اور اس انٹرویو کے بعد نواز شریف نے مری کے پہاڑوں سے نیچے اترنے کا فیصلہ کیا۔ پرویز مشرف نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ ڈکٹیٹروں نے ہمیشہ پاکستان کو سنوارا اور سویلنز نے پاکستان کو بگاڑا۔ پرویز مشرف کے اس انٹرویو کے باعث سویلنز میں بے چینی کی لہر کا دوڑنا ایک فطری امر تھا۔اس بے چین ماحول میں نواز شریف مری سے اسلام آباد آئے اور میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ماضی کا ڈکٹیٹر کہتا ہے کہ ڈکٹیٹر شپ اچھی ہے جمہوریت بری ہے۔ اس نے دو مرتبہ آئین پامال کیا تھا اس کو کسی عدالت نے پکڑا اور سزا دی؟ کیا کوئی ایسی عدالت ہے جو اس ڈکٹیٹر کو سزا دے سکے؟ 6اگست 2017کے روزنامہ جنگ راولپنڈی نے نواز شریف کے ان الفاظ کو اپنی ہیڈ لائن میں یوں سمویا ہے….’’کوئی عدالت ڈکٹیٹر کو سزا دےگی؟ نواز شریف‘‘۔

نواز شریف کے یہ الفاظ پڑھ کر مجھے وہ ملاقات یاد آگئی جو ان کے ساتھ مارچ2016میں وزیر اعظم ہائوس اسلام آباد میں ہوئی تھی۔ اس ملاقات کا پس منظر یہ تھا کہ نواز شریف حکومت نے پرویز مشرف کو ایک نامعلوم بیماری کے علاج کے لئے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی تھی۔ اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ پرویز مشرف چار چھ ہفتوں میں واپس آجائیں گے لیکن اس ناچیز نے جیو نیوز پر گستاخی کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ پرویز مشرف واپس نہیں آئیں گے کیونکہ ان کی روانگی ایک غیر اعلانیہ معاہدے کانتیجہ ہے۔ شاید میرے یہ الفاظ وقت کے وزیر اعظم کو ناگوار گزرے اور انہوں نے مجھے ایک شام وزیر اعظم ہائوس میں بلالیا۔ وزیر اعظم صاحب بڑے تپاک سے ملے اور انہوں نے گفتگو کے آغاز ہی میں یہ وضاحت پیش کردی کہ میں بڑا نظریاتی آدمی ہوں، قانون کی بالا دستی پر یقین رکھتا ہوں میری حکومت نے مشرف کو سپریم کورٹ کے حکم پر ملک چھوڑنے کی اجازت دی ہے۔ میں نے وزیر اعظم صاحب سے اختلاف کیا اور بتایا کہ سپریم کورٹ نے مشرف کانام ای سی ایل سے نکالنے کے حکم کو برقرار تو رکھا لیکن اپنے فیصلے میں صاف لکھا کہ وفاقی حکومت مشرف کے خلاف آئین کی دفعہ چھ کی خلاف ورزی کا مقدمہ جاری رکھنے اور ان کی نقل و حرکت کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے میں آزاد ہے۔ یہ سن کر وزیر اعظم صاحب نے حیرانی ظاہر کی تو میں نے عرض کیا کہ جناب سپریم کورٹ کا فیصلہ منگوا لیں۔ کچھ ہی دیر میں فیصلہ آگیا جو صرف دو صفحات پر مشتمل تھا۔ میں نے وزیر اعظم کو یہ فیصلہ پڑھ کر سنایا تو انہوں نے کہا کہ مجھے تو یہی بتایا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومت کو مشرف کا نام ا ی سی ایل سے نکالنا پڑے گا۔ میں نے وزیر اعظم سے کہا کہ میری مشرف سے کوئی دشمنی نہیں اس نے1999میں میری نہیں آپ کی حکومت برطرف کی تھی لیکن اس پر آئین سے غداری کا مقدمہ آپ نے نہیں سپریم کورٹ نے بنوایا ہے آج آپ سپریم کورٹ کا نام لے کر مشرف کو پاکستان سے فرار کرانے کے عذر پیش کررہے ہیں حالانکہ سب جانتے ہیں کہ آپ پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے علاوہ شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کا بھی دبائو تھا۔ آپ کے اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے سپریم کورٹ کے سامنے مشرف کا نام ای سی ایل میں شامل رکھنے پر کوئی اصرار نہیں کیا وہ سپریم کورٹ سے بار بار یہی کہتے تھے کہ یہ فیصلہ تو آپ کو کرنا ہے۔ ایک موقع پر صاف نظر آرہا تھا کہ اٹارنی جنرل ایسا فیصلہ چاہتے ہیں کہ مشرف کو ملک سے بھگانے کا الزام سپریم کورٹ پر آجائے لیکن سپریم کورٹ نے ایسا فیصلہ نہیں دیا۔

