کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کیلئے ہندوستان کی عدالتوں میں یکے بعد دیگرے کشمیر سے متعلق آرٹیکل 35A اورآرٹیکل 370 کو ختم کرنے کی درخواستیں دائر کی گئیں جنہیں ہندوستان کی عدالت عظمی نے سماعت کیلئے منظور کر دیا ہے اور ہندوستان کے چیف جسٹس جے ایس کھیہرکی سربراہی میں خصوصی بینچ نے آرٹیکل 370 پرمرکزی حکومت کو4ہفتوں کے اندراپناجواب داخل کرنے کی ہدایت دی۔
اسی عدالت میں پہلے ہی آرٹیکل 35-Aکے خلاف دائردرخواست بھی زیرسماعت ہے۔اس دوران جب 35A اور 370 کو ختم کرنے درخواستیں زیر سماعت ہیں سپریم کورٹ نے جموں وکشمیرکے غیرمسلم باشندوں کواقلیت کادرجہ دئیے جانے سے متعلق دائرایک درخواست کوزیرسماعت لاتے ہوئے مرکزی حکومت کو3 ماہ کے اندراس بارے میں حتمی فیصلہ لینے کی ہدایت بھی دی ہے ۔
اس سے قبل بھی ایسا ہوتا رہا کہ 35Aاور 370کے خلاف سپریم کورٹ آف انڈیا میں درخواستیں دائر ہوئیں تاہم اس سے قبل عدالتوں نے کبھی ان دفعات کے حوالے سے درخواستیں سماعت کیلئے منظور نہیں کیں بلکہ اسی سپریم کورٹ نے جولائی2014میں ایک ایسی ہی استدعا کو مستردکرتے ہوئے درخواست گزار کوہائی کورٹ جانے کی ہدایت کی تھی اور پھر دہلی ہائی کورٹ نے بھی درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیا تھا۔
اب جب کہ سپریم کورٹ نے درخواستوں کو قابل سماعت قرار دیا ہے اس معاملہ کو لیکر اس وقت ریاست جموں وکشمیرکے سیاسی ،عوامی اورآئینی وقانونی حلقوں میں بحث جاری ہے اورریاست کی جملہ قیادت میں ہلچل پائی جاتی ہے۔
ہندوستان یہ دفعات کیوں ختم کرنا چاہتا ہے اور کشمیر میں غیرمسلموں کو اقلیت کیوں قرار دینا چاہتا ہے اس پر بحث سے قبل مذکورہ دفعات کی اہمیت کو سامنے رکھیں تو معلوم ہوتا ہے یہ دفعات کشمیر کی خصوصی حیثیت اور کشمیر میں موجود اسٹیٹ اسبجیکٹ قانون سے متعلق ہیں۔
دفعہ370 کے تحت ریاست جموں کشمیر کو آئین ہند میں خصوصی حیثیت حاصل ہے اس کے مطابق ریاست کا دفاع، امور خارجہ اوراکنامک افئیر ہندوستان کے ذمہ ہے اس کے علاوہ ہندوستان ریاست جموں کشمیر کے کسی آئینی معاملے کو چیلنج کرنے یا ریاست کے حوالے سے قانون سازی کا مجاز نہیں ہے،ریاست نے ایک عارضی الحاق کے تحت صرف تین امور کو وقتی طور پر ہندوستان کے پارلیمنٹ کا اختیار تسلیم کیا ہے جبکہ باقی تمام اختیارات ریاست کے پاس ہیں۔
اسی طرح دفعہ 35A کے مطابق ریاست جموں کشمیر میں صرف ریاستی باشندے مستقل سکونت اختیار کرسکتے ہیں غیر ریاستی باشندے جموں کشمیر میں نہ تو جائیداد بنا سکتے ہیں نہ وہاں ووٹ دے سکتے ہیں اور نہ ہی روزگارحاصل کر سکتے ہیں۔ووٹ ڈالنے، ریاست کے اندر روزگار حاصل کرنے اور مستقل سکونت کا حق صرف ریاست کے باشندوں کا ہے۔ہندوستان کے آئین کا کشمیر سے متعلق یہ حصہ مہاراجہ کے اسٹیٹ اسبجیکٹ قانون کی توثیق تھی ۔یہ قانون ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے 1927میں منظور کیا تھا۔یہ بھارتی آئین کی دفعہ 370 اور دفعہ 35Aسے متعلق ہلکا سا تعارف ہے۔
ہندوستان یہ دفعات ایک عرصے سے ختم کرنا چاہتا ہے اس کی ایک مثال یہ ہے کہ’’ دہلی میں مقیم کشمیری صحافی افتخار گیلانی لکھتے ہیں کہ کشمیر کے ایک معتبر لیڈر نے انہیں بتایا کہ 80 کی دہائی کے وسط میں جب وہ کانگریس کی ریاستی شاخ کے صدر تھے تو انہوں نے اس وقت کے وزیر اعلی جی ایم شاہ کی حکومت گرائی تھی جس پر بھارت کے اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے انہیں دہلی بلایا اور میٹنگ ہوئی جس میں راجیو گاندھی نے کانگریس کے ورکنگ صدر ارجن سنگھ سے پوچھا کہ کشمیر میں برسراقتدار میں آنے کی صورت میں کانگریس کی کیا ترجیحات ہونی چاہئیں اس پر سنگھ نے برجستہ کہا ’’آئین کی دفعہ 370کی تنسیخ کر دیں اور کشمیر کو بھارت میں ضم کر دیں تو وہ بھارت میں امر ہو جائیں گے‘‘۔
اسی طرح کشمیر کے 2014کے انتخابات میں بی جے پی کے انتخابی ایجنڈے میں دفعہ370اور 35Aکا خاتمہ سر فہرست رہا ہے۔ یہ دفعہ 370 کو ختم کرکے ریاست جموں وکشمیر کی متنازع حیثیت سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا پاکر ریاست کا بھارت میں ضم کرنے کا خواب دیکھ رہی تھی لیکن وہ اپنے مشن ’’مشن 44+‘‘ میں کامیاب نہ ہو سکی۔تاہم وہ کشمیر کی حکومت کی اتحادی بننے میں کامیاب ہو گئی اور اپنے اس ایجنڈے پر عمل کے لیے کام شروع کیا اور کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر نے کی کوششوں میں مصروف ہو گئے۔
موجودہ دور حکومت پر ایک نگاہ ڈالیں توکشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کر اور اس کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کیلئے جو اقدامات نظر آتے ہیں ان میں ’’2015 میں مفتی سعید کی سربراہی میں ریاستی کابینہ کا مرکزی حکومت کاتیار کردہ”نیشنل فورڈ سیکورٹی ایکٹ” (NFSA) کو ریاست جموں وکشمیر میں لاگو کرنے کو منظوری دینا (جس کا نفاذ ہو چکا ہے) پھر ’’سینک کالونیاں‘‘ تعمیر کرنے کی بات کی گئی(جو ابھی تک ممکن نہیں ہو سکا) اس کے بعد غیر ریاستی شرنارتھیوں (تقریبا36ہزار384مہاجر خاندانوں)کواسناد فراہم کرنے کا عمل اور اب جولائی2017کے ابتدا میں جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد عدالت میں کشمیر کے اسٹیٹ اسجیکٹ کو چیلنج کرنا‘‘ نمایاں ہیں۔
NFSA اور GST کے نفاذ کے بعددفعہ 370 کو پہلے سے زیادہ کمزور ہوگیا جس پر ہندوستان وزیر دفاع ارون جیٹلی نے کہا کہ’’کشمیر کا بھارت کے ساتھ تعلق مضبوط ہوگیا ہے‘‘۔جبکہ خود وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے کہہ دیا کہ ہم نے دیش واسیوں ’’بھارت‘‘کو عظیم تحفہ دیا ہے”۔
حال ہی میں بھارتی پارلیمنٹ نے اعداد و شمار کے حصول کیلئے بل( The Collection of Statistics (Amendment) Bill 2017) منظور کیا جس کے تحت بھارت کو اب یہ اختیار بھی حاصل ہوگیا ہے کہ وہ جموں وکشمیر میں تمام طرح کے سروے کرکے اعداد و شمار حاصل کرسکتے ہیں۔حالانکہ دفعہ370 کی موجودگی میں بھارت کو اس بل کا دائرہ کارریاست تک بڑھانے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔
370 کی حالت زار پر افتخار گیلانی نے لکھا تھا کہ’’ پچھلے69برسوں میں بھارتی حکومتوں نے آرٹیکل 370 کو اس بری طرح سے مسخ کر دیا کہ اس کا اصلی چہرہ اب نظر ہی نہیں آتا اس کی حیثیت نیکر کی جیسی ہو چکی ہے جو 35A کی شکل میں موجود ہے ‘‘۔اب اگر 35Aکو منسوخ کیا گیا تو وہ ’’نیکر‘‘ بھی اتر جائے گا۔
370کی موجودہ حالت کیلئے خود کشمیری’’ سیاستکاروں‘‘ نے اپنی عزت نفس کا خیال نہ کرتے ہوئے ان آئینی خلاف ورزیوں کے لئے راہ ہموار کی اور اس وقت بھی بی جے پی 35A اور 370 کو عدالت کے راستے ختم کروا کے کشمیریو ں کی عزت نیلام کرنے اور ان کو اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کروانے کے لئے ایک گھناونا کھیل کھیل رہے ہیں تا کہ مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جا سکے اور کشمیر کی زمینوں پر ہندوستانیوں کو آباد کیا جائے۔
اس کا ایک مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے ہندوستان کشمیر میں اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر کے یہ مطالبہ کرے کہ اب رائے شماری کروائی جائے (اس پر پاکستان کو سنجیدگی سے سوچنا چاہئیے اور کشمیر کی حیثیت کو تبدیل ہونے سے بچانا چاہئیے)۔
