وسط ایشیائی ممالک آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان نگورنو کاراباخ کے متنازع علاقے میں حالیہ فوجی کشیدگی کی تاریخ سوویت یونین سے جڑی ہے اور اب تک اس علاقے پر دونوں ممالک میں خون ریز جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔
جنوبی قفقاز ( North Caucasus) میں نگورنو کاراباخ کا علاقہ باضابطہ طور پر جمہوریہ آذربائیجان کا حصہ ہے لیکن آرمینیا بھی اس علاقے پر دعویٰ کرتا ہے۔
یہ علاقہ مسلم اکثریتی ملک آذربائیجان اور عیسائی اکثریت آرمینیا کے درمیان میں 1918ء میں روسی سلطنت سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سے تنازع کی وجہ بنا ہوا ہے۔
جنوبی قفقاز میں سوویت توسیع کے بعد 1923ء میں نگورنو کاراباخ کے علاقے کو آذربائیجان کا علاقہ بنادیا گیا۔
سوویت یونین کے اختتام کے بعد سے اس علاقے کے کنٹرول پر آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان 1988 سے 1994 تک چھ سال طویل جنگ بھی ہوئی جس میں 30 ہزار افراد ہلاک ہوئے جب کہ لاکھوں افراد کو وہاں سے ہجرت کرنا پڑی۔
اس وسیع پیمانے کی جنگ کو ختم کرنے کے لیے روس نے ثالث کا کردار ادا کیا لیکن دونوں ممالک نے کبھی بھی امن معاہدے پر دستخط نہیں کیے ۔جنگ ختم ہونے کے بعد بھی یہ تنازع جوں کا توں ہے اور یہاں دونوں ممالک کی افواج کے درمیان پُرتشدد جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔
اس جنگ کی وجہ سے نگورنو کاراباخ کے علاقے سے آذریوں کو ہجرت کرنا پڑی اور یہاں آرمینیائی باشندوں کی اکثریت ہو گئی جب کہ حکومت بھی آرمینیا کی حمایت یافتہ بن گئی۔
1991ء کو سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اس علاقے میں ریفرنڈم بھی کروایا گیا جس میں وہاں کے عوام نے آذربائیجان سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا تھا تاہم اسے کسی عالمی تنظیم یا اقوام متحدہ کے رکن ملک نے تسلیم نہیں کیا۔
ڈیڑھ لاکھ لوگوں کے اس علاقے کو بین الاقوامی سطح پر آج بھی آذربائیجان کا حصہ تصور کیا جاتا ہے اور آذربائیجان بھی اپنے دعوے سے پیچھے نہیں ہٹا ہے۔
90 کی دہائی کے بعد 2016 میں بھی اس علاقے میں 5 روز تک دونوں ممالک کے درمیان جنگ جاری رہی جس کی وجہ سے 100 افراد ہلاک ہوئے جب کہ رواں سال جولائی میں بھی جھڑپیں ہوئیں۔
لیکن، آزاد تجزیہ کاروں اور وہاں موجود سویلین آبادی کا کہنا ہے کہ اس وقت چھڑنے والی جنگ 90 کی دہائی کے بعد چھڑنے والی سب سے بڑی جنگ ہے اور کسی بھی وقت "فل اسکیل ” جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے۔
حالیہ جنگ کی ذمہ داری دونوں ممالک ایک دوسرے پر ڈالتے ہیں جب کہ ماہرین کے مطابق یہ واضح نہیں کہ اس حالیہ جنگ کی وجہ کیا بنی تاہم کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ معاملہ جولائی میں ہونے والی جھڑپوں سے شروع ہوا۔