جب سے ہوش سنبھالا سسٹم کا جنازہ نکلتے دیکھا۔ تقریباً ہر روز نکلتے دیکھا اور ہر ایک کے ہاتھوں نکلتے دیکھا۔ کبھی سیاستدانوں کے ہاتھوں بلکہ سرکاری اہلکاروں، محکموں اور اداروں کے ہاتھوں بھی۔ با اختیار لوگوں کی تو بات ہی الگ، بے اختیار لوگوں نے بھی سسٹم کا بھرپور جنازہ نکالا ہے۔ کہیں انفرادی طور پر اور کہیں اجتماعی طور پفر۔الیکشن میں سیاستدان اور ووٹر نے ساز باز کر کے۔ عدالت میں جج اور وکیل نے گٹھ جوڑ کر کے، سرکار میں وزیر اور افسران نے جٹ بنا کر،تھانے میں پولیس نے چور کے ساتھ اشتراک پیدا کر کے، سکول میں استاداور شاگرد سے مل کراورمارکیٹ میں دکاندار اورذخیرہ اندوز نے اتحادقائم کر کے سسٹم کے جنازے کو آئے روز سڑکوں پر گھسیٹا ہے ۔
یہ جنازہ آئے روز و شب سڑکوں پر رلتا رہا ہے مگر کسی نے کبھی پڑھایا نہ دفن کرنے کی زحمت کی۔ یہ لاش گلتی سڑتی رہی اور تعفن پھیلتا رہا۔ معاشرے کے ہر عام و خاص کے ہاتھوں نکلے سسٹم کے جنازے کو آخر کار ایک ایدھی میسر آ ہی گیا۔ جو کام کسی اور سے نہیں ہو سکا وہ کام ہمارے ایک منفرد سوچ اور طرزعمل کے حامل دوست اور سماجی کارکن فیصل جمیل کاشمیری نے کر دیا۔12سال تک گلتی سڑتی اور تعفن پھیلاتی سسٹم کی لاش کو وہ شائد غسل دیکر پاک تو نہیں کر سکے مگر سفید کپڑے کا کفن بھی دیا اور کچھ اور دوستون کے ہمراہ اس کا جنازہ بھی پڑہایا۔ آنے والے دنوں میں امید ہے کہ اس سسٹم کی تدفین بھی ہو جائے گی۔
کاشمیری منفرد نوعیت کے اقدامات کے ذریعے احتجاج ریکارڈ کروانے کے لئے شہرت رکھتے ہیں اور مظفر آباد شہر کے بنیادی عوامی مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں ا ور اپنے تیءں انہیں ارباب اختیار تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ ان کے ضمیر کو جھنجوڑنے میں بھی مصروف رہتے ہیں۔ کبھی بارش کے پانی میں کاغذ کی کشتیاں چلا کر حکام کی توجہ سڑک پر پڑے گڑھوں کی جانب موڑتے ہیں تو کبھی ہسپتال(بقول ان کے ہنس پتال) کے باہر ختم شریف پڑھ کر ہسپتال کے نظام کی صحت یابی کے لئے دعا کرتے ہیں۔ درجنوں بار سفید کپڑوں میں ملبوس فیصل کاشمیری کو مظفر آباد کی مدینہ مارکیٹ میں گلیوں میں کوڑا کرکٹ اٹھاتے اور بند گٹر کھولنے کی اپنی سی کوششیں کرتے دیکھا گیا ہے۔ ان کے ان اقدامات سے میر نظر میں ان کی عزت و تکریم میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
آٹھ اکتوبر کو کشمیرمیں آنے والے زلزلے کی بارہویں برسی کے دن فیصل مظفر آباد کی ایک سڑک کے کنارے سفید کفن میں ملبوس ایک علامتی لاش رکھ کر بیٹھ گئے اور اپنے انداز میں اس کا ماتم کیا۔ بقول ان کہ یہ ان تمام سرکاری محکموں کا جنازہ تھا جو زلزلے کے بعد اس شہر کی تعمیر نواور متاثرین کی متبادل آباد کاری کے ذمہ دار تھے مگر اپنی ذمہ داریوں سے کو ادا کرنا بھول گئے ہیں۔ ازاں بعد شہر کے کچھ دیگر لوگوں نے اس لاش کی نماز جنازہ بھی ادا کی اور ان کے ورثاء یعنی ارباب اختیار کی ہدایت اور انہیں اپنی ذمہ داریوں کے ادارک کے علاوہ ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی توفیق کی بھی دعا کی۔
