عورت دکھ سہتی ہے،دکھ جھیلتی ہے، اس کا وجود دکھ کیلئے تخلیق ہوا ہے، دکھ اسے اپنا سانجھی سمجھتا ہے. عورت کا دکھ سے جنم جنم کا ساتھ ہے. جب کوئی دکھ نہیں ہوتا تب وہ دکھ کے نہ ہونے پر دکھی ہوتی ہے. اور وہ اس بات پر دکھی ہوتی ہے کہ بابا گھر آئے تو بابا نے بالوں میں ہاتھ کیوں نہیں پھیرا؟ وہ پڑوسن کے سلیقے سے گندھے ہوئے بال دیکھ کر دکھی ہوجاتی ہے..
لیکن مرد دکھ کے سامنے تنتا ہے. دکھ قطرہ قطرہ ہو یا چھما چھم ہو. وہ نہیں بھیگتا. وہ جذب کرتا ہے. وہ اکٹھ کرتا ہے. اور جب بند ٹوٹتے ہیں. تب وہ اداسی کی دیواریں کھڑی کرتا ہے. اداسی کی پوشاک پہنتا ہے. مرد دکھی نہیں اداس ہوتا ہے.
دکھ ذرہ ہے. اداسی کہکشاں ہے.
دکھ قطرہ نیساں ہے. اداسی جل تھل برسات ہے.
دکھ شبنم کی پھوار ہے اداسی ساون بھادوں کی بوچھاڑ ہے.
دکھ شرارہ ہے. اداسی آتش فشاں ہے.
دکھ دکھ ہے اداسی اداسی ہے
مرد دکھی نہیں ہوتا. مرد اداس ہوتا ہے.
اور تم کیا جانو اداسی کیا ہوتی ہے؟
اداسی کی کاٹ کیا ہوتی ہے؟
تم جان بھی نہیں سکتی. اداسی کیسے الاؤ بھڑکاتی ہے. تم یہ سوچ بھی نہیں سکتی کہ دکھ کا پہلا اظہار آنسو ہے لیکن اداسی کا پہلا اظہار ایک مجروح "دردیلی” مسکراہٹ ہے.
میں نے وہ چھلنی کلیجے دیکھے ہیں. جو اداسی کی معراج پاچکے ہیں.
اور جانتی ہو اداسی کی معراج کیا ہے؟
اداسی جب اپنے جوبن پر ہوتی ہے. تب مرد ہر ٹند منڈ درخت پر پتے اگاتا ہے. اداسی جب سوا ہوتی ہے. تو مرد کے لئے ہر سیاہ زلف عورت بیٹی ہوتی ہے.
اداسی کی معراج دوسروں کی راحت ہوتی ہے. اداس،،، دکھی کے لئے راحت کی نوید ہوتی ہے. وہ جس الاؤ سے ہو آیا ہے وہ نہیں چاہتا کوئی اور اس کا ایندھن بنے.
وہ جانتا ہے رگوں میں لہو کا بہنا نعمت ہے. کیوں کہ اداسی میں وہ رگوں میں تیزاب کا بہنا دیکھ چکا ہے. وہ نہیں چاہتا کہ کسی اور کے بدن میں تیزاب دوڑے. اداس خوشی بانٹتا ہے. محبت بکھیرتا ہے.
دکھی اپنا دفاع کرتا ہے اور اداس دنیا کا.