پہلا موڑ مڑا تو دائیں طرف، کونے والا گھر ملبے میں بدلا ہوا تھا۔ آگے گیا تو مسجد کے ساتھ والا مکان پتھروں اور لکڑیوں کے ڈھیر کی صورت پڑا ہوا ملا۔ نماز پڑھ کر واپس آرہا تھا تو بچپن کا دوست فضل الٰہی اپنے گھر کے ملبے کے درمیان کھڑا تھا۔ میرے اپنے چھوٹے بھائی کی حویلی کے کمرے چھتوں کے بغیر تھے۔ یا وحشت! گاؤں کو کس بلا کی نذر لگ گئی تھی۔
گرمی تھی اُس دن اور بلا کی گرمی۔ بقول ناصر کاظمی:
گرمی تھی اور ایسی گرمی/ مٹکوں میں پانی جلتا تھا
اِسی گرمی میں ہم پلے بڑھے جوان ہوئے۔ تو کیا اُس وقت گرمی کی شدت کم تھی؟ یا ہماری قوت مدافعت زیادہ تھی؟ برقی پنکھے تھے نہ بلبوں سے نکلتی ہوئی روشنی۔ کیکر کے درخت تھے اور دھریک کے، انار کے اور شیشم کے۔ بیریاں تھیں اور لسوڑوں کے درخت! انجیر کے بھی! لسوڑے اور انجیر کے درخت غائب ہو چکے ہیں! انجیر کو ہم کھباڑا کہتے تھے۔ ان درختوں کے نیچے اُس زمانے میں اتنی ہوا محسوس ہوتی تھی کہ جون اور جولائی بھی خوشگوار گزرتے تھے۔
رات کو کھلے صحنوں میں سوتے تھے یا چھتوں پر۔ اُس دن، جس دن کی میں بات کر رہا ہوں یعنی گزشتہ ہفتے! بجلی کے پنکھے بھی تھے، ریفریجریٹر کا پانی بھی، مگر العطش العطش کا سماں تھا۔ ہم کسی اور دنیا سے تھے یا گاؤں بدل گیا تھا؟ یا زمانہ کوئی اور تھا؟ اور ہمارا زمانہ اپنا بڑھاپا گزار کر وقت کی دھول میں بے نشاں ہو چکا تھا!
نہ پوچھ حال مرا، چوب خشک صحرا ہوں
لگا کے آگ جسے کارواں روانہ ہوا
یہ بارانی علاقے ہیں۔ یہاں نہری علاقوں یعنی وسطی اور جنوبی پنجاب کی نقد آور فصلیں کہاں! کپاس ہے نہ گنا! چاول ہے نہ آم نہ کیلا! مالٹے ہیں مگر خال خال! سیانے کسان انگور کی طرف مائل ہوئے ہیں مگر کچھ خاص نہیں! یہ علاقہ بادام کے لیے بہترین قرار دیا گیا تھا مگر اس اطلاع کو بھی مدتیں بیت گئیں۔ عملاً کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہی گندم اور مونگ پھلی! وہی جوار جَو اور باجرہ! وہی مکئی مگر کوالٹی میں ہزارہ اور کشمیر کی مکئی سے کمتر!
بارانی پٹی کے یہ قریے کیوں ویران ہو رہے ہیں؟ کیا کسی کو پروا ہے کہ سوچے، تجزیہ کرے اور ویرانی کا سد باب کرے؟ زراعت کا شعبہ وفاق سے صوبوں کو منتقل ہو گیا۔ یہ بارانی پٹی اسلام آباد سے نزدیک تھی۔ لاہور سے جغرافیائی بُعد کے علاوہ ذہنی بُعد بھی ان علاقوں کا کم نہیں۔ صوبائی دارالحکومت میں بیٹھے ہوئے کیا پالیسی ساز، اور کیا پالیسی نافذ کرنے والے، لاہور کے علاوہ کچھ نہیں دیکھ سکتے۔ دیوار کے پار دیکھنے کی صلاحیت سے یہ وزیر اور نوکر شاہی محروم ہے اور دیوار کے اندر اندر ہر طرف لاہور ہی لاہور ہے اور لاہور کا نواح! آپ بارانی اور دور افتادہ علاقوں کے لیے تخت لاہور کی بے حسی اور لا تعلقی کا اندازہ لگائیے کہ ضلع اٹک کے ایک گاؤں کے لیے ضلعی حکومت کو ڈسپنسری منظور کیے چودہ برس ہو چکے ہیں مگر ابھی تک فنڈز نہیں دیے گئے۔ متعلقہ سیکرٹری سے بات ہوئی تو اُس نے گویا یونانی زبان میں ایسا لیکچر دیا اور ایسا پروسیس بتایا کہ سائل کے ہوش ٹھکانے آگئے! وزیر اعظم کی کم از کم یہ بات سو فیصد درست ہے کہ زرعی شعبہ صوبوں کو تفویض نہیں کرنا چاہیے تھا۔ جناب رضا ربانی قابل احترام ہیں اور بہت خوبیوں کے مالک‘ مگر اٹھارہویں ترمیم کے حوالے سے ان کی سرپرستی اور اپروچ متوازن نہیں!
ہوا کیا؟ ہوا یہ کہ کسان cash starved ہو گیا یعنی پیسے پیسے کا محتاج! ایسا ہونے سے پہلے وہ اچھی بھلی زندگی گزار رہا تھا۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی بد نیت منحوس بھینگی نگاہوں سے بچا ہوا تھا۔ عشا کی نماز کے بعد لالٹین بجھا دیتا تھا پھر صبح صادق کے وقت جلاتا تھا۔ کمرے ایسے زاویوں پر تعمیر کرتا تھا کہ کڑی دوپہر کو بھی ہوا کے جھونکے لگتے تھے۔ ہاتھ کی پنکھی، جس پر کپڑے کی دیدہ زیب جھالر لگی ہوتی تھی، اسے گرمی سے بچاتی تھی اور بازوؤں کی ورزش بھی ہوتی تھی۔ مگر کمرے اور بھڑولے اس کے سارا سال گندم سے بھرے رہتے تھے۔ نائی، موچی، ترکھان، لوہار، جولاہے، درزی اور کمہار کو وہ ہاڑی ساونی (یعنی ربیع خریف) میں غلہ دیتا تھا اور دکاندار سے بھی اشیا غلہ دے کر خریدتا تھا۔ پھر بجلی آگئی اور سب کچھ بدل گیا۔
اب کسان کو ہر ماہ بجلی کا بل دینا ہوتا تھا اور کیش میں دینا ہوتا تھا۔ بات یہیں تک رہتی تو کوئی مضائقہ نہ تھا مگر بجلی کا نرخ واپڈا مقرر کرتا تھا نہ حکومت پاکستان! بجلی کے نرخ، بحر اوقیانوس کے اُس پار بیٹھا ہوا ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف مقرر کرتے تھے۔ چودہ چودہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ اور بل کی رقم میں ہر تھوڑے عرصہ کے بعد اضافہ! لامتناہی اضافہ! جن کے ٹیوب ویل تھے ان کا حال اور بھی قابل رحم!! اب کسان ہر تھوڑے عرصے کے بعد گندم کی کچھ مقدار بیچتا اور واپڈا کے راستے خون پسینے کی کمائی امریکہ بھیجتا۔ بجلی آئی تو ٹیلی وژن بھی آ گیا۔ پھر ہر گھر میں ریفریجریٹر بھی دکھائی دینے لگا۔ یہ وہی گھر تھے جن میں روشنی لالٹین کی ہوتی تھی اور تفریح ٹرانزسٹر کی، مگر کمرے غلے کی بوریوں سے بھرے رہتے تھے۔
پھر موبائل فون نامی ایک اور عفریت آیا۔ یہ ایک اور پھندا تھا جو کسان کے گلے میں ڈالا گیا۔ پاکستان جیسے ملکوں کی ڈھٹائی یہ ہے کہ استعمال ہر آلہ، ہر ایجاد، ہر سہولت کرنی ہے مگر خود کچھ نہیں بنانا، سب کچھ دساور سے منگوانا ہے۔
کوریا سے لے کر تائیوان تک اور ملائیشیا سے لے کر تھائی لینڈ تک سب کچھ نہ کچھ بنا رہے ہیں مگر ہم صرف استعمال کا نخرہ دکھا سکتے ہیں۔ ٹی وی، ٹیلی فون‘ کمپیوٹر، ٹیبلٹ، ریفریجریٹر، ایئر کنڈیشنر کا کمپریسر، گاڑی، ہمارا اپنا کچھ بھی نہیں۔ کسان جو موبائل فون استعمال کرتا ہے‘ ان کے تیار کنندہ کراچی‘ پشاور‘ لاہور اور سکھر نہیں تھے، روس، ناروے، دبئی، چین اور دوسرے ملکوں میں تھے۔ سب جانتے ہیں کہ موبائل کا ساہوکارہ کس طرح کام کرتا ہے؟ قطرہ قطرہ خون نچوڑتا ہے۔ بوٹی بوٹی گوشت کاٹتا ہے۔ آج تین سو روپے کا بیلنس ڈلوا لیں۔کل پانچ سو کا۔ دو دن بعد پھر ٹیپ چل رہا ہے اور لڑکی کہہ رہی ہے کہ آپ کا بیلنس صفر ہو چکا ہے، پھر مزید روپوں کا بیلنس ڈالا جاتا ہے۔ قطرہ قطرہ بوٹی بوٹی! جسم کھوکھلا ہوتا جاتا ہے، کیش کو مستقل دیمک لگی ہے اور کھائے جا رہی ہے۔ یہ سارا روپیہ ناروے، چین، روس، دبئی اور جانے کہاں کہاں منتقل ہو رہا ہے۔ جیسی شرائط و ضوابط یہ ساہوکار پاکستان میں روا رکھے ہوئے ہیں، شاید ہی کسی اور ملک میں ان کو برداشت کیا جائے۔ گاؤں گاؤں سے، قریے قریے سے، بستی بستی سے کیش سمیٹی جا رہی ہے! لوٹی جا رہی ہے!
یہ ہے وہ کیش جس کے لیے کسان بارانی گاؤں چھوڑ چھوڑ کر شہروں کا رُخ کر رہے ہیں۔ ہر تیسرے گھر کو تالہ لگا ہے۔ مرمت کرنے والے، مینٹی ننس کرنے والے چلے جائیں تو گھر بے توجہی کے زخم کھا کھا کر زمین بوس ہو جاتے ہیں۔ مکان بند پڑے ہیں۔ مکین پردیس میں ہیں۔ یہی حال گزشتہ ہفتے گاؤں کا دیکھا جب وہاں پہنچا۔ حال یہ ہو گیا ہے کہ دیوار کھڑی کرنے کے لیے مستری نہیں ملتا۔ شہر کا عفریت سب کو نگلتا جا رہا ہے۔ اسلام آباد، لاہور اور پشاور کے ایئر کنڈیشنڈ دفتروں میں بیٹھے ہوئے عمائدین کو کیا معلوم کہ گاؤں کتنی تیزی سے اجڑ رہے ہیں؟
کجا دانند حالِ ما سبکسارانِ ساحل ہا
ساحل پر آرام سے بیٹھے ہوئوں کو کیا معلوم کہ وہ جو گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں کس حال میں ہیں؟