2005ء میں آئے قیامت خیز زلزلہ کو بارہ برس بیت چکے ہیں۔تعمیر نو کے قومی ادارے ایراء کے مطابق اُس قیامت خیززلزلے میں70ہزارافرادشدیدزخمی جبکہ 8لاکھ خاندان بے گھر ہو گئے تھے۔ آزاد کشمیر کے زلزلے سے شدید متاثر ہونے والے علاقوں میں اس وقت کے پانچ اور موجودہ ساتھ اضلاع مظفرآباد، ہٹیاں بالا، نیلم، باغ حویلی، راولاکوٹ اور پلندری کا لگ بھگ ساڑھے سات ہزار مربع کلو میٹر کا علاقہ شامل ہے ۔صرف مظفرآبادمیں شہیدہونے والوں کی تعداد 34ہزار1سو 73بتائی گئی ہے۔ دارالحکومت میں 56ہزار5سو26 ؛افرادجن میں خواتین اوربچوں سمیت ہرعمرکے افرادشامل تھے۔آزادکشمیرمیں مجموعی طورپر 84فیصدمکانات تباہ ہوئے جبکہ مظفرآبادمیں ایک لاکھ 25ہزار2سو77 مکانات مکمل طورہرتباہ ہوئے۔ایشین ڈویلپمنٹ بینک،ورلڈبینک اور یواین ایجنسیز کے مطابق زلزلے سے تباہ ہونے والے نقصانات کا مجموعی تخمینہ تقریباً5.3 ارب امریکی ڈالر لگایاگیا۔ 8اکتوبر2005ء کے ہولناک زلزلے میں شہیدہونے والے 73ہزارافرادمیں سے مجموعی طورپر67فیصدمختلف تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم طالب علم تھے۔ زلزلہ کہ بعد دنیا بھر سے امدادی ٹیمیں آزاد کشمیر اور خیبر پختون خواہ پہنچیں جہاں زلزلہ سے شدید ترین متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں شروع کی گئیں جن کی بدولت ان علاقوں میں زندگی کی رونقیں بتدریج بحال ہونا شروع ہو گئی تھی۔
صدر مشرف کی جانب سے بلائی گئی عالمی ڈونرزکانفرنس نے زلزلہ میں ہونے والے کل نقصان تخمینہ5.2 ارب امریکی ڈالرکے مقابلے میں 6ارب امریکی ڈالرامداد اور طویل المدتی قرضوں کی صورت میں فراہم کرنے کااعلان کیا۔ریاستی دارالحکومت مظفرآباد کے لئے مجموعی طور 353ملین امریکی ڈالرزمیں سے چین نے آسان شرائط پر قرض کے طورپر 300ملین امریکی ڈالرزفراہم کردئے جبکہ پاکستان نے بقیہ 53ملین ڈالرز فراہم کرنے کی ذمہ داری اٹھائی تھی۔چین نے تومطلوبہ فنڈزفراہم کردئے مگر وفاقی حکومت بارہ سالوں میں اپنے حصے کے فنڈز کا بندوبست نہیں کر سکی اور تعمیر نو کے پروگرام کے تحت شروع ہونے والے منصوبوں میں سے بیشتر ادھورے ہیں ۔ آزاد کشمیر سے تعمیر نو کے منصوبوں کے فنڈز میں سے پہلے مرحلے میں سوات آپریشن سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لئے 25ارب جبکہ دوسرے مرحلے میں بینظیرانکم سپورٹ پروگرام کے تحت وسیلہ ء حق پروگرام کے لئے 55ارب روپے منتقل کئے گئے جن کی واپسی کی آج تک کوئی راہ نہیں نکل سکی۔مظفرآبادکے 98فیصدلوگ گندہ وزہریلہ پانی پی رہے ہیں۔سڑکوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہہ ہے۔ بیشترسرکاری اداروں،سکول و کالجز اورمراکز صحت کو نئی اور زلزلہ مزاحم مکانیت دستیاب نہیں،غرض یہ کہ بنیادی نوعیت عوامی ضرورت کا قابل ذکر کوئی منصوبہ زمین پر موجود نظرنہیں آتا۔
اس کے علاوہ جس مسئلہ کو لیکر فیصل جمیل احتجاج کر رہے ہیں وہ یہ کہ ماہرین نے بارہ برس قبل آئے 7.6 درجہ کے زلزلہ کو ایک تنبیہہ قرار دیتے ہوئے اسی خطے میں 9 درجہ کے ایک اور زلزلہ کی پیش گوئی کر رکھی ہے ۔اس پیشن گوئی کے پیش نظر مظفر آباد شہر کا ماسٹر پلان تیار کرنے والے جاپانی ادارے جائیکا نے لینڈ یوز پلان میں یہ سفارش کی کہ آزاد جموں و کشمیر کے مظفرآباد کے انتہائی خطرناک علاقوں میں رہائش پذیر افراد اور قدیم شہر میں آباد افراد کو ہائی ہیزرڈ زون سے نکال کر انہیں 6 سیٹلائیٹ ٹاؤنز بنا کر وہاں آباد کیا جائے تاکہ متوقع زلزلہ میں زیادہ جانی نقصان سے محفوظ رہا جاسکے۔ مظفر آباد کے قریب ہی لنگرپورہ اور ٹھوٹھہ کے مقامات پر اسی خدشے کو مدنظر رکھتے ہوئے دو سیٹلائیٹ ٹاؤنز تعمیر کیے جن میں ابتداء میں 4000 خاندانوں کو منتقل کرنا مقصود تھا۔ یاد رہے کہ جائیکا لینڈ یوز پلان میں 6000 خاندانوں کو شہر سے باہر منتقل کرنے سفارش کی گئی تھی تاہم بارہ سال بعد بھی فی الوقت مذکورہ سیٹلائیٹ ٹاؤنز میں صرف 736 افراد کو پلاٹس دئیے جارہے ہیں ۔ باقی پلاٹس کے بارے میں اطلاع ہے کہ مقتدر اور بالادست طبقہ ان کو اپنے مخصوص طریقہ کار کے تحت من پسند لوگوں کو الاٹ کر چکا ہے جن میں سے پیشتر زلزلہ متاثرین کی کیٹگری میں نہیں یا پھر انکا تعلق مظفر آباد شہر سے نہیں۔
فیصل کشمیری کے بقول یہ حرکت 2005ء کے زلزلہ میں بچنے والوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کی ایک شعوری کوشش ہے اور اس سڑے گلے بدبودار نظام کی معمولی سی جھلک ہے جس نے ہماری ریاست کو عملاً اپاہج بنا رکھا ہے۔ زلزلہ متاثرہ علاقوں کے عوام کی بے بسی اور تعمیر نو کے منصوبوں کی حالت اور ان علاقوں کے ساتھ رواء رکھے گئے سلوک کو دیکھ کر کبھی کبھی دل میں خواہش اٹھتی ہے کہ کاش جس ملبے تلے ہزاروں کی تعداد میں لوگ دب گئے تھے اور جن کی آج تک لاشیں بھی نہیں ملیں ان کی جگہ اگر یہ کرپٹ اور استحصالی نظام بھی دفن ہو جاتا اور اس کی لاش بھی کبھی نہ ملتی تو نہ اس معاشرے میں کرپشن کا گند پھیلتا اور نہ استحصال کا تعفن لوگوں کو بیمار کرتا۔ خیر فیصل کشمیری نے اس فرسودہ اور متعفن نظام کا جنازہ پڑھوا کر ابتدا ء کر دی ہے ۔ امید رکھی جا سکتی ہے کہ کل کو کوئی اٹھے گا اور اس کی تدفین کا بھی انتظام کر دے گا۔