سرینگر سے ایک کالم نگار ایس پیرزادہ موجودہ صورتحال پر لکھتے ہیں کہ’’ کچھ حلقوں بالخصوص آزادی پسندجماعتوں کا خیال ہے کہ کشمیر ایک متنازع خطہ ہونے کی وجہ سے دفعہ 370 کی کوئی اہمیت و افادیت نہیں ہے اور ہماری جدوجہد مسئلہ کشمیر کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تناظر میں حل ہونے کے لیے ہے نہ کہ دفعہ370 اور 35Aکی حفاظت ہماری ترجیحات میں شامل ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ریاست جموں وکشمیر ایک متنازع خطہ ہے اور اس مسئلہ کا حل اقوام متحدہ کی قرار دادوں میں مضمر ہے لیکن دفعہ370 میدان جدوجہد میں کشمیریوں کے لیے ایک دفاعی لائن کی حیثیت رکھتا ہے۔ ریاست کی جغرافیائی، تہذیبی اور مذہبی شناخت و سالمیت برقرار رکھنے کے لیے مسئلہ کے حل تک دفعہ 370 ایک حصار کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ ہمارا ان معاملات کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ حریت نہ سہی البتہ سول سوسائٹی، دانشور اور ٹریڈیونینوں کے لیے یہ لازمی بن جاتا ہے کہ وہ ہر اس اقدام کی مخالفت کے لیے کھلے عام سامنے آجائیں جو ریاست کی سالمیت، وحدت اور خصوصی پوزیشن کو کمزور کرنے کے لیے اٹھایا جارہا ہو‘‘۔
اسی طرح ریاست کا ایک اخبار کشمیر عظمی اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ’’ دفعہ 370 کا وجود بذات خود الحاق سے منسلک ہے اس کے خاتمے سے ہندوستان سے الحاق پر سوالیہ نشان لگ سکتا ہے ؟‘‘
تقریبا ایک سال قبل کشمیری صحافی افتخار گیلانی 370 کے حوالے سے لکھتے ہیں ’’جموں کشمیر کا آئین دنیا کا واحد دستور ہوگا، جس میں کسی بھی صورت میں کوئی بھی اسمبلی کبھی ترمیم نہیں کرسکتی یہ پیش بندی اسلئے کی گئی ہے کہ اگر کسی وقت جمہوری طریقہ اختیار کرکے حریت یا اسی قبیل کا کوئی گروپ اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو کہیں وہ آئین کے پارٹ2میں ترمیم کرکے بھارت کے ساتھ ریاست کا رشتہ تنسیخ کرکے کوئی آئینی بحران نہ کھڑا کردے‘‘۔لیکن اب کے خاتمے کیلئے عدالت کا سہارا لیا جا رہا ہے۔
یہاں ایک سوال بھی اٹھتا ہے کہ ایک ایسا قانون جس کی ترمیم یا تنسیخ کا اختیار صرف ریاستی اسمبلی کو حاصل ہے اسے ایک عدالت ختم کرنے کا اختیار رکھتی ہے؟
تاہم اس صورتحال پر بی جے پی کے اتحاد سے بننے والی ریاست جموں و کشمیر کی وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے ہندوستان کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر جموں وکشمیر سے متعلق دفعہ370 کو تبدیل کیا گیایا اس کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی توریاست میں ترنگے (بھارت کے جھنڈے)کی حفاظت کوئی نہیں کرے گا اور ایسے اقدام سے ” علیحدگی پسند” نہیں بلکہ بھارت کو تسلیم کرنے والی قوتیں (ہند نواز جماعتیں)کمزور ہوں گی اور پھر دفعہ35Aکو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی بحران پرحزب مخالف کے سیاستدانوں ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور دیگر لیڈروں سے ملیں جنہوں نے واضح کیا کہ اس قانون کی منسوخی کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
وزیر اعلی کا یہ بیان ہندوستان کیلئے نوشتہ دیوار ہونے کے ساتھ کشمیریوں کو ایک نئی راہ بھی دکھاتا ہے۔ اس صورت حال میں جب کئی اطراف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو خطرات لاحق ہیں کشمیر کی سیاسی قیادت بشمول حریت کانفرنس اور انتخابی سیاست کر والی تمام جماعتوں کا اس معاملے پر یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ریاست کی خصوصی حیثیت کوبچانے میں کردار ادا کریں کیونکہ اگر دفعہ35 کو کالعدم قرار دیا گیا تو پھر کشمیر “ریاست “نہ رہے گی ۔