علاقائی سنّی طاقتیں ہی داعش کو شکست دے سکتی ہیں

کیا مغرب کو شام کی خانہ جنگی میں ملوث ہونا چاہئے؟ یا پہلے سے زیادہ ملوث ہو جانا چاہئے جس کی اب منصوبہ بندی کی جا رہی ہے؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ داعش، مغرب کی سلامتی کے لئے ایک خطرہ ہے۔ پیرس اور برسلز کے حالیہ واقعات کے بعد اس میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا۔ مگر ہم بہت پہلے سے جانتے ہیں کہ مغرب ،داعش کا مسئلہ خود حل نہیں کر سکتا۔ جتنا زیادہ وہ مداخلت کرتا ہے اتنازیادہ ہی داعش کے موقف کو تقویت ملتی ہے کہ مغربی ممالک نئی صلیبی جنگ مسلم ممالک کی حدود میں ان ہی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ اگر مغرب نیک نیتی سے چاہتا تو داعش کو کچل سکتا تھا مگر اس کے رد عمل میں ایک اور داعش پیدا ہوجاتی، اور اس کا تصور ہمارے تخیل کی حدود سے باہر لگتا ہے، مگر گمان یہی ہے کہ وہ پہلے والی سے زیادہ خوفناک ہوتی۔
مقامی آبادی
عراق اور شام کی جنگ ختم ہوتی نظر نہیں آتی اور کانفرنس ہال میں اس موضوع پر طویل بحث کرنے والی ‘بڑی طاقتیں’ اس مسئلے کو شاید کبھی حل نہیں کر سکیں گی۔ داعش کے جنگجوؤں کی تعداد ہزاروں سے تجاوز کر چکی ہے جو تقریباً ایک کروڑ آبادی والے علاقے پر کنٹرول کر چکے ہیں۔ جس طرح سنّی داعش شیعہ اور کرد علاقوں پر قبضہ نہیں کر سکتی، اسی طرح اس کے زیر قبضہ سنّی علاقےنہ تو بغداد اور دمشق کی شیعہ حکومتوں کو قبول کر سکتے ہیں اور نہ ہی بشار الاسد اور نوری المالکی جیسے ظالم حکمرانوں کی رعیت میں رہنا قبول کر سکتے ہیں جنہوں نے سنّی آبادیوں پر کلسٹر بم گرا کر لاکھوں انسانوں کو ہلاک کیا تھا۔ بشار کے لئے ان کی نفرت اس کے جرائم کی وجہ سے بہت ذیادہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ داعش کے مقبوضہ علاقوں کے لوگ اگرچہ اس کے مذہبی نظریات اور مظالم کا حصہ نہیں بھی ہوں مگر پھر بھی دونوں شیعہ حکومتوں کے بجائے داعش کے تحت خود کوزیادہ محفوظ سمجھتے ہیں۔ وہ کسی ایسی حکومت کے تحت بھی نہیں رہنا چاہتے جو مغربی حمایت کی وجہ سے اقتدار میں ہو کیونکہ مغربی حکومتیں مسلمانوں پر بے دریغ بمباری اور آمروں کی سرپرستی کی وجہ سے نفرت کی انتہا پر پہنچ چکی ہیں۔
علاقائی سنّی طاقتیں
یقیناً داعش کا مسئلہ صرف علاقائی سنّی طاقتیں ہی حل کر سکتی ہیں، یعنی سعودی عرب، ترکی، اردن، متحدہ عرب امارات اور دیگر۔ کم از کم اصولی طور پر ان طاقتوں کو اس معاملے میں مداخلت سے روکا نہیں جا سکتا۔ ان ممالک کے پاس افرادی قوت اور ٹکنالوجی کثرت سے موجود ہے اگرچہ داعش کے خلاف ان دونوں کے مؤثر استعمال کی ان ممالک کی صلاحیت پربجا طور پر شک کیا جاسکتا ہے۔
بد قسمتی سے ان ممالک کے مفادات بھی آپس میں ٹکراتے ہیں۔ سنّی ریاستوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ داعش کو شکست دینے کے بعد بشار الاسد اور مالکی حکومتیں اور زیادہ مستحکم ہو جائیں گی جو ان کے ازلی دشمن ایران کی پروردہ اور اتحادی ہیں۔ ترکی بھی ایسی ہی جمع تفریق میں مصروف ہے۔ اسے داعش سے کوئی لگأو نہیں ہے اور وہ اس سال ترکی کے اندر داعش کے حملوں پر خاصے غصے میں بھی ہے مگر وہ بشار الاسد حکومت سے بھی اتنی ہی نفرت کرتا ہے اور کردوں سے تو وہ داعش سے بھی زیادہ خوفزدہ ہے۔ ترکی، داعش کا خاتمہ کر کے بشار الاسد اور کردوں کو ناقابل شکست بنانا نہیں چاہتا۔
سعودی عرب اگرچہ یمن کی خانہ جنگی میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف الجھ گیا ہے مگر کم از کم اسے معلوم ہے کہ اس جنگ میں اس کا کیا مفاد ہے۔ یمن میں اپنے جنگی وسائل مصروف کر دینے کی وجہ سے اس نے ستمبر کے بعد سے داعش کے خلاف کوئی فضائی حملہ نہیں کیا ہے۔
ترکی، امریکا کے بے پناہ دباؤ اور داعش کے اپنی سرزمین پر حملوں کے بعد بالاخر مداخلت پر تیار تو ہو گیا ہے مگر اس کی توجہ اس کے اولین دشمن کردوں پر مرکوز ہے۔ اصولی طور پر تو تمام فریق داعش سے ہی لڑ رہے ہیں۔ مگر عملی طور پر تمام فریق بشمول بشار، ترکی، سعودیہ، روسی، ایرانی وغیرہ داعش کی آڑ میں دوسرے گروپوں کو داعش کا ساتھی ظاہر کر کے نشانہ بنا رہے ہیں۔ صرف کرد اور شیعہ ملیشیا ہی داعش سے لڑ رہے ہیں اور اس میں انہیں مغربی ممالک اور امریکہ کی مدد حاصل ہے۔
جب تک یہی صورتحال باقی ہے، اس جنگ میں صلیبی اور شیعہ گروپ مل کر سنّی مسلمانوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ جب تک امریکہ اور یورپ اس جنگ کے باعث پیدا ہونے والے پناہ گزینوں کے مسئلے کو حل نہیں کر پاتے اور بیشتر خلیجی ریاستیں پناہ گزینوں کی مدد ہی ںہیں کرتیں، داعش کے صلیبی جنگ اور مسلمانوں پر حملے کے بیانیے کو مسلمان عوام سے اعتماد کی سند ملتی رہے گی جو کئی دہائیوں سے ہوتا چلا آرہا ہے اور جب تک ایسا ہوتا رہے گا داعش کو کچلا تو جاسکے گا مگر شکست کبھی نہیں دی جا سکے گی

بشکریہ:العربیہ اردو ڈاٹ نیٹ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے