صحافت میں کیا بِکتا ہے؟

دانشورانہ ثقافت میں دلچسپی رکھنے والے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو خاصی اہمیت دیتے ہیں جبکہ اِس کا مطالعہ بھی آسان ہے کیونکہ یہ عیاں اور واضح ہوتا ہے. آپ کسی بھی معاملے کی منظم تحقیقات کر سکتے ہیں. آپ آج اور کل کے ورژن موازنہ کر سکتے ہیں. جو کچھ دکھایا اور پیش کیا جاتا ہے اور جس طرح سے پیش کیا جاتا ہے، کا تجزیہ و مطالعہ بہت دلچسپ ہے. میری رائے میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا خاص مختلف نہیں ہیں، بس یہی کہ الیکٹرانک میڈیا پہ لکھنے پڑھنے کی بجائے دیکھا، بولا اور سنا جاتا ہے، لہذا یہ آسان اور مقبول میڈیا ہے.

آپ کسی بھی ثقافتی، صحافتی ادارے یا میڈیا کو دیکھیں تو آپ کو اس کی اندرونی ساخت کے بارے میں سوال کرنا چاہیے. آپ کو وسیع سماج میں اِن کی ترتیب کے بارے میں کچھ جاننا چاہیے. یہ اقتدار اور اختیار کے دوسرے ایوانوں سے خود کو کیسے جوڑتے ہیں؟ اگر خوش قسمتی سے انفارمیشن سسٹم میں اِن معروف لوگوں کا اور اداروں کا انفرادی ریکارڈ مل جاتا ہے تو یقین کیجیے یہ بہت دلچسپ معاملے ہیں. کسی بھی میڈیا ادارے کے بارے میں تین امور قابلِ غور ہیں. یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی سائنسدان کسی پیچیدہ مالیکیول کا تجزیہ کرتا ہے. آپ کسی بھی میڈیا کے ادارے کے ڈھانچے اور ساخت کو دیکھ کر اندازہ لگائیں کہ اِس ادارے سے کیا نِکل سکتا ہے؟ یعنی اِس ادارے سے کس کام کی توقع کی جا سکتی ہے؟ پھر آپ اُس ادارے کی حقیقی "مصنوعات” کا مطالعہ/تجزیہ کریں. اور سب سے آخری کام یہ دیکھیں کہ آیا ادارے کی حقیقی مصنوعات اور آپکے اندازے اور توقعات میں کوئی مماثلت یا فرق موجود ہے؟

ہم دیکھتے ہیں کہ میڈیا کی بھی کئی اقسام ہیں. کوئی تفریح کا انتظام کر رہا ہے، کوئی فنون لطیفہ پہ کام کر رہا ہے، کوئی موسیقی، ڈرامے اور فلمیں پیش کر رہا ہے. اکثریتی میڈیا صحافتی اداروں پہ مبنی ہے. میڈیا کا یہی صحافتی حصہ ہی بڑے پیمانے پہ رائے عامہ پہ اثرانداز ہوتا ہے. ذرائع ابلاغ میں بھی ایک اعلی طبقہ "اشرافیہ میڈیا” (ELITE MEDIA) موجود ہے جو وسائل کی فراوانی کے سبب ایجنڈا ترتیب (Agenda Setting) دیتا ہے. چھوٹا اور عمومی میڈیا انہی بڑے میڈیا اداروں کی پیروی کرتے ہیں. عالمی سطح پر بی بی سی، فاکس نیوز، سی این این، الجزیرہ، یورو نیوز وغیرہ ایسے ہی ادارے ہیں جبکہ قومی سطح پر جیو نیوز، دنیا، اے آر وائی، سماء، ایکسپریس نیوز وغیرہ کے نام گنوائے جا سکتا ہیں.

سب پہلے تو یہ دیکھئے کہ ایسے تمام ادارے انتہائی منافع بخش کارپوریشنز ہیں. علاوہ ازیں اِن کے مالک بھی بہت بڑے سرمایہ دار ہوتے ہیں. نجی ملکیت اور آزاد معیشت کے استبدادی ڈھانچے میں یہ لوگ اور ادارے بالائی پرت کا حصہ ہیں. آپ کو اِن کا کام پسند نہیں ہے تو اُن کی طرف سے جائیں بھاڑ میں، اُنہیں کوئی فرق نہیں پڑتا. اگر آپ اُن کے موقف سے اختلاف کرتے ہیں تو یہ آپ کو بیوقوف ثابت کرتے ہوئے سماج سے ہی بیگانہ بنا دیتے ہیں. یہ سارے ادارے اِسی نظام کے بہی خواہ ہیں.

پھر یہ ادارے انتہائی جھوٹ بولتے ہیں. نان ایشو کو ایشو بنانے اور اصل معاملات کو پسِ پشت ڈالنے میں ماہر ہوتے ہیں. حقیقت کو باطل اور باطل کو حقیقت کا روپ دینے میں استاد ہوتے ہیں. کسی بھی غیراہم معاملے کو ایسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے، ایسی ایسی کہانیاں اور ایسی ایسی رپورٹس تیار کی جاتی ہیں کہ سچ کا گماں تو بہت حقیر بات ہے، بتدریج اُس جھوٹ کو سچ کا مقام مل جاتا ہے.

مثال کے طور پر جارج اوریل کا مشہور ناول "اینیمل فارم”(Animal Farm) بہت مقبول ہوا تھا اور اِس کو جان بوجھ کر بہت بڑھایا چڑھایا گیا تھا کیونکہ یہ ناول سوویت روس کی ریاستی پالیسیوں کے خلاف لکھا گیا تھا. پھر اُس کے بعد "انٹروڈکشن ٹو اینیمل فارم” (introduction to animal farm) لکھا گیا، جس کو شائع ہونے سے ہی روک دیا گیا، جو کوئی تیس سال کے عرصے بعد کسی کو اپنے کاغذات میں سے مل گیا تو شائع کیا گیا. اُس میں بیان کیا گیا کہ برطانیہ میں بھی ریاستی پالیسیاں ایسی ہی سخت اور ظالمانہ ہیں، برطانیہ میں "کے جی بی” نہیں ہے مگر اُس کے باوجود افرادی آزادی کی حدود سوویت روس سے مختلف نہیں ہیں. جو لوگ آزادانہ سوچتے ہیں اُن کی شدید پکڑ کی جاتی ہے.

مصنف نے بتایا کہ تمام مشہور پریس بڑے سرمایہ داروں کی ملکیت ہیں جو صرف چند چیزوں کو عوام تک پہنچنے دیتے ہیں. یہی صورت حال اشرافیہ کے تعلیمی نظام کے حوالے سے ہے، چند مخصوص باتوں کے علاوہ باقی تمام مواد نامناسب ہوتا ہے اور زیرِبحث لانے کی اجازت نہیں ہوتی ہے.

آپ پاکستان میں ہی دیکھ لیں. جیو نیوز کی خبریں دیکھیں، ایسے لگتا ہے جیسے نواز شریف سے پوچھ کر خبریں اور پروگرامات ترتیب دئیے جاتے ہیں. ایسے ہی "اے آر وائی” کو دیکھ لیں ایسا لگتا ہے کہ فواد چوہدری بیٹھ کر ساری خبریں اور پروگرام تشکیل دے رہا ہے. پچھلے کئی دنوں سے اسلام آباد سے لاہور کا سفر جاری ہے اور میڈیا نے ایک تماشہ بنایا ہوا ہے. ایک چینل ریلی کو بڑھانے کی کوششوں میں لگا ہوا اور دوسرا چینل ریلی کو مختصر کرنے کی کوششیں جاری ہیں. ملک میں مسائل کی بھرمار ہے، روز پولیس اور فوج کے زیریں رینک کے سپاہی قتل ہو رہے ہیں. آخری اطلاعات کے مطابق پندرہ سے زائد افراد کوئٹہ میں دھماکے کی نذر ہو گئے ہیں. ڈاکٹر، طلباء، نرسنگ سٹاف، وکلاء سے لیکر مزدوروں تک کئی طبقات احتجاج پہ بیٹھے ہوئے ہیں. لوڈشیڈنگ نے دن رات کا چین چھین لیا ہے. آئے روز چوری اور ڈکیتی کی واردات ہو رہی ہے. مگر میڈیا نے عوام کو اسلام آباد سے لاہور کے درمیان الجھا رکھا ہے. یہ کیسی صحافت ہے؟

ریلی میں ایک بچہ اچانک "سرکاری” گاڑی کی زد میں آ گیا. بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ یہ حادثہ ہوا ہے کیونکہ کاروں کی رفتار قدرے کم تھی اور بچے کو کچلنے سے قافلے والوں کو فائدہ بھی کوئی نہیں تھا. مگر اِس معاملے پہ نیوز چینلوں نے ایسا تماشہ کھڑا کیا کہ بدبو آنا شروع ہو گئی. شریف خاندان کے بہی خواہ تو اس حادثے کو جمہوریت کی راہ شہید کہنے لگ گئے ہیں. جبکہ دوسرے چینلز کو ایک موقع مل گیا ہے کہ کیوں نہ بچے کا لہو بیچ کر اپنا موقف مضبوط کیا جائے. حالانکہ نظام کی نااہلی کی بنا پر بیسیوں ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں اور کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، مگر اِن چینلوں کے کان پہ جوں تک نہیں رینگتی. روزانہ پاکستان میں گیارہ سو بچے صرف اسہال کی وجہ سے مر جاتے ہیں، سوال بنتا ہے کہ یہ چینل اِس معاملے پہ کیوں خاموش ہیں؟

اِن چینلوں کو عام آدمی، غریب عوام اور محنت کشوں سے کوئی غرض نہیں ہے. عام عوام اور محنت کشوں کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے. سیکس اسکینڈل، سپورٹس نیوز اور سرمایہ داروں کے بےسروپا اور بےبنیاد سیاسی قلابازیاں اِن چینلز کی شہ سرخیاں بنتی ہیں نہ کہ عوام…!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے