ذہنوں کو مسخر کر کے انھیں اپنی مرضی کے احکامات کے مطابق عمل کرنے پر بلاچون و چرا راضی کرنے کو موجودہ دور کی نفسیاتی تعلیم کی دنیا میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ یوں تو ذہنوں کو قابو کرنے کا فن اتنا ہی قدیم ہے جس قدر انسان کی تہذیب و ترقی کا سفر لیکن جیسے جیسے علم کی دنیا نے ترقی کی تو تمام علوم کتب کی صورت محفوظ ہوتے چلے گئے ویسے ہی ہپناٹزم نے بھی اپنے دائرے، ضابطے اور اصول وضع کر لیے۔ نفسیات دان یا نفسیاتی معالج اسے صرف علاج کے لیے استعمال کرنے کو جائز خیال کرتے ہیں۔ کیونکہ جب آپ کسی شخص کو ہپناٹزم کے زیر اثر لاتے ہو تو پھر آپ اس کے لاشعور تک جا پہنچتے ہو، جہاں اس نے بہت سے ایسے تجربات چھپا کر رکھے ہوتے ہیں جو تلخ اور تکلیف دہ ہوتے ہیں، لوگوں کے خلاف اپنے جذبات کو دبایا ہوتا ہے۔ ایسے جذبات جن کے بیان کرنے سے اسے خود نقصان پہنچ سکتا ہے۔
آدمی جب اپنے ایسے تجربات، خیالات اور جذبات کو دباتا ہے تو ایک مسلسل کشمکش کا شکار ہو جاتا ہے جو اس میں اضطراب، بے چینی، پژمردگی، بلا وجہ غصہ اور بعض دفعہ جسمانی بیماریاں تک پیدا کر دیتی ہے۔ ان میں جلدی امراض اور پیٹ کے السر بہت عام ہیں۔ نفسیات دان جب کسی مریض کا علاج کرتا ہے تو اسے مریض کے لاشعور تک رسائی کے لیے ہپناٹزم کا سہارا لینا پڑتا ہے جسے موجودہ دور میں ”Hypnotherapy” کہتے ہیں۔ آجکل اس کے لیے آپریشن سے پہلے لگائے جانے والے انستھیزیا انجکشن کی ہلکی سی مقدار مریض کو ایک ایسی کیفیت میں لے جاتی ہے جہاں آپ احکامات کے ذریعے اس سے ماضی سے متعلق بہت کچھ اگلوا سکتے ہیں۔ یہ سب انفرادی ہپٹناٹزم کے زمرے میں آتا ہے۔ لیکن ایک گروپ ہپناٹزم ہے جو ایک ایسے گروہ پر استعمال کیا جاتا ہے جو بحیثیت مجموعی اس کے لیے راضی ہو۔ ایم اے کے دوران ہمارے ایک جاپانی استاد تھے وہ اکثر اس کا مظاہرہ کرتے۔
اگر کبھی ہم تھکاوٹ محسوس کر رہے ہوتے تو وہ ہمیں آنکھیں بند کرنے کو کہتے اور پھر ہاتھوں کو آنکھوں کے سامنے آہستہ آہستہ ہلانے کے احکامات جاری کرتے۔ یہاں تک کہ ہم ننید میں چلے جاتے۔ اجتماعی ہپناٹزم ایسے تمام افراد استعمال کرتے ہیں جنہوں نے اپنا کوئی گروہ منظم کیا ہو اور اسے ایک خاص مقصد کے لیے استعمال کرنا ہو۔ اس سے مثبت مقاصد بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں اور منفی بھی، ارتکاز، مراقبہ یا انگریزی زبان میں اجتماعی Meditation اسی کا نام ہے۔ یہی کیفیت ہوتی ہے جس میں کسی شخصیت کے دیدار یا اس کے حکم کو بجا لانے کے لیے لوگ کئی کئی گھنٹے سخت گرمی یا سخت سردی میں بیٹھے رہتے ہیں۔ اجتماعی ہپناٹزم کے لیے کسی شخص کو مجبور کر کے بٹھانے کی ضرورت نہیں، نہ ہی اسے قائل کیا جاتا ہے کہ ایسا کچھ ہونے جا رہا ہے۔
بس اس کے سامنے ایک ایسی کیفیت پیدا کی جاتی ہے جس کو دیکھنے کے لیے وہ ایک لمحے کو رک جاتا ہے۔ اسے یہ شخص یا کیفیت حیران کن اور مزا دینے والی لگتی ہے۔ جیسے ہی وہ اس کیفیت کے سحر میں ایک لمحے کو رکتا ہے اس کا ذہن اس شخص کے کنٹرول میں آ جاتا ہے جو اجتماعی ہپناٹزم کر رہا ہوتا ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے گروہ (Cult) اسی ذہنی تسخیر کی بنیاد پر مرتب کیے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ حسن بن صباح نے الموط کے پہاڑ پر جو جنت تخلیق کی تھی اور جس سے وہ اپنے زیر اثر لوگوں کو فدائی حملوں کے لیے راضی کر لیتا تھا وہ اسی اجتماعی ہپناٹزم کے طریقوں کی اعلیٰ ترین کیفیت تھی۔
امریکا میں اسی کے زیر اثر کئی کئی سو افراد کو اجتماعی خودکشی پر مجبور کیا جاتا رہا اور ستر کی دہائی میں پنجاب سے ایک شخص نے کئی سو لوگوں کو زیارتوں پر جانے کے لیے صندوقوں میں بند کیا اور سمندر میں بہا دیا اور کہا تم ایک دن کربلائے معلیٰ پہنچ جاؤ گے۔ موجودہ خودکش حملوں کی ترغیب بھی اسی اجتماعی ہپناٹزم کے اصولوں کے استعمال کی ایک شکل ہے۔ لیکن اس کی شاندار اور اعلیٰ ترین مثال موجودہ دور کا میڈیا ہے۔ یوں تو میڈیا کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ یہ اس وقت سے موجود ہے جب انسان صرف گفتگو کا فن جانتا تھا لیکن تحریر سے اسے آشنائی نہ تھی۔ تقریر، شاعری اور حسن کلام اسی دور سے لوگوں کے ہجوم کو مسخر کرنے کیے استعمال ہوتا تھا۔ پھر کتاب، قلم، کاغذ اور اخبار آیا۔ اسٹیج ڈراموں اور پتلیوں کے تماشوں کے ذریعے انسانوں نے انسانوں کے ذہنوں کو مسخر کرنا صدیوں پہلے سیکھ لیا تھا۔
کئی ہزار سال تک اس میڈیا کا مثبت استعمال رہا کہ یہ اجتماعی سطح پر اور عالمی طور پر کسی ایک گروہ کا غلام نہیں تھا۔ جدید میڈیا، جدید مغربی تہذیب کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ یہ ایٹم بم، نیپام بم، ہائیڈروجن بم اور کیمیائی ہتھیاروں سے بھی زیادہ خطرناک اثر اپنے اندر رکھتا ہے۔ یہ انسانوں کے ذہنوں کو اس طرح اجتماعی ہپناٹزم کے ذریعے مسخر کرتا ہے کہ انھیں حقیقت اور سراب میں فرق تک محسوس نہیں ہوتا۔ وہ اس کے سحر میں ایسے کھوئے ہوتے ہیں کہ انھیں نہ اپنے نقصان کا اندازہ ہوتا ہے اور نہ دوسروں کے دکھ اور درد کا۔
جدید مغربی تہذیب جو گزشتہ تین سو سال کی ایجاد ہے اس نے پوری دنیا میں نوآبادیات کی دولت کو لوٹ کر ترقی یافتہ ہونے کا سفر جب طے کر لیا تو اسے اپنی نو آبادیوں کو آزادی کے بعد مستقل غلام بنانے کا خیال آیا۔ جب ایشیاء، افریقہ اور جنوبی امریکا لوٹ لیا گیا تو اسے چھوڑنے کا ارادہ کرنے سے پہلے اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ اب یہ سب کے سب ہماری تہذیب کے بہترین نقال بن جائیں۔ اس کے لیے انھوں نے ملک میں ایسے ادارے تخلیق کیے جو ان غلام معاشروں میں جدید مغربی تہذیب کی کاربن کاپیاں تیار کریں۔ ان میں سب سے اہم ادارہ تعلیم اور دوسرا ادارہ میڈیا تھا۔ تعلیم میں سائنسی علوم شامل نہیں کہ ان کا معاشرے کی تبدیلی میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ ایئرکنڈیشنڈ، کار، بلب یا ہوائی جہاز لوگوں کو اخلاقیات یا سماجی طرز زندگی نہیں سکھاتا۔ لیکن پرائمری تعلیم اور سوشل سائنسز آپ کے ذہن میں کرداروں کو تخلیق کرتی ہیں۔
کارٹون، نرسری کی نظمیں، کومکس اور اسی طرح مذہب سے بیگانہ اخلاقیات آپ کو اپنے سحر میں لے لیتی ہے۔ اس کے بعد جب آپ میڈیا کھولتے ہیں تو آپ کو وہ کسی قسم کا اچنبھا نہیں لگتا۔ آپ ویسا ہی ماحول دیکھنے کے لیے تیار ہو چکے ہوتے ہیں۔ جب آپ تیار ہو گئے تو پھر آپ کا ذہن اجتماعی ہپناٹزم کرنے والے کے ہاتھ میں آ گیا۔ اس کی بدترین مثال یہ ہے کہ آپ کسی شہر پر امریکی طیاروں کی بمباری کے براہ راست مناظر دیکھ رہے ہوتے ہیں لیکن اس سب کو اس طرح دیکھ رہے ہوتے ہیں جیسے ہالی ووڈ کی کوئی فلم دیکھی جاتی ہے۔
منظر کو اس طرح طاقت کے مظاہرے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ ہمیں احساس تک نہیں ہوتا کہ جس بلڈنگ پر یہ بم گرا رہے اس میں تین چار سو خاندان رہائش پذیر ہوں گے۔ بچے‘ بوڑھے‘ عورتیں وہاں مقیم ہوں گی۔ یہ میڈیا جن کو مظلوم ثابت کرنا چاہیے ان کے صرف روتی صورتیں دکھا دے اور ہم ان سے ہمدردی کرنے لگیں اور جن کی موت پر سے بے گانہ رکھنا چاہے تو گلیوں میں بکھرے ہوئے لاشوں کے ٹکڑے بھی نہ دکھائے اور ساتھ یہ دلیل بھی دے کہ ہم تو اخلاقاً ایسا نہیں کرتے کہ ان سے لوگ خوفزدہ اور نفسیانی مریض بن جاتے ہیں۔
یہ اجتماعی ہپناٹزم دنیا کو جدید مغربی تہذیب کی کاربن کاپی بنانے کا عمل ہے۔ اگر یورپ کی عورتوں نے فیصلہ کیا کہ وہ بے پردگی اختیار کریں گی تو میڈیا اپنے سحر سے سب کو قائل کر لیتا ہے کہ یہ ایک مہذب عمل ہے۔ یورپ کے مرد اگر شیو کرنا شروع کر د یں تو پوری دنیا میں ہیرو کا تصور اسی کی کاربن کاپی ہونا چاہیے۔ عورتوں کے دلوں میں جذبات ایسے ہی ہیرو سے ابھرنے چاہئیں۔ آخر اس جدید مغربی تہذیب کی کاربن کاپی پوری دنیا کو بنانے کی ضرورت کیا ہے۔ آخر اس میڈیا کو کون سرمایہ فراہم کرتا ہے کہ وہ یہ سب کچھ کرے۔ میڈیا کو ہر ماہ اربوں ڈالر دیے جاتے ہیں جو کارپوریٹ سرمائے سے ادا ہوتے ہیں۔ اور یہ کارپوریٹ سرمایہ بینکوں کی جعلی کاغذی کرنسی سے جنم لیتا ہے۔ اس کارپوریٹ سرمایہ کی امین پنتالیس ہزار کارپوریشنیں ہیں جن کو پانچ سو بنیادی کارپوریشن کنٹرول کرتی ہیں اور ان کو بیس بینک کنٹرول کرتے ہیں اور انھیں سرمایہ بھی فراہم کرتے ہیں۔
ان سب کو پوری دنیا جدید مغربی تہذیب کی کاربن کاپی کی صورت میں چاہیے۔ اس لیے کہ جب تک سب لوگ ایک جیسا پیزا‘ برگر‘ چکن یا کھانا نہیں کھائیں گے‘ ایک جیسی جینز‘ جاگر اور لباس نہیں پہنیں گے ‘ ایک جیسا میک اپ اور خوشبو نہیں استعمال کریں گے‘ ایک جیسا لائف اسٹائل اختیار نہیں کریں گے تو ان کا مال نہیں بکے گا۔ ایک جیسے لائف اسٹائل کا مطلب ہے کہ جدید مغربی تہذیب کی کاربن کاپی‘ خاندانی زندگی کی اخلاقیات بھی ویسی‘ بڑوں کا عدم احترام بھی ویسا ‘ معاشرتی‘ برائیوں زنا‘ شراب‘ جواء اور ہم جنس پرستی پر غرور بھی ویسا۔ ایسے انسان صرف اسی وقت بنائے جا سکتے ہیں جب آپ کا ذہن کسی اجتماعی ہیپناٹزم کرنے والے کے قابو میں آ جائے اور میڈیا یہ کام کس قدر آسانی اور غیر محسوس طریقے سے کرتا ہے۔ ہمیں احساس تک نہیں ہوتا اور ہم وہ سب کچھ کر رہے ہوتے ہیں جن پر ہمیں حیرت تک نہیں ہوتی
بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس