مفتی محمد زاہد
مہتمم جامعہ امدادیہ ،فیصل آباد
آج کل حجاج کرام کی بڑی تعداد سعودی عرب میں موجود ہے۔ یہ سب حضرات مدینہ منورہ بھی حاضر ہوچکے ہوں گے یا ہوں گے۔ مدینے کی حاضری کے دوران ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ وقت مسجد نبوی میں بلکہ زیادہ سے زیادہ قربِ رسول ﷺ میں گذاریں، اکثر ایک نماز کے لئے جاتے ہیں تو کئی نمازیں پڑھ کر ہی بلڈنگ یا ہوٹل واپس آتے ہیں۔ یہ سب اس لئے ممکن ہوتا ہے کہ مسجد نبوی کی عمارت میں خوب صورتی کے علاوہ راحت رسانی کا بھی پھر پور انتظام ہے، دنیا کا شاید سب سے بڑا اور سب سے اعلی ائیر کنڈیشننگ کا نظام ان کی عبادت کو آسان کرنے کے لئے موجود ہوتا ہے۔ عہد نبوی سے عہدِ فاروقی تک مسجدِ نبوی کی تعمیر کا جو سادہ انداز تھا وہ اپنی جگہ ہماری تاریخ کا قابلِ فخر حصہ ہے، لیکن اسی دور کے عشاق کی شان کے لائق تھا۔ آج اگر اسی انداز کی تعمیر ہوتی تو فرض نماز کی چار رکعتوں کے دوران ہی اتنا پسینہ آتا اور گرمی لگتی کہ آج کے عاشقوں کا عشق نبوی چار رکعتوں میں ہی پگھل جاتا اور سلام پھیرتے ہیں اذکارِ مسنونہ پڑھے بغیر ہی اپنے کرتے یا قمیص کو حرکت دیتے ہوے اور گریبان میں پھونکیں مارتے ہوے باہر بھاگتے، چند لوگ ہی اس سے مستثنی ہوتے اور اگلی نماز میں بھی عین اقامت کے وقت مسجد میں داخل ہوتے۔
کبھی غور کیا کہ آج حجاج اور سال بھر کے معتمرین وزائرین کی مجموعی تعداد لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں ہوتی ہوگی۔ یہ سب اتنے سکون سے عبادات کرلیتے ہیں تو یہ کس کا صدقہ جاریہ ہے۔ ہوا یہ کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں جب مسجد نبوی کی تعمیر نو کا مرحلہ آیا تو انہوں نے مسجد کو جدید ترین انداز سے تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ، بعض حضرات کو اعتراض بھی ہوا کہ سلف کے طریقے سے انحراف ہے، لیکن حضرت عثمان نے ماضی یا حال کی بجاے مستقبل کو سامنے رکھتے ہوے پورے شرح صدر کے ساتھ کام جاری رکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر خلافتِ راشدہ میں یہ کام نہ ہوتا تو بعد میں کسی کے لئے اندازِ تعمیر میں تبدیلی ممکن نہ ہوتی۔ وقتی اعتراضات ختم ہوگئے اور بعد میں سب تسلیم کررہے ہیں کہ حضرت عثمان کا فیصلہ درست تھا۔
مسجد نبوی کی تعمیر میں بہت سوں کا حصہ ہے، بانی تو سید المرسلین ﷺ ہیں، وہ یتیم جنہوں نے زمین مفت دینے کی پیش کش کی، وہ ابوبکر جنہوں نے قیمت ادا کردی، وہ صحابہ جنہوں ایمانی جوش وجذبے کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مل اپنے ہاتھوں سے تعمیرکی، وہ عمار جو سب سے زیادہ سرگرمی سے حصہ لے رہے تھے (وعمار یحمل لبنتین لبنتین) وہ عثمان جنہوں نے خالص اپنے مال سے جگہ خرید کر توسیع کی وغیرہ وغیرہ نہ معلوم کتنے کردار ہیں ، مسجد نبوی ان سب کا صدقہ جاریہ ہے۔ لیکن آج کروڑوں لوگ وہاں سکون واطمینان کے ساتھ طویل وقت جو گذار لیتے ہیں اس کا سب سے زیادہ اجر وثواب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ہی جاتا ہوگا (من سن سنۃ حسنۃ الخ) اور وہ اس حوالے سے سب سے بڑے محسن ہیں۔ اس میں ان کی انفرادیت یہ ہے کہ باقی جس نے مسجد نبوی میں کوئی کردار ادا کیا اس کو اس وقت بھی شاباش اور تحسین ضرور ملی ہوگی جبکہ حضرت عثمان کے حصے میں وقتی طور پر تنقید آئی، حالانکہ اس میں ان کی ذات کا دھیلے کا بھی فائدہ نہیں تھا۔ انہوں نے وقتی تنقید سہہ کر آنے والوں کے راہ کھول دی۔ اب جب آپ کو وہاں حاضری کی سعادت حاصل ہو (اللہ کرے سب کو بار بار مقبولیت کے ساتھ حاصل ہو) تو کم از کم ایک مرتبہ حضرت عثمان کے ایصالِ ثواب کے لئے دو نفل پڑھ کر یہ دعا ضرور کردینا کہ اللہ انہیں اس احسان کا ہماری طرف سے بہترین صلہ عطا فرمائیں۔