میری سخت باتیں بڑے تحمل کے ساتھ سننے کے بعد وزیر اعظم صاحب نے کہا کہ اگر اٹارنی جنرل نے ایسا کیا ہے تو اس میں میری مرضی شامل نہیں۔ اسے اپنا عہدہ چھوڑ دینا چاہئے۔ ملاقات ختم ہوئی تو ایک بیوروکریٹ صاحب مجھے الوداع کہنے وزیر اعظم ہائوس کے استقبالئے تک ا ٓئے اور سرگوشی میں کہا اٹارنی جنرل تبدیل ہوجائے گا۔ اگلے دن اٹارنی جنرل نے اپنا عہدہ چھوڑ دیا۔ معلوم ہوا کہ موصوف نے خود اپنے عہدے سے ا ستعفیٰ دیا تھا۔ کچھ ہی دنوں کے بعد وہ ایک اور کیس میں الیکشن کمیشن میں وزیر اعظم اور ان کے خاندان کا دفاع کررہے تھے۔ اسلام آباد کے باخبر حلقے اچھی طرح جانتے ہیں کہ مشرف کو پاکستان سے فرار کرانے میں نواز شریف کے انتہائی قریبی ساتھیوں اور کچھ غیر ملکی دوستوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔نواز شریف کو کہا جاتا تھا کہ مشرف حکومت کے راستے کا پتھر ہے یہ پتھر ہٹ گیا تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ اس سلسلے میں کس کس نے کیا کردار ادا کیا اور میرے علاوہ پرویز رشید صاحب کو کیا کیا سبز باغ دکھائے گئے؟ یہ ایک علیحدہ کہانی ہے اور یہ کہانی پرویز رشید صاحب کی ز بانی آپ کے سامنے آئے تو زیادہ مناسب ہے۔ وہ لوگ جو پرویز مشرف کو پاکستان سے باہر بھجوانے کے حق میں نواز شریف کے سامنے دلائل کے انبار لگادیتے تھے ان میں کچھ کالم نگار اور دانشور بھی شامل تھے جن کی نیت پر مجھے کوئی شک نہیں لیکن ان میں اتنی اخلاقی جرأت ضرور ہونی چاہئے کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کریں کیونکہ آج وہ نواز شریف کو ذوالفقار علی بھٹو ثانی بنا کر پیش کررہے ہیں، اگر نواز شریف کی حکومت مشرف کے ٹرائل پر ڈٹ جاتی تو زیادہ سے زیادہ کیا ہوجاتا؟ جنرل راحیل شریف حکومت کا تختہ الٹ دیتے اور نواز شریف کو جیل میں ڈال دیتے۔ ایسی صورت میں نواز شریف واقعی شہید جمہوریت بن جاتے ۔ ناںان کی تین نسلوں کا حساب ہوتا، ناں کوئی جے آئی ٹی بنتی ناں دبئی کا اقامہ سامنے آتا ناں پاناما کیس میں نااہلی ہوتی۔ حکومت سے فارغ ہو کر نواز شریف سوال اٹھارہے ہیں کہ کیا کوئی عدالت ڈکٹیٹر کو سزا دے گی؟ جناب ابھی بھی آپ کی پارٹی کی حکومت ہے، کیا وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی مفرور ڈکٹیٹر کو پاکستان واپس لا کر آئین سے غداری کا مقدمہ انجام کو نہیں پہنچا سکتے؟ عذیر بلوچ کو دبئی سے گرفتار کرکے پاکستان واپس لایا جاسکتا ہے تو مشرف کو کیوں نہیں لایا جاسکتا؟

اگر وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی یہ کام نہیں کرسکتے تو عدالت حکومت کو حکم دے سکتی ہے کہ مشرف کو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔ آئین کی دفعہ190کے تحت تمام ریاستی اداروں سے کہا جاسکتا ہے کہ مشرف کی گرفتاری میں کردار ادا کریں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بڑا اچھا بیان دیا ہے کہ ہم ایسے پرامن پاکستان کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں کوئی قانون سے بالاتر نہیں۔ بیان بہت اچھا ہے لیکن فی الحال مشرف قانون سے بالاتر ہے۔ مشرف کا حالیہ انٹرویو موجودہ آرمی چیف کے بیان کی تردید ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کو فوج کا وقار قائم رکھنے کے لئے کیا کرنا ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے