مسلمانوں کے تیسرے امیر المومنین سیدنا عثمان ذولنورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ

پاکیزہ طبیعت،حلیم و بردبار،فراخ دل و سخی،صبر واستقامت کا پیکر مجسم،شرم و حیاء کا استعارہ،داماد رسول، ذوالنورین،خلیفہ ثالث،شہید مظلوم،قاری قرآن یہ تمام صفات ،واقعہ فیل سے چھ سال بعد عفّان بن ابی العاص بن امیہ اور ارویٰ بنت کریز بن ربیعہ کے آنگن میں آنکھیں کھولنے بچے کی تھیں،جنہیں دنیا خلیفہ رابع امیرالمؤمنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نام نامی سے جانتی ہے،جب کہ سلسلہ نسب میں آپ کی نانی ام الحکیم بیضاء حضرت عبد المطلب کی بیٹی تھیں یعنی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی نانی نبی کریم ﷺ کی حقیقی پھوپھی تھی،یہ نبی کریم ﷺ کے والد عبداللہ کے ساتھ جڑواں پیدا ہوئیں تھیں(استیعاب لابن عبدالبر)۔

رسول اللہ ﷺکے اعلان نبوت کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دعوت پر لبیک کہ کر السابقون والاولون کی صف میں شامل ہوکر تبلیغِ اسلام کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں اور وسائل وقف کردیئے ،آپ کا شماررؤساء عرب میں ہوتا تھا ،اس لیے اشرافیہ اور سرداروں میں مؤثر انداز میں اسلام کے پیغام کو پہنچایا ،سیدہ رقیہ بنت رسول اللہ ﷺ کا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے نکاح نبی کریم ﷺ کے اعلان نبوت سے پہلے ہوا،قبول اسلام کے بعد حبشہ اور مدینہ ہجرت کرنے کی سعادت حاصل کی،حضرت رقیہ رضی اللہ عنھا کی وفات کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اپنی دوسری بیٹی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنھا کو آپ کے عقد میں دے دیا،اور سن 9 ہجری میں ان کی وفات کے موقع پر ارشاد فرمایا ”اگر میری چالیس بیٹیاں بھی ہوتیں تو یکے بعد دیگرے ان سب کا نکاح عثمان کے ساتھ کر دیتا۔”ہجرت مدینہ کے بعد بیئر رومہ خرید کر اس کا میٹھا پانی مسلمانوں کے لیے وقف کردیا.

اسی طرح مسجد نبوی کی توسیع کے لیے زمین 20 ہزار درھم میں خرید کر لسان نبوت سے جنت کی بشارت کے مستحق ٹھہرے،اسی طرح صلح حدیبیہ کے موقع پر اپنی جان کو خطرے میں ڈالتے ہوئے اسلامی سفارت کے فرائض سرانجام دیئے،جب کہ آ پ کی شہادت کی افواہ پر ردعمل میں ساڑھے چودہ سو صحابہ نے قصاص عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی،جسے اسلامی تاریخ میں بیعت رضوان کہا جاتا ہے،رسول اللہ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کو حضرت عثمان کا ہاتھ قرار دے کر اسے اپنے بائیں ہاتھ پر رکھا اور فرمایا ” یہ عثمان کی بیعت ہے۔”(بخاری)

غزوہ تبوک کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”جو شحص جیش عسرہ تیار کرے گا اس کے لیے جنت ہے۔”اس موقع پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسلامی لشکر کی تیاری میں اتنا مال خرچ کیا کہ کوئی دوسرا اس کارخیر میں ان کی برابری نہ کر سکا۔(بخاری۔2778)آپ کاتب وحی ہونے کے علاوہ نبی کریم ﷺ کا انتہائی قرب حاصل تھا۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے ” جنت میں ہر نبی کاایک ساتھی ہو گا اور میرا ساتھی عثمان ہے۔”حضرتاماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا روایت فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ”اے عثمان! اللہ تجھے خلافت کی ایک قمیص پہنائے گا،جب منافق اسے اتارنے کی کوشش کریں تو اسے مت اتارنا یہاں تک کہ مجھ سے آ ملو۔”

وصال نبوت کے بعد حضرات شیخین کے معاون و مشیر رہے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان کی منتخب کردہ چھ رکنی کمیٹی نے آپ کو متفقہ طور پر خلیفہ مقرر کیا،آپ کے بارہ سالہ مثالی دورِ خلافت میں اسلامی سلطنت کادائرہ وسیع تر ہو کر آذربائیجان،آرمینیا،طرابلس،الجزائر اور مراکش فتح ہوئے۔28 ؁ھ میں بحیرہ? روم میں شام کے قریب قبرص،30 ؁ھ میں طبرستان،33 ؁ھ میں قسطنطنیہ سے مُتصل مرودر، طالستان اور جوزجان فتح ہوئے،جب کہ فتوحات کا یہ سلسلہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد تعطل کا شکار ہوگیا۔

آپ کا سب سے بڑا کارنامہ قرآن مجید کو اختلاف و تحریف سے محفوظ کرنا اور ایک قرات پر امت مسلمہ پر جمع کرناہے،آپ نے ام المومنین حضرت حفصہؓ سے عہد صدیقی کا مرتب اور مدون کیا ہوا نسخہ حضرت زید بن ثابتؓ، عبداللہ بن زبیرؓ اور سعید بن العاصؓ سے اس کی نقلیں کروا کرتمام صوبوں کیصدر مقام کی طرف روانہ کیں۔

امیر المؤمنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کے اخیر حصے میں یہودیوں اور مجوسیوں نے مختلف انداز میں فتنوں اور سازشوں پروان چڑھانا شروع کیاِ ،جس کے نتیجے میں بصرہ،کوفہ اور مصر سے تقریباً دوہزار فتنہ پرداز (باغی) اپنے مطالبات منوانے کے لئے حاجیوں کے روپ میں مدینہ پہنچ کر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے مکان کا محاصرہ کرلیا جو 40روزتک جاری رہا،باغیوں نے کھانا پانی سب جانے کے راستے بند کردیئے۔حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کچھ کھانے پینے کی چیزیں پہنچانے کی کوشش کی تو باغیوں نے رسول اللہ ﷺ کیزوجہ محترمہ اور ام المؤمنین کا لحاظ رکھے بغیر بے ادبی سے انہیں واپس کردیا۔

جانثارصحابہ کرام اور نوجوانوں نے آپ کے دفاع اور سرکوبی کے لیے اجازت چاہی تو آپ نے فرمایا ”’’

میں اپنی ذات یا اپنی خلافت کی خاطر مسلمانوں کی تلواریں باہم ٹکراتے نہیں دیکھ سکتا‘‘۔جمعۃ المبارک اٹھارہ ذوالحجہ 35 ؁ھ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے خواب میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھاکہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما تشریف فرما ہیں اور رسول اللہ ﷺْ فرمارہے ہیں: عثمان جلدی کرو،ہم تمہارے افطار کے منتظر ہیں۔

آپ رضی اللہ عنہ نے بیدار ہو کر لباس تبدیل کیا اورتلاوت قرآن مجید میں مشغول تھے کہ باغیوں نے حملہ کرکے 88 سالہ اس عظیم المرتبت خلیفہ راشد اور صحابی رسول کوشہید کردیا،اس وقت آپ قرآن مجیدسورہ البقرۃ کی آیت: 137 ترجمہ؛ (تمہارے لئے اللہ ہی ان کے مقابلے کے لیے کافی ہے اور اللہ تعالیٰ خوب سننے اور جاننے والا ہے) کی تلاوت فرما رہے تھے، آپ نے 12 سال 6 ماہ تک مسندنشینِ خلافت رہ کر اسلام اور مسلمانوں کے لیے گراں قدر خدمات سرانجام دیں ،جو یقیناًآب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں ، حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں حیاؤوفا کے اس عظیم پیکر کی نماز جنازہ اداکی اور آپ کو” کوکب "نامی باغ میں دفن کیا گیا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے