دولت اسلامیہ جب وجود میں آئی تھی تو ابتداء میں مختلف شہروں کے بینک لوٹ کر ، غیرملکی افراد کو یرغمال بنانے کے بعد بھاری تاوان وصول کرکے ، اور آثارقدیمہ کے تاریخی و نادر ورثے اور نمونے فروخت کرکے اپنے تنظیمی اخراجات پورے کرتی تھی۔لیکن ان ذرائع سے بڑے اہداف کا حصول نا ممکن تھا۔ اس لئے مستقل اور سودمند آمدنی کے لئے اس نے شام اور عراق کے تیل والے علاقوں پر حملے کرکے تیل کے کنووں پر قبضہ کرنا شروع کردیا۔
اس وقت دولت اسلامیہ شام اور عراق کے بائیس تیل کے کنووں پر باقاعدہ قابض ہے اور انہیں استعمال میں لارہی ہے۔ان میں سے زیادہ تر شام میں واقع ہیں۔ ماہرین کے اندازوں کے مطابق دولت اسلامیہ بیس بلین بیرل تیل کے محفوظ ذخائر کی مالک ہے۔یہ ذخائر امریکہ کے تیل کے سٹریٹیجک ذخائر کے تقریبا مساوی ہیں۔
داعش عالمی منڈی کی قیمت سے آدھے ریٹ پر تیل فروخت کرتی ہے۔عالمی منڈی میں تیل کی موجودہ قیمت چالیس ڈالر پر بیرل ہے جبکہ داعش وہی تیل اٹھارہ سے بیس ڈالر پر بیرل فروخت کرتی ہے۔معتبر رپوٹس کے مطابق داعش تیل کی تجارت سے پچاس ملین ڈالر ماہانہ کما رہی ہے۔جس تنظیم کی آمدنی پچاس ملین ڈالر ماہانہ ہو اس کی طاقت کااندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔اس کے لئے دنیا کے کسی بھی ملک میں کاروائی کرنا کیونکر مشکل ہوگا؟ ۔
داعش کوسہارادینے والے اور اسے طاقتور بنانے والے ممالک وہی ہیں جو اس سے تیل خریدتے ہیں۔ کوئی ایک ملک داعش سے تیل کی تجارت کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا کیونکہ عالمی برادری اسے یوں معاف نہیں کرے گی۔
دولت اسلامیہ سے تیل خریدنے والوں میں وہی ممالک سرفہرست ہیں جواس کے سب بڑے دشمن ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔
پچھلے دنوں طیارہ گرائے جانے کے بعد روسی صدر پوتن نے ترکی کانام لے کرکہا کہ دولت اسلامیہ سے ترکی تیل خریدتا ہے۔اس کے بعد تین دسمبر کو رجب طیب اردگان نے پریس کانفرنس کی اور جوابا روس پر الزام لگایا کہ داعش کاتیل خود روس خریدرہاہے۔میرے دامن پر تیل کادھبہ ثابت کردوتو میں استعفی دیدوں گا۔اس پریس کانفرنس میں اردگان نے جارج حسوانی نامی شخص کا بھی ذکرکیا جو ثالث کا کردار اداکرتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ دونوں لیڈران سچے ہیں۔
داعش سے تیل خرینے والوں میں ایک تو خود بشار کی حکومت ہے۔کیونکہ شامی تیل پر دولت سلامیہ کاقبضہ ہے اوراس کے بے پناہ اثرورسوخ اور طاقت کی وجہ سے باہر سے تیل کی خریداری ناممکن ہے اس لئے بشارحکومت داعش سے بالواسطہ تیل خریدنے پر مجبور ہے۔
جو شخص دولت اسلامیہ کے تیل کی روس اور بشار حکومت سے تجارت میں واسطے اور ثالث کاکردار اداکرتا ہے اس کا نام جارج حسوانی ہے۔جارج حسوانی کے پاس شامی اور روسی دونوں پاسپورٹ ہیں۔یہ شخص خانہ جنگی سے قبل شام میں سکونت پذیر تھا۔اس کی تیل ریفائنری کی اپنی کمپنی ہے۔خانہ جنگی کے بعد یہ روس منتقل ہوگیا اور وہاں کی شہریت بھی حاصل کرلی۔اس کی کمپنی ہسکو (HESCO)ابھی تک شام میں فعال ہے ۔شام میں ہسکو کاچارج جوزف میکیل نامی شخص کے پاس ہے۔یہ کمپنی کے مالک حسوانی کاداماد بھی ہے۔اس کے پاس بھی شامی اور روسی دونوں پاسپوٹ ہیں۔
یہی ہسکوکمپنی روس اور بشار حکومت کے لئے تیل خریدکرتی ہے۔
اسکے علاوہ شام کے علاقے توینان میں گیس کے ذخائر ہیں۔بشارحکومت اور دولت اسلامیہ کی ضرورت کی نوے فیصدبجلی یہاں سے پیداہوتی ہے۔دوہزارچودہ سے ان دخائر پربھی داعش کا قبضہ ہے۔ان ذخائر کو بھی جارج حسوانی کی کمپنی ہینڈل کرتی ہے۔بدلے میں داعش اسے ماہانہ پچاس ہزار ڈالر اور گیس کا کچھ فیصد اداکرتی ہے۔وہاں سے پیدا ہونے والی بجلی کا سب سے بڑا صارف بشار حکومت ہے۔داعش کو اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔
شام کے اندر دولت اسلامیہ سے تیل کے خریداروں میں ایک بڑی تنظیم جبہۃ النصرۃ بھی ہے۔یہ مقامی جہادی سنی تنظیم ہے۔بشارکو ہٹانا چاہتی ہے۔داعش سے بھی پرانی ہے لیکن اس سے کچھ اختلافات رکھتی ہے۔ایکدوسرے سے جھڑپیں بھی ہوجاتی ہیں۔ عرب ممالک جبہۃ النصرۃ کی مالی مددکرتے ہیں۔لیکن تیل کی ضرورت پوری کرنے کے لئے کوئی اورچارہ نہیں۔اسے بھی داعش سے ہی تیل خریدناپڑتا ہے۔تنظیم متعددبار اعتراف بھی کرچکی ہے۔
شام سے متصل ترکی حدودپر سب سے زیادہ تیل اسمگل ہوتا ہے ۔روس نے اسی تناظر میں ترکی پر الزام لگایا تھاجبکہ ترکی حکومت اس بات سے انکاری نہیں ہے اس حدودپر غیرقانونی اسمگلنگ ہوتی ہے۔ترکی تسلیم کرتا ہے کہ اس کی حدود پر غرقانونی کام ہوجاتے ہیں لیکن حکومت اس میں ملوث نہیں ہے۔
ترکی حدود پر تیل خریدنے والوں میں مختلف ملکوں کے نمائندے ڈیلر ہوتے ہیں۔وہاں سے منتقل ہونے والا تیل صرف ترک بلیک مارکیٹ میں ہی نہیں پہنچتا بلکہ یورپی ملک بھی اپنا اپنا حصہ لینے آتے ہیں۔ بغداد میں یورپی یونین کی سفیر نے پچھلے سال ایک بیان میں کہاتھا کہ یورپی ممالک دولت اسلامیہ سے تیل خریدنے میں ملوث ہیں جس پر یورپی اتحاد نے جواب دیاتھا کہ ہوسکتا ہے ایک دوملک ایسا کررہے ہوں لیکن ہم اس کا سدباب کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔یہ بیان واضح اعتراف ہے کہ دولت اسلامیہ کا تیل یورپ تک پہنچ رہا ہے۔
اور سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس تیل کے خریداروں میں اسرائیل بھی پیچھے نہیں ہے۔گلوبل ریسرچ کے چھبیس نومبر کے شمارے میں اور سپیرو نیوز کی دو دسمبر کی اشاعت میں انکشاف کیاگیا ہے کہ دولت اسلامیہ کے تیل کا سب سے بڑا خریدار اسرائیل ہے۔ رپورٹ میں ہے کہ ڈاکٹر فرید نامی ایک شخص کجس کے پاس امپورٹ ایکسپورٹ کے بزنس کا لائسنس ہے ترکی حدود سے غیرقانونی تیل خریدتا ہے اور اسرائیل اسمگل کرتا ہے۔
وہ کنویں جو دولت اسلامیہ کے قبضے میں ہیں ان پر سخت پہرہ ہوتا ہے۔دوردور تک کسی کو بھٹکنے نہیں دیا جاتا ۔اردرگرد دولت اسلامیہ کا لوگو بنا ہوتا ہے اور نیچے لکھا ہوتا ہے یہاں رکنا اور تصویر بنانا ممنوع ہے، خلاف ورزی کرنے والے کو فورا قتل کردیا جائے گا۔
لوگ ان کنووں کو موت کے کنویں کہتے ہیں۔ ان موت کنووں سے دولت اسلامیہ اپنی زندگی حاصل کرتی ہے اور اسے زندگی بیچنے والے وہی ہیں جنہیں دنیا کے امن و امان کی فکرلاحق ہے اور داعش انکے نزدیک انسانیت کے نام پر قبیح دھبہ ہے۔
شفیق منصور