گلگت بلتستان عبوری صوبہ

گلگت بلتستان نے مختصر وقفے کے بعد ایک مرتبہ پھر صدارتی آرڈر کے نچلے پرواز سے اٹھ کر آئین پاکستان میں جھانک رہا ہے۔ گلگت بلتستان کے آئینی حیثیت سے متعلق صدائیں روزانہ کی بنیاد پر اٹھتی رہتی ہیں لیکن سماعت کے لئے مخصوص وقت مقرر ہے۔ موجودہ وقت میں بھی جی بی کے متعلق اہم ترین اور اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں گفت و شنید سے انتخابی معرکے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مسلم لیگ ن کی سابقہ حکومت کے پاس اس حوالے سے جتنا سنہرا موقع تھا وہ اب تک شاید کسی اسمبلی کو نہیں ملا ہے۔ سابق وزیراعظم نوازشریف نے گلگت بلتستان میں مسلم لیگ ن کو دو تہائی اکثریت ملنے کے بعد ہی مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں آئینی کمیٹی قائم کرکے اس حوالے سے سفارشات طلب کرلیں۔ سرتاج عزیز کمیٹی کا پہلا اجلاس 12نومبر 2015کو اسلام آباد میں طے ہوا جبکہ صوبائی حکومت گلگت بلتستان نے سابق وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن کی قیادت میں 20نومبر کو جی بی میں کل جماعتی کانفرنس طلب کرکے اس سے سفارشات لیں۔ لیگی حکومت کی خواہش تھی کہ اس ساری صورتحال میں جی بی کی اسمبلی (اس وقت قانون ساز اسمبلی) سے منظور ہونے والے قراردادوں کے علاوہ بھی سیاسی و مذہبی جماعتوں اور اہم شخصیات کو اعتماد میں لیں۔ 20نومبر کے اجلاس میں دی گئی آراء کو بھی سفارشات کی شکل میں اکھٹا کرکے سرتاج عزیز کمیٹی کو پیش کردی گئی۔ سرتاج عزیز کمیٹی کے قیام کو 5سال مکمل ہونے والے ہیں، ن لیگ کی مرکز میں حکومت تک سرتاج عزیز کمیٹی کا زکر بڑے زور و شور سے ہوتا رہا بلکہ اس کی مختلف سفارشات پر مبنی خبریں بھی سامنے آتی رہیں مگر اس کمیٹی کے نتائج صفر۔ نوازشریف کی 2017میں نااہلی مقامی قیادت کے لئے ایک محفوظ راستہ رہا۔

سرتاج عزیز کمیٹی اور سابقہ حکومت کے دور میں آئینی حقوق اور حیثیت کے متعلق زکر کا اہم مقصد یہ ہے کہ نت نئے خبریں پہلی بار نہیں ہیں بلکہ ہمیشہ سے یہی ہوتا آرہا ہے۔ اب کی بار بھی بالکل اسی نہج پر صورتحال چل پڑی ہے۔ دو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجو د وفاقی حکومت اور تحریک انصاف کی جانب سے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا تھا جس کی بنیاد پر کہا جاسکے کہ تنظیمی طور پر ان کی ترجیحات کیا ہیں یا پھر اس علاقے کے ساتھ کتنا لگاؤ ہے۔ دو سال کے بعد وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ یا مکمل صوبہ دینے کے اعلانات کے زریعے جی بی کی سیاست میں اپنی انٹری دیدی ہے۔ گوکہ پانی سر سے گزرچکا ہے تاہم پھر بھی یہ دیر آید درست آید ثابت ہوسکتا ہے۔

اس بار ماضی کی نسبت جی بی کے معاملات زیادہ سنجیدہ نظر آرہے ہیں۔ پوری سیاسی قیادت نے آل پارٹیز کانفرنس میں گلگت بلتستان کے صاف شفاف انتخابات اور جی بی کو مین سٹریم کرنے کا مطالبہ کردیا۔ سیاسی قیادت اور عسکری قیادت جی بی کے معاملے پر ایک بیٹھک کے زریعے متفق ہوگئے۔ یہاں تک کہ وفاقی وزیرامور کشمیر و جی بی نے صاف شفاف انتخابات کے لئے اپنی گارنٹی دینے کا بھی اعلان کردیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق عسکری قیادت سے قومی رہنماؤں کی ملاقات میں جی بی کی قومی اداروں میں نمائندگی جیسے معاملات پر بھی گفت و شنید ہوئی تاہم یہ بات ابھی تک طے نہیں ہوسکی ہے کہ گلگت بلتستان کے لئے مذکورہ اقدامات انتخابات سے قبل ہونگے یا پھر انتخابات کے بعد ہوں گے۔

اس بار صورتحال اس لئے بھی یکسر مختلف ہے کہ تنازعہ کشمیر اپنی سابقہ ہیئت میں موجود نہیں ہے۔ 5اگست 2019کو مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کردیا جس کے نتیجے میں ہندوستانی آئین کے 370 اور 35اے آرٹیکل کو ختم کردیا گیا۔ یہ امر اختصار کے ساتھ قابل زکر ہے کہ تقسیم ہند کے دوران بھارت اور مقبوضہ کشمیر کے مابین جن شرائط پر معاملات طے ہوئے تھے ان کو انہی دونوں آرٹیکلز میں محفوظ کردیا گیا تھا۔ مذکورہ اقدام کے بعد رواں صدی کا سب سے بڑا کرفیو کشمیر میں دیکھنے کو ملا اور حکومت پاکستان نے اس صورتحال کو عالمی میڈیا کے سامنے لانے کی کوشش کی اور عالمی فورمز میں بھی مودی حکومت کے ان اقدامات پر آواز اٹھاتی رہی۔

گلگت بلتستان اس تنازعہ کا اس وقت اہم ترین جز ہے جسے بدقسمتی سے تقسیم ہند کے دوران ہی سنگلاخ پہاڑوں میں قید کردیا گیا اور اصولی طور پر کشمیر سے اس کو دور رکھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان دونوں کی صورتحال یکساں نہیں ہے۔ آزاد کشمیر اس وقت اپنے لئے آئین لینے میں کامیاب ہوگیا جب گلگت بلتستان میں انتخابات کا تصور بھی نہیں تھا۔ یوں دونوں علاقوں کی تنہا پرواز شروع ہوگئی۔ آزاد کشمیر میں جی بی سے ہمدردی رکھنے والے سیاسی رہنماؤں کو بھی اس خطے سے دور رکھا گیا۔ پھر ملک کے معروضی حالات بھی ان دو خطوں کے درمیان خلاء کو بڑھانے کا سبب بنتے رہے اور فرقہ واریت کی آگ نے بھی ان دونوں علاقوں کے درمیان خلا پیدا کردیا جو کہ فطری ردعمل ہے۔تاہم قانونی تاریخی حوالوں کو اس کے باوجود نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے، اور جب تک اس نکتے سے آغاز نہیں کیا جائے کہ جی بی تنازعہ کشمیر کا لازمی حصہ ہے تب سے بات چیت آگے نہیں بڑھ سکتی ہے۔ بعض شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کے اس سلسلے میں بیانات آتے رہتے ہیں جن کی قانونی حیثیت مقامی اسمبلی سے پاس ہونے والے قراردادوں سے زیادہ نہیں ہوسکتی جبکہ قراردادوں کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہے۔

ان دونوں خطوں کی تنہا پرواز کے خلاء کے دوران پیپلزپارٹی کی حکومتوں کو یہ توفیق ملی کہ انہوں نے بتدریج اصلاحات کا سلسلہ شروع کردیا جس کی آخری اینٹ 2009کے صدارتی آرڈر کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ جبکہ مسلم لیگ ن کی حکومت اس حوالے سرتاج عزیز کے ڈاکومنٹس سے زیادہ آگے نہیں نکل سکی۔
اگر موجودہ وقت میں وفاقی حکومت یا ریاست پاکستان اس بات کا فیصلہ کرلیتی ہے کہ گلگت بلتستان کی خصوصی حیثیت برقرار رکھتے ہوئے اسے عبوری صوبہ بنائے جس کے نتیجے میں جی بی کو ملکی فیصلہ ساز اداروں تک رسائی ملتی ہے تو اس سے بہتر قدم نہیں ہوسکتا ہے۔ اس فیصلے کے زریعے حکومت یہاں کی آبادی، شہریت کو محفوظ کرسکتی ہے اور مقامی طور پر پائے جانے والے ابہامات اور تحفظات کو آسانی سے دور کرسکتی ہے۔ اسی طرح مقامی طور پر کاروبار، نظام عدل، نمائندگی، طرز حکمرانی اور وسائل کے لئے آزاد کشمیر طرز کے فارمولے کو لاگو کیا جاسکتا ہے۔تاہم اگر مودی حکومت کی 5اگست والے فیصلے کو دہرایا جاتا ہے اس کے نتائج منفی ہی آئینگے، ایسا کرنے سے واضح ہوجائے گا کہ پاکستان کا ریاستی موقف اصولی نہیں بلکہ دفاعی تھا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان عقلمندی کا مظاہرہ کرے۔ گلگت بلتستان کی نمائندگی کے لئے مقبوضہ کشمیر کے اسمبلی میں آج بھی نشستیں خالی ہیں، جو کہ غالباً 1934میں مختص کئے گئے تھے۔ اس نکتے کی بنیاد پر پاکستان عالمی دنیا میں جی بی کے زریعے سرینگر تک پہنچ سکتا ہے جس کے لئے لازماً ملک میں سیاسی استحکام،سیاسی قیادت کا ایک پیج پر ہونااور مضبوط و مربوط سفارت کاری کی ضرورت ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے