‘سیاستدانوں کیلئے اسلامی اصطلاحات کا استعمال روکا جائے’

اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف کی پاناما پیپرز کیس میں نااہلی کے بعد ملکی سیاست میں ’صادق‘ اور ’امین‘ کے الفاظ کے بے تحاشا استعمال کے بعد مقامی وکیل ایڈوکیٹ شاہد اورکزئی نے سپریم کورٹ سے ان الفاظ کو انتخابی اور عدالتی مقاصد کے سلسلے میں رائج نہ کرنے کے لیے درخواست دائر کردی۔

شاہد اورکزئی نے اپنی پٹیشن میں سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ وہ اس حوالے سے حکم جاری کرے کہ قرآن کریم میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے لیے استعمال ہونے والے کسی بھی لفظ یا لقب کو کسی دوسرے انسان کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔

درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ لفظ ’صادق‘ کا مطلب سچا انسان ہے، جو رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا منفرد لقب ہے، لہٰذا انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی میں ایک عام مسلمان کو کس طرح اللہ رب العزت کے پیغمبر کے برابر لکھا جاسکتا ہے۔

ایڈوکیٹ شاہد اورکزئی نے اپنی درخواست میں سوال کیا کہ کیا محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا لقب الیکشن کمیشن پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے بطور لیبل استعمال کیا جاسکتا ہے؟

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ صرف انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کاغذات نامزدگی میں اپنے اثاثہ جات ظاہر کرکے کوئی بھی صادق نہیں بن سکتا۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ایسا لقب قومی اسمبلی کے کسی بھی رکن کی تصدیق یا نااہلی کا سبب نہیں بن سکتا جبکہ حالیہ دنوں میں نوازشریف کو ’صادق‘ اور ’امین‘ کی غلط تشریح کرتے ہوئے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے نااہل قرار دیا گیا۔

پٹیشنر کا کہنا تھا کہ پاناما پیپرز کیس کے فیصلے میں وزیراعظم کے حلف نامے پر غور نہیں کیا گیا، جہاں اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وزیراعظم حکومتی فیصلوں میں اپنے ذاتی مفاد کو اثر انداز نہیں ہونے دیں گے۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ انگریزی زبان میں ’ایمانداری بہترین پالیسی ہے‘ کا محاورہ ٹھیک ہوسکتا ہے لیکن یہ محاورہ یہاں فٹ نہیں ہے اور نہ ہی یہ لفظ ’صادق‘ کے برابر ہوسکتا ہے، جس کا معنی ’سچے‘ سے بھی بڑھ کر ہیں۔

درخواست میں کہا گیا کہ قرآن کے مطابق ایک شخص اپنے امین ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے لیکن وہ اپنے آپ کو ’صادق‘ کہنے کا باضابطہ اعلان نہیں کرسکتا کیونکہ یہ دو لفظ دو مختلف علامت کو ظاہر کرتے ہیں۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62 کی شق 1 کی ذیلی شق ‘ف’ میں استعمال ہونے والا لفظ ’ایماندار‘ خاص طور پر انتخابی عمل کے لیے لاگو نہیں ہوسکتا جبکہ 1985 میں اس لفظ کے اندراج کو ریپریزنٹیشن آف پیپلز ایکٹ (روپا) 1976 تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 62 کو قومی اسمبلی کے امیدواروں کے امتحانی پرچے کے اعتبار سے نہیں لینا چاہیے بلکہ اس کا مقصد امیدوار کی شخصیت کو جاننا ہے جسے عوام کے ووٹ نے آئینی ذمہ داری سونپی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے