باشعورلوگ کیسے ہوتے ہیں؟

قوموں کی ترقی اور زوال میں افراد کا کردار بنیاد کی حیثیت رکهتا ہے ،باشعور افراد سے ہی قومیں کمال اور ترقی کی منزل پر پہنچ جاتی ہیں، جن معاشروں میں افراد تو ہوں مگر وہ شعور نہ رکهتے ہوں وہ معاشرے ہمیشہ پستی اور زوال کا شکار رہتے ہیں- سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باشعور افراد کی خصوصیات کیا ہیں ؟ باشعور افراد کی بہت ساری خصوصیات ہیں جن میں سر فہرست یہ ہیں کہ باشعور افراد اپنے نفع اور نقصان کو پہچانتے ہیں، خیر اور شر کا علم رکهتے ہیں، اپنے انفرادی زندگی کے مسائل سے لے کر اجتماعی مسائل کو حل کرنے کے لئے آگاہی اور بیداری کے ساتهہ ممکنہ راہیں تلاش کرتے ہیں، وہ جزبات سے کام اور بات کرنے کے بجائے منطق اور عقل کی روشنی میں معاملات اور مسائل کو حل کی کوشش کرتے ہیں، باشعور لوگوں کے سامنے جب کوئی علمی، فکری یا سیاسی مسئلہ مجہول بن کر ابهرتا ہے تو اس کے بارے میں جلدی قضاوت نہیں کرتے ہیں، بلکہ اس مسئلہ پر بالکل بے طرف ہوکر نگاہ کرتے ہیں ،غور وخوض کرتے ہیں اور اس مجہول کو علمی صحیح وغلط کے معیار اور میزان پر تول کر معلوم میں بدلنے کی سعی کرتے ہیں ، باشعور لوگ ضمیر فروش ، ذاتی مفادات پر اجتماعی مفادات کو قربان کرنے والے، عیاش پرست، دنیوی زندگی کو اخروی زندگی پر ترجیح دینے والے، سیاسی میدان میں آنکهیں بند کرکے اندہی تقلید کرنے والے نہیں ہوتے ہیں، باشعور افراد ماضی کے تلخ واقعات ، حوادث اور حالات پر کف افسوس ملتے رہنے کے بجائے ان سے درس عبرت لیتے ہیں ، ماضی کے تجربات سے اپنے حال ومستقبل کی بہتری کے لئے سامان فراہم کرتے ہیں –

ان خصوصیات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم وطن عزیز پاکستان کی موجودہ سیاسی اور دوسرے شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد پر گہری نظر کرتے ہیں تو ہمیں مذکورہ خصوصیات کے حامل افراد خال خال ہی دکهائی دیتے ہیں، ہمارے معاشرے میں باشعور افراد کا بحران نظر آتا ہے، ہمارے لوگوں کی اکثریت اپنے نفع و نقصان اور خیر وشر سے یکسر طور پر نابلد ہے، ہماری قوم کے اکثر افراد مجہولات کا جب سامنا کرتے ہیں تو ان پر سوچ وبچار کرنے کی زحمت نہیں کرتے ہیں، سیاسی مسائل کی پیچیدگیوں کو ہم عقل کی مدد سے حل کرنے کے بجائے جزبات سے کام لے اپنا ہی نقصان کرنے پر فخر کرتے ہیں، ذاتی مفادات کو سب سے زیادہ اہمیت دینا ہماری اکثریت کی فطرت کا حصہ بن چکا ہے، ان کے نذدیک قوم اور اجتماع کے مفادات کی کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں-

مفاد پرستوں کے ہاتهوں پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے، ہمارے ایوان بالا کے کرسی نشینوں کی اکثریت مفادات پرست نکلی ، وزارت کی کرسی پر براجمان وزیراعظم نواز شریف کو مفاد پرستی نے ہی اقتدار سے گرادیا ،ہونا تو یہ چاہئے تها کہ پوری قوم اس موقع کو غنیمت جان کر اپنے مستقبل کی فکر کرتی ،نواز شریف کے کرتوت سے عبرت لے کر ملکی استحکام اور ترقی کے لئے کوئی ٹهوس لائحہ عمل طے کرتی، چوروں کو لگام دینے کے لئے مضبوط قانون بنانے پر غور کرتی، جس کا فائدہ یہ ہوتا کہ آئندہ منتخب ہونے والے وزیراعظم سمیت دوسرے بڑے منصبوں پر رہنے والے قومی اثاثہ لوٹنے کا تصور ہی نہ کرسکتے- ہونا تو یہ چاہئے تها کہ نواز شریف کی نااہلی کا حکم ججز صاحبان صادر کرکے پاکستان کی تاریخ میں رکارڈ قائم کرنے پر ان کا شکریہ ادا کرتے، ان کی حوصلہ افزائی اور تحسین کرتے، اس سے ان میں مزید انصاف سے فیصلہ کرنے کی جرات اور ہمت پیدا ہوتی، در نتیجہ وطن عزیز چوروں اور لٹیروں سے محفوظ ہوتا ،قومی اثاثوں کی حفاظت قطعی ہوتی اور ملکی معیشت اور اقتصاد مستحکم ہوتا، لوگوں میں مفادپرستی کی لالچ کا بڑهتا ہوا رجحان کم ہوتا ،جب یہ ثابت ہوا کہ نواز شریف نے قومی سرمائے پر ڈاکہ مارا ہے ،ان کا جرم تحقیقاتی کمیٹی نے پوری قوم کے سامنے لاکر عیاں کردی ہے تو انصاف کا تقاضا تو یہ تها کہ ہر پاکستانی ان کی مزمت کرتا ،قومی سطح سے ان کی مزمت میں جلسے جلوس نکالتے، پڑهے لکهے طبقے نواز شریف کی قبیح حرکت کو زیادہ سے زیادہ دنیا میں اچهالنے اور عام کرنے میں اپنی صلاحیتوں کو صرف کرتے، صحافی حضرات ان کی مزمت میں قلم چلاتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ آئندہ آنے والے احتیاط سے رہتے، نواز شریف کی طرح غلط حرکت کرنے سے گهبراتے، ان پر خوف طاری ہوتا اور اس طرح ایک اچها سلسلہ چل پڑهتا،

مگر خدا شاہد ہے ایسا نہیں ہوا، یہ توتب ہوتا جب مجموعی طور پر قوم کے افراد باشعور ہوتے ،صرف تعلیم یافتہ ہونے کا لازمہ باشعور ہونا ہرگز نہیں، اگر افراد پڑهہ لکهہ کر علامہ دهر ہی کیوں نہ بن جائیں جب تک فکری طور پر وہ مضبوط نہ ہوں وہ باشعور متصور نہیں ہوں گے- نواز شریف کے نااہل قرار پانے کے بعد بهی ہمارے پڑهے لکهے طبقوں کی اکثریت پر ان کی بے جا تعریف کرنے کا بت سوار دکهائی دیتا ہے، جس کی بنیادی وجہ مفاد پرستی ہے، ذهن میں سوال ابهرتا ہے کہ نواز شریف کو تو منصب اعلی سے فارغ کرچکا ہے اب ان کی بے جا تعریف کرنے والوں کے مفاد کا ان سے کیا تعلق ؟ جواب یہ ہے کہ سکے کا رخ بدلا ہے خود سکہ نہیں بدلا ،نواز شریف کو ہٹایا ضرور مگر اس کے ہمفکر کو منصب پر وقتی طور پر بٹهایا گیا ہے، پهر منصب وزارت پر شہباز شریف براجمان ہونے کا عندیہ دے رہے ہیں، یوں کرائے کے لکهاریوں سمیت مفادات حاصل کرنے والوں کا سلسلہ باقی ہے، یہی وجہ ہے کہ کچهہ تعلیم یافتہ افراد نواز شریف کی فضیلت اور تعریف بے جا لکهہ کر نہیں تھکتے،

مجهے یہ دیکهہ کر حیرت ہوئی کہ عرصہ دراز سے میدان صحافت میں اپنی قلمی قوت کے بل بوتے پر ابهری ہوئی شخصیت ،زبرست لکهنے والے جناب عطاءالحق قاسمی نے بهی نواز شریف کی بے جا تعریف لکهہ کر اپنا قیمتی وقت ضائع کردیا ہے ،حالیہ آئی بی سی اردو ویب سائٹ پر ان کے شائع ہونے والے دو کالموں کا شوق سے مطالعہ کیا، یہ دونوں کالم نواز شریف کی تعریفی جملوں پر مشتمل ہیں اور ایسی ایسی باتیں قاسمی صاحب نے لکهہ ڈالی ہیں جنہیں پڑهہ کر بے اختیار قاری کو ہنسی آتی ہے، بطور مثال ایک جگہ انہوں نے لکها ہے کہ نواز شریف کا پسندیدہ کهانا پلاو ہے ،آلو گوشت ہے، وہ مچهلی بڑے شوق سے کهاتے ہیں، البتہ یہ فارمی نہیں ہونی چاہیئے- جناب نواز شریف اصلی اور نقلی دیسی مچهلی کی پوری پوری نشانیاں بتاسکتے ہیں، پهر لکهتے ہیں کہ جس کو دیسی مچهلی کے اصلی اور نقلی ہونے کی اچهی طرح پہچان ہو یقینی طور پر انسانوں کی پہچان بهی ہے واہ جی؛ ایسی ایسی خوبیاں نواز شریف کی قاسمی صاحب نے لکهہ ڈالی ہے تفصیلات آپ خود پڑهیں کالم کا عنوان ہے (محمد نواز شریف سے ملیں )واقعا ہم بهی کہتے ہیں کہ انہوں نے اقتدار سے خوب استفادہ کیا ہے، مچهلی اور پلاو کهانے کے علاوہ انہوں نے اپنے اور اپنے خاندان اور جناب عطا الحق قاسمی جیسے صمیمی دوستوں کو بهی بہت کچهہ کهلایا پلایا ہے، انہیں خوشحال زندگی فراہم کرنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے، مگر یہ تو آشکار ہوا کہ غریب عوام کو تو کچهہ دینے کے بجائے ان کا سرمایہ لوٹ کر غریب تر کردیا گیا- اسی طرح وزیر اعلی حفیظ الرحمان بهی نواز شریف کی تعریف کرتے نہیں تھکتے جب کہ واضح سی بات ہے کہ انہوں نے گلگت بلتستان میں عوام کو فائدہ پہنچانے کے لئے کوئی ایسا بڑا کام نہیں کیا ہے جس کے سبب وہ تعریف کے لائق ومستحق قرار پائے, ہاں حفیظ الرحمان سمیت کچهہ اپنے خاص الخاص افراد کو بہت کچهہ دیا ہے جس کی وجہ سے حفیظ الرحمان نواز شریف کی مسلسل تعریف کرتے ہیں بہر حال اگر افراد اب بهی بیدار ہوکر مذکورہ خصوصیات کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں تو پاکستانی قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے
افراد کے ہاتهوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے