گلگت بلتستان کامشترکہ مفادات کونسل میں نمائندگی کامطالبہ

گلگت بلتستان

تحریر: عبدالجبارناصر
عبد الجبار ناصر
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے گلگت میں 8ستمبر کو قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ برائے امور کشمیروگلگت بلتستان کے اجلاس میں بریفنگ کے دوران مطالبہ کیاہے کہ گلگت بلتستان کو”مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی )(Council of Common Interests)”میں نمائندگی دی جائے تاکہ ڈیموں اور بجلی کے منصوبوں کا جائز حق گلگت بلتستان کو مل سکے ۔
 
 
وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کا یہ مطالبہ بروقت اور قومی امنگوں کے مطابق ہے کیونکہ قومی مشترکہ مفادات کونسل(سی سی آئی) میں گلگت بلتستان کی نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے خطے کے بڑے منصوبوںمیںنہ صرف حقیقی حالات کو دیکھا جاتاہے بلکہ خطے کو بھی ان منصوبوں کی افادیت سے محروم رکھا جاتاہے۔آبی زخائر اور توانائی کے تین بڑے منصوبے دیا مر بھاشا ڈیم ، بونجی ڈیم اور سدپارہ ڈیم گلگت بلتستان میں ہیں۔ بونجی ڈیم اور سد پارہ ڈیم اگرچہ کلی طور پر گلگت بلتستان میںہیںلیکن ان ڈیموںکے نقاصانا ت و فوائد میں مقامی عوامی رائے کو اہمیت نہیں دی جا ری ہے،کیونکہ یہ اصل اسٹیک ہولڈرز کی بجائے چاروں صوبوں کافیصلہ ہے ۔یہی وجہ ہے کہ دیامر بھاشا ڈیم بھی متنازع بنتا جا رہا ہے ، ڈیم سے متاثر ہ 95فیصد علاقہ گلگت بلتستان کا ہے جبکہ 5فیصد سے بھی کم علاقہ خیبر پختونخواکا ہے لیکن خیبر پختونخوا رائلٹی کا دعویدار ہے اور جواز کیلئے وہ آئین پیش کرتاہے۔ عجب تماشہ ہے کہ صوبے 95فیصد سے زائد متاثرہ حصے کو ایک تہائی رائلٹی دینے کیلئے بھی راضی نہیں اور 5فیصد متاثرہ صوبہ 100فیصد رائلٹی کا حق دار قرار پاتا ہے ۔ اس نا انصافی کی بنیادی وجہ ”مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی )”میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی نمائندگی نہ ہونا ہے ،کیونکہ کوئی بھی صوبہ گلگت بلتستان یا آزاد کشمیر کے حق میںبھرپور آواز اٹھاکر دوسرے صوبوں کو ناراض نہیں کرسکتا ہے ۔ دیا مر بھاشا ڈیم کی زمینوں کے معاوضے کا معاملہ ایک دہائی سے اسی وجہ سے لٹکا ہوا ہے ،ان حالات میں حکومتوں اور صوبوں کے منفی رویے پر گلگت بلتستان کے عوام سخت رد عمل ظاہر کریں تو یہ ان کاحق ہے ۔
 
 
دوسری اہم بات یہ ہے کہ دیامر بھاشا ڈیم پر بھارت کو تحفظات ہیں کیونکہ بھارت ”ریاست جموں وکشمیر کواپنا اٹوٹ انگ ”کہتا ہے اور گلگت بلتستان اس ریاست کا اہم صوبہ ہے۔ اگر قومی اداروں میں نمائندگی دیکر میگا پروجیکٹس کی منصوبہ بندی کی جائے تو بھارت کا دعویٰ از خود غلط ثابت ہوجائے گا۔پاکستان دعویٰ ہے کہ” ریاست جموں وکشمیر پاکستان کی شہ رگ ”اپنے اس موقف کو مزید مئوثر بنانے کیلئے گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کو قومی اداروں میں نمائندگی دینا ہوگا اور ضرورت پڑھنے پر آئینی ترامیم بھی کی جاسکتی ہیں ،کیونکہ گلگت بلتستان اور کشمیر کی اہمیت صدیوں سے انتہائی اہم رہی ہے لیکنپاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے بعد اس خطے کی اہمیت عالمی سطح پر اور بڑھ گئی ہے اور یہ اہمیت بھارت کو ہضم نہیں ہورہی ہے۔
 
 
بھارتی میڈیا اور تھینک ٹینکس کی رپورٹس کا جائزہ لیاجائے تو ایسا لگتاہے کہ بھارت ”پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے ”کو ناکام بنانے کیلئے ہر حدتک جانے کو تیارہے اور ایسا محسوس ہوتاہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف جس محدود جنگ کی بات کرتاہے ،وہ جنگ گلگت بلتستان یا اس کے قرب وجوار میں لڑناچاہتاہے تاکہ خطے میں انتشار کے سبب ”پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ” ناکام ہو۔بعض مبصرین کے مطابق اگرچہ حالیہ چند ماہ سے بھارتی چھیڑ چھاڑ ورکنگ باونڈری پر ہے لیکن بھارت کا اصل ہدف لائن آف کنٹرول(ایل او سی)باالخصوص گلگت بلتستان ہے۔
 
 
بھارت نے 1965میں بھی رن آف کچھ کے متنازعہ علاقے میں مداخلت کرکے عملًا جنگ کا آغاز کیا اورمجبوراً پاکستان کو کنٹرول لائن پر ریاست جموں وکشمیر میں مداخلت کرنا پڑی اور پھر بھارت نے اس کو بنیاد بناکرپاکستان پر جنگ مسلط کی ۔اب کی بار بھی بھارت کی کوشش یہی ہے کہ وہ پاکستان کو ورکنگ باونڈری میں الجھا کر گلگت بلتستان میں بڑی کارروائی کرے۔مختلف قوتیں طویل عرصے سے خطے میںمذہبی ، لسانی اور جغرافیائی انتشار پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں مگر اب تک کامیابی نہیں ملی ،اس لئے پاکستان دشمن قوتیں بھارت کے ساتھ ملک کر اب جنگ مسلط یا انتشار پیدا کرنے کی کوشش کریں گی ۔ گلگت بلتستان کے اندرسے انتشار کیلئے حمایت ملنا کسی صورت ممکن نہیں ہے اس کے لئے بیرونی عناصرکی مدد حاصل کی جاسکتی ہے ہے ، سول اور عسکری حکام کواندرونی و بیرونی عناصر مجموعی اور بالخصوص سرحدی حالات پر گہری نظر رکھنا ہوگی۔ خطے کی اہمیت کے حوالے سے آیند ہ چند سال عوام کیلئے انتہائی اہم ہیں،ان سالوں میں لسانی، مذہبی، جغرافیائی اور علاقائی مفادات سے بالا تر ہوکر من حیث القوم قومی مفاد کو مد نظر رکھنا اور اسی تناظر میں سیاست کا رخ متعین کرنا ہوگا۔
 
 
بیرونی عناصر کی ایک مرتبہ پھر پہلی کوشش یہی ہوگی کہ وہ خطے میں مذہبی،لسانی اور علاقائی فسادات کے ذریعے انتشار پیدا کریں اس میں ناکامی کی صورت میں سیاسی انتشار کی کوشش کی جائے گی۔دشمن کے منصوبوں کو ناکام بنانے کیلئے صوبائی حکومت اور سیاسی ومذہبی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہوشار رہیں ۔ مسلم لیگ (ن) کی صوبائی حکومت اقتدار کے نشے میں ایسے غلط فیصلے نہ کرے جن کی وجہ سے اپوزیشن جماعتوں کو احتجاج کا موقع ملے اور اپوزیشن کو بھی چائے کہ وہ سیاسی اختلاف کی بنیاد پر خطے کو غیر مستحکم کرنے کے بجائے مثبت اور تعمیری تنقید جاری رکھے ۔اس میں سب سے زیادہ ذمہ داری پیپلزپارٹی پر عائد ہوتی ہے، اگرچہ33رکنی ایوان میںپیپلزپارٹی نمائندگی ایک رکن کررہاہے لیکن خطے میںآج بھی پیپلزپارٹی ہی حقیقی اپوزیشن ہے۔پیپلزپارٹی خطے میں آج جس تنزلی کا شکار ہے اس کا سبب سید مہدی شاہ حکومت کی پانچ سالہ بد ترین حکمرانی ہے ۔ پیپلزپارٹی کو اب تنظیم سازی اور بلدیاتی انتخابات پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی ۔صوبائی وزیر بلدیات رانا فرمان علی کے مطابق ”حکومت ایک سال کے اندر بلدیاتی انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کیلئے ہر ممکن قدم اٹھائے گی”۔ ایسے میں پیپلزپارٹی سمیت تمام جماعتوںکو بلدیاتی انتخابات کی اصلاحات اور انتخابی تیاریوں پر توجہ دینی ہوگی۔
 
 
جہاں تک حکومت کی جانب سے سابق وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سید مہدی شاہ کی مراعات کے حوالے سے اٹھائے جانے والے ایشو کا تعلق ہے اس میں حکومت کا موقف انتہائی کمزور، بلا وجہ اور بے موقع ہے ، لیکن سید مہدی شاہ بھی مراعات چھن جانے کے خوف سے بیانات میںعوامی نمائندوں کی توہین اور تضحیک پر اتر آئے ہیں ۔سید مہدی شاہ نے تو دو ارکان کے علاوہ تمام منتخب عوامی نمائندوںکو ”ان پڑھ”قرار دیا، جو پوری قوم کی توہین ہے۔اعلیٰ ڈگری کی بات کی جائے تو موصوف خود سوالیہ نشان بن جائیں گے ،کیونکہموصوف بھی تعلیمی میدان میں12(ایف اے )سے آگے نہیں بڑ سکے ہیں۔ سچ تو یہی ہے کہ ماضی کے مقابلے میں اس بار ایوان میں سنجیدہ اور زیادہ تعلیم یافتہ ارکان موجود ہیں تاہم منتخب نمائندوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے کردار اور عمل سے ثابت کریں کہ وہ قوم کی نمائندگی کر سکتے ہیں۔
 
 
گلگت بلتستان میں ابھی تک انتخابی عمل مکمل نہیں ہوا ہے کیونکہ گلگت بلتستان کونسل کا انتخاب ہونا باقی ہے۔ اگست کے شروع میں وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے اعلان کیاکہ اگست کے اختتام تک کونسل کے انتخابات ہوجائیں گے لیکن چیف الیکشن کمشنر گلگت بلتستان جسٹس (ر)سید طاہر علی شاہ کے حالیہ بیان کے مطابق ” انتخابات کے لیے سمری ان کے پاس آئی تھی لیکن کونسل کے انتخابات کے قوائدوضوابط موجود نہیں ہیں، میں نے کونسل سیکرٹریٹ کو نہ صرف اس سے آگاہ کیاہے بلکہ یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ کونسل کے انتخاب کے قوائد و ضوابط کے لئے سینیٹ ایکٹ 1975سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ”۔ چیف الیکشن کمشنر کی یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ کونسل کے گزشتہ انتخاب میں پیپلزپارٹی نے جلد بازی میں قوائد وضوابط پر توجہ دینے کے بجائے صرف انتخاب پرزور دیا اس لیے اب صوبائی حکومت کو چاہیے کہ وہ وفاق سے کونسل کے انتخاب کے حوالے سے قوائد وضواط کیلئے رابطہ کرے اور کوشش کی جائے کہ وزیر اعظم میاںمحمد نواز شریف سے جلد اس کی منظوری دیں تاکہ انتخاب کا عمل مکمل ہواور دونوں ایوان عوامی مسائل کے حل پر اپنی توجہ مرکوز کرسکیں۔
 

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے