پتے کی بات

عامر رانا

. . . .

Muhammad-Amir-Rana-New-640x480

مری میں افغان حکام اور طالبان کے مذاکرات میں حقانی گروپ کی نمائندگی بھی موجود تھی۔ مگر یہ بات واضح نہیں کہ آیا یہ گروہ مجموعی امن عمل پر اثرانداز ہو سکتا ہے اور افغان طالبان کی جانب سے یقین دہانیاں کروا سکتا ہے یا نہیں۔ اس بارے میں بھی یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اگر حقانی گروپ اس پوزیشن میں ہے تو وہ امن عمل میں یہ کردار کیونکر ادا کرے گا۔

سیاسی و دفاعی ماہرین امن عمل میں حقانی گروپ کی شرکت کو اہم گردانتے ہیں کہ اسے افغان بغاوت میں بڑے کردار کی حیثٰیت حاصل ہے۔ حقانیوں کو امن عمل میں شامل کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔افغان حکومت کو وقت غنیمت جانتے ہوئے ملک میں امن و استحکام کے لیے تمام حربے آزمانے چاہئیں۔

امن عمل میں حقانی گروپ کی شمولیت اس تناظر میں بھی اہم ہے کہ طالبان کی مفروضہ کوئٹہ شوریٰ کے عہدیداروں میں اختلافات کی اطلاعات ہیں جس سے اس کی سودے بازی کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے۔

رواں سال موسم بہار میں افغان طالبان نے انتہائی شدید حملے کیے ہیں۔ افغانستان میں غیرملکی افواج کے انخلا سے پیدا ہونے والے خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے طالبان نے ملک کے مختلف حصوں میں اپنی موجودگی مضبوط بنائی ہے۔ اگرچہ وہ افراتفری پھیلانے کے اپنے مختصرمدتی مقصد کی تکمیل میں کامیاب رہے مگر یہ حکمت عملی ان کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ خصوصاً اندرونی اختلافات کے ابھرتے ہوئے خطرے اور افغان جنگجوؤں میں دولت اسلامیہ (داعش) کے لیے بڑھتی ہوئے حمایت کو دیکھا جائے تو افغان طالبان کے لیے حالات ناموافق صورت بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ انجام کار اس سے ان کی افغان حکومت سے سودے بازی کی پوزیشن پر منفی اثر پڑے گا۔

امن مذاکرات کو سب سے بڑا خطرہ طالبان کی صفوں میں پائے جانے والے اختلافات سے ہو گا۔ طالبان کے سیاسی دھڑے اور میدان جنگ میں لڑتے کمانڈروں میں اختلافات کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔ میدان جنگ میں موجود طالبان کا نقطہ نظر محدود اور سیاسی سوچ کمزور ہے۔ انہوں نے افغانستان میں بھی شہری زندگی نہیں دیکھی اور ان کا خیال ہے کہ وہ کابل کو طاقت کے زور پر فتح کر سکتے ہیں۔

سیاسی دھڑا میدان جنگ کی کامیابیوں کے بل بوتے پر سودے بازی کی پوزیشن بہتر بناتا ہے تاہم یہ اپنے لڑنے والے ساتھیوں کی رضامندی کے بغیر کوئی بڑی یقین دہانی یا وعدہ نہیں کر سکتا۔ میڈٰیا رپورٹس کے مطابق میدان جنگ میں بہت سے کمانڈروں نے دھمکی دی ہے کہ اگر طالبان کے سیاسی دھڑے نے افغان حکومت کے ساتھ بات چیت بند نہ کی تو وہ اپنا الگ گروپ تشکیل دیں گے یا داعش میں شمولیت اختیار کر لیں گے۔

مری میں ہونے والے حالیہ مذاکرات سے چند روز قبل حزب اسلامی افغانستان کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے دولت اسلامیہ کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ یوں لگتا ہے جیسے انہیں طالبان کی مذاکراتی ٹیم میں مطلوبہ جگہ نہیں مل سکی۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ دولت اسلامیہ افغانستان میں متبادل غارت گر قوت کے طور پر ابھر رہی ہے۔ ایسے میں بہت سے غیر ریاستی عناصر اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اس گروپ کی آڑ لے سکتے ہیں۔ داعش کے پاس افغان قضیے کا اہم کردار بننے کی صلاحیت موجود ہے۔ یہ گروہ خود مختار اور غیرلچکدار سوچ کا مالک ہو گا۔ داعش کے ساتھ کسی قسم کے امن عمل کی بات چیت کا سوچا بھی نہیں جا سکتا، کم از کم فی الوقت اس کا کوئی امکان نہیں۔

کوئٹہ شوریٰ سے برعکس حقانی گروپ تاحال متحد ہے۔ اسے افغانستان میں سب سے زیادہ طاقتور جنگجو قوت مانا جاتا ہے۔ انہوں نے اب اپنی کارروائیوں کا دائرہ کار جنوبی افغانستان، کابل کے اردگرد علاقوں اور ملک کے شمالی حصوں تک بڑھا دیا ہے۔

بغاوت کی حرکیات سادہ ہوتی ہیں۔ اگر مزاحمتی تحریک حاصل شدہ فوائد کو مستحکم کرنے میں ناکام ہو جائے تو اس کے اندر ہی تباہی کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ کوئی تحریک کرشماتی لیڈرشپ یا اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کی صلاحیت کی بدولت ہی زندہ رہ سکتی ہے۔ اس تناظر سے دیکھا جائے حقانی نیٹ ورک کو کوئٹہ شوریٰ پر فوقیت حاصل ہے۔ کوئٹہ شوریٰ یہ ثابت کرنے کی کوششوں میں ہے کہ اس کا سپریم لیڈر تاحال زندہ ہے۔ دوسری جانب حقانی سیاسی اور عملی اعتبار سے لچک کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔

حقانی 40 سال سے افغانستان میں لڑ رہے ہیں۔ انہیں ریاستوں سے معاملات کا تجربہ ہے جن میں امریکا اور سعودی عرب جیسے ممالک بھی شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ شمالی اتحاد، طالبان، القاعدہ اور پاکستانی جنگجو گروہوں سے معاملہ طے کرنے کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ ان کے ساتھ سیاسی بات کرنا بھی آسان ہے۔

سابق افغان صدر حامد کرزئی ناصرف حقانیوں سے بات چیت کے حامی تھے بلکہ انہوں نے 2010 میں حقانی نیٹ ورک کے رہنما سراج الدین حقانی سے آمنے سامنے ملاقات بھی کی تھی۔ الجزیرہ ٹی وی نے اس ملاقات کی تفصیلات جاری کیں تو مغربی دنیا میں ہلچل مچ گئی۔ اس وقت طالبان سے مذاکرات کے خیال کو قبول عام حاصل نہیں ہوا تھا سو واشنگٹن نے فوری یہ تجویز رد کر دی۔ اب حالات مختلف ہیں اور افغان حکومت کسی بھی باغی گروہ سے بات چیت کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ آزاد ہے۔ دوسری جانب پاک افغان سرحدی علاقوں میں حقانی گروپ کی متوازی مبادیات کے باعث افغان امن مذاکرات میں اس کا مفاد بھی بڑھ گیا ہے۔ حقانیوں کی نئی نسلیں افغان اقتدار میں حصہ لینے کی خواہش رکھتی ہیں۔ یوں امن عمل میں حقانیوں کی براہ راست شمولیت کے امکانات روشن ہیں۔ اگرچہ ماضی میں انہوں نے ملاعمر کے زیرقیادت امن عمل کی حمایت کا اعلان کیا تھا تاہم انہوں نے افغان حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا امکان بھی رد نہیں کیا۔

پاکستان کو کوئٹہ شوریٰ پر اثرانداز ہونے میں مشکلات کا سامنا ہے جس کی بڑی وجہ طالبان کمانڈروں کے باہمی اختلافات ہیں۔ دوسری بات یہ کہ پاکستان کوئٹہ شوریٰ کے طالبان کمانڈروں کی نسبت حقانیوں سے زیادہ قریب ہے اور افغان حکومت سے ان کی بات چیت کے لیے براہ راست سہولت مہیا کر سکتا ہے۔

خطے میں حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ اس وقت طالبان کو اندرونی بحران اور داعش کے چیلنج کا سامنا ہے تو جلد یا بدیر حقانیوں کو بھی ایسی ہی صورت پیش آ سکتی ہے۔ داعش، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان اور ایسٹ ترکمانستان اسلامک موومنٹ جیسے بہت سے غیرملکی گروہ حقانیوں کے زیراثر علاقوں میں مداخلت کر رہے ہیں۔ مفادات کے ٹکراؤ اور نظریاتی اختلافات سے حقانی نیٹ ورک کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ بہت سے لوگ اسے پرامید منظر نامہ قرار دیں گے مگر اس سے سرحد کے اطراف میں بے سمت افراتفری جنم لے سکتی ہے۔ ایسی صورتحال میں بات چیت کے امکانات کمزور پڑ جائیں گے اور اس کے نتیجے میں افغانستان اور خطے کا امن بھی متاثر ہو گا۔

اس وقت حقانی نیٹ ورک مری امن مذکرات میں شامل ہے مگر اس کے ساتھ علیحدہ اور براہ راست بات چیت بھی شروع کی جا سکتی ہے۔ اگر حقانیوں کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا تو اس سے افغانستان میں 50 فیصد تشدد فوری ختم ہو جائے گا۔

ڈان میں شائع شدہ یہ مضمون انگریزی میں پڑھیں

عامر رانا دفاعی و سیاسی تجزیہ کار اور پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر ہیں۔ انتہا پسندی، دہشت گردی، قومی سلامتی اور ملکی و علاقائی سیاست پر ان کی متعدد کتابیں اور تحقیقی مقالے شائع ہو چکے ہیں۔

بشکریہ : سجاگ وھاڑی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے