وطن عزیز کی بد قسمتی رہی ہے کہ ہمیشہ حقیقی مسائل سے چشم پوشی کی گئی۔ جس کی وجہ سے نصف سے زائد آبادی آج کے جدید دور میں بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہے ۔فوجی حکومتیں ہوں یا جمہوری ‘عوامی مسائل میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہوا۔
12اکتوبر1999ء کو فوجی انقلاب کے نتیجے میں قائم ہونیوالی حکومت نے کئی ایسے اقدامات کئے ۔جن کے اثرات سے آج تک ملک نہیں نکل سکا ۔بلا شبہہ دہشت گردی ‘بد امنی ‘مہنگائی اور بیروزگاری جیسے مسائل کی جڑیں بھی اسی دور حکومت میں مضبوط ہوئیں۔اس کے ساتھ ہی ایک اور ایسا اقدام کیا گیا جس نے با صلاحیت اور ذہین نوجوانوں کو نہ صرف ملک و قوم کیلئے خدمات انجام دینے سے محروم کر دیا بلکہ اُن کا مستقبل تاریک کر دیا ۔سفارشی کلچر کے ماحول میں جہاں کلرک کی نوکری حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔وہاں با صلاحیت نوجوانوں کیلئے صرف مقابلے کے امتحانات ہی امید کی واحد کرن رہ جاتے ہیں۔
فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعے سی ایس ایس کر کے نوجوان میرٹ پر اعلیٰ ملازمت حاصل کر سکتے ہیں۔ امیدواروں کو اس امتحان میں اعصاب شکن مقابلے ‘شبانہ روز محنت و تیاری کرنا پڑتی ہے۔ لیکن2001ء میں اچانک سی ایس ایس کیلئے عمر کی حد میں کمی کر کے 28سال مقرر کر دی گئی اور اس طرح گزشتہ13برس کے دوران ہزاروں کی تعداد میں نوجوان سی ایس ایس پاس کرنیکی صلاحیت کے باوجود امتحانات میں شرکت سے محروم کر دئیے گئے ۔جبکہ ایشیائی ممالک بھارت ‘بنگلہ د یش اور سری لنکا جہاں کا تعلیمی نظام ہم سے کئی گنا بہتر ہے وہاں آج بھی مقابلے کے امتحانات میں شرکت کیلئے عمر کی حد35سال مقرر ہے ۔
اب تک ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے سینکڑوں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں منظورکیں مگر یہ کوالیفائیڈ لوگ سی ایس ایس کے امتحان کے اہل نہیں رہ پائے یہی عمر کی حد ان ڈاکٹرز ‘وکلاء او ر دوسرے با صلاحیت افراد کی راہ میں رکاؤٹ بن گئی ہے بہت سے ایسے امیدوار بھی ہیں جنہوں نے یہ امتحان پاس کیا مگر سیٹوں کی کمی کی وجہ سے انہیں ملازمت نہ مل پائی . چند سال قبل پی ایم ایس کے امتحان میں عمر کی حد بڑھا دی گئی معزز عدالت کا کہنا تھا کہ پی ایم ایس کے امتحان میں تجربے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے2011ء میں وفاقی محکموں میں ملازمتوں کیلئے عمر کی حد میں پانچ سال کی چھوٹ دی ۔لیکن سی ایس ایس کو نظر انداز کر دیا اسی طرح آئی ایم ایف اور سینئر بیورو کریٹس نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو پاکستان میں سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کیلئے عمر کی حد 60سال سے بڑھا کر62سال کرنیکی تجویز دی اور باقاعدہ ورکنگ پیپر بھی تیار کیا گیا ہے۔ جس میں کئی ترقی یافتہ ممالک سے پاکستان کا موازنہ کیا گیا ہے۔ جہاں ریٹائرمنٹ کی عمر پاکستان کی نسبت کہیں زیادہ ہے ۔اس تجویز سے سی ایس ایس میں عمر کے اضافے کے مطالبے کو تقویت ملتی ہے۔
انسانی حقوق کی پامالی پر چند با ہمت نوجوانوں نے لاہور اور پشاور ہائیکورٹس سے رجوع کیا لیکن طویل عدالتی طریقہ کار اور وکلاء کی بھاری بھرکم فیسوں کے باعث وہ ابھی تک انصاف کے منتظر ہیں۔ اکتوبر2013ء میں قومی اسمبلی میں جمعیت علماء اسلام کے رکن قومی اسمبلی مولانا امیر زمان نے اس حوالے سے قرار داد پیش کی جو بھاری اکثریت سے منظور تو ہو گئی لیکن ایک سال گزرنے کے باوجود اس قرار داد پر عملدرآمد نہیں کیا جا سکا ۔
مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف برسراقتدار آنے سے قبل دور آمریت کے کالے قوانین ختم کرنے کے اعلانات کرتے رہے لیکن جب سے وہ بھاری مینڈیٹ لیکر وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے تب سے انہیں صرف اپنی کرسی بچانے کی فکر ہے اورمختلف طبقات کی جانب سے مسلسل مطالبات سامنے آنے کے باوجود یہ انتہائی اہم مسئلہ اُن کی نظروں سے اوجھل ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان ہر پلیٹ فارم پر میرٹ اور نوجوانوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں اور انہیں اپنی طاقت قرار دیتے ہیں اُنہوں نے بھی اس مسئلے پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے
۔انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں جو آئے روز معمولی ایشوز پرسڑکوں پر نکل کر طوفان برپا کر دیتی ہیں شاید یہ مسئلہ اُن کی نظروں سے بھی اوجھل ہے۔اب آتے ہیں پاکستان کے تعلیمی نظام کی طرف ‘آج ہمارے سرکاری سکولوں میں تعلیم کا معیار اس حد تک پست ہو چکا ہے کہ ہمارے عام طالبعلم کیلئے کسی بین الاقوامی تعلیمی نظام کے تحت منعقد ہونیوالے امتحان میں شرکت کرنا ممکن ہی نہیں رہا ہے ۔ ہر صوبے میں علیحدہ نصاب پڑھایا جا رہا ہے ہر علاقے میں الگ طرح کے امتحانات منعقد کئے جا رہے ہیں۔ اساتذہ طالبعلموں کو تعلیم فراہم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے ہیں۔ محکمہ تعلیم کے اہلکار اپنے فرائض انجام دینے سے گریزاں ہیں۔
سرکاری سکولوں کی اس ناکامی نے ایک اور المیہ کو جنم دیا ہے لوگوں نے اپنے بچوں کو نجی سکولوں میں بھیجنا شروع کر دیا ہے اور سرکاری نظام تعلیم پرعدم اعتماد کا یہ عالم ہو گیا ہے کہ پاکستان کے لگ بھگ پچاس فیصد طالبعلم اب نجی سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ نجی سکول بھی دوقسم کے ہیں ایک تو وہ معروف اور مہنگے اسکول ہیں جن کا الحاق غیر ملکی تعلیمی بورڈز سے ہے اور جہاں طالبعلموں کو گیارہ برس کی تعلیم کے بعد او لیول کے امتحانات دینے ہوتے ہیں اور دوسرے وہ چھوٹے نجی سکول جو خود کو انگریزی میڈیم سکول قرار دیتے ہیں مگر ان کے طلباء مقامی بورڈز میں ہی رجسٹر ہوتے ہیں ۔
نجی سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے والدین مہنگی فیسیں ادا کرتے ہیں اور دیگر اخراجات کا بوجھ برداشت کرتے ہیں کیونکہ وہ سرکاری نظام تعلیم کے تحت چلنے والے سکولوں سے مایوس ہو چکے ہوتے ہیں اور انہیں یقین ہوتا ہے کہ نجی شعبہ کے کسی اسکول کے ذریعے ہی ان کے بچے بہتر تعلیم حاصل کر سکیں گے یوں ملک میں وہی دہرا نظام تعلیم نافذ ہے جس میں ایک جانب افسر تخلیق کئے جاتے ہیں اور دوسری جانب کلرکوں کے ڈھیر لگائے جاتے ہیں۔
اختیارات اور وسائل رکھنے والے لوگ اپنے بچوں کو مہنگے نجی سکولوں میں پڑھاتے ہیں تا کہ وہ مستقبل میں ’’حاکم ‘‘بن سکیں اور عام غریب لوگ اپنے بچوں کو سرکاری تعلیمی اداروں کے حوالے کر دیتے ہیں تا کہ ملک کے آقاؤں کو ’’ملازمین‘‘کی کبھی قلت نہ محسوس ہو۔ اب سے 38 برس پہلے متعدد ترقی یافتہ ممالک نے اپنے تمام سکولوں کیلئے ایک ایسا نظام تعلیم ترتیب دیا تھا کہ اگر کوئی طالبعلم دارالحکومت کے ایک شہری سکول کو تعلیمی سال کے درمیان چھوڑ کر دور دراز کے کسی دیہی سکول میں داخلہ لے تو دیہی سکول میں بھی ان دنوں میں وہی نصاب پڑھایا جا رہا ہو۔ جو دارالحکومت میں پڑھایا جا رہا تھا ۔یہ انتظام کاری کا ایک سادہ سا طریقہ تھا۔ جسے اپنا کر ان ممالک نے اپنی نئی نسل کو کامیابی کی شاہراہ پر گامزن کر دیا تھا۔ملک میں پہلے ہی شرح خواندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔
بلوچستان اور سندھ میں تو تعلیمی زبوں حالی حدوں کو چھو رہی ہے۔ نا مساعد معاشی حالات سے نبرد آزما نوجوان بمشکل26سے27سال کی عمر میں بی اے یا ایم پاس پاس کرتے ہیں اور یہاں کا تعلیمی معیار بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور پھر سی ایس ایس میں ان کا مقابلہ پنجاب اورکے پی کے کے معیاری اداروں سے فارغ التحصیل امیدواروں سے ہوتا ہے اور اس دوران انہیں تیاری کیلئے دو سے تین سال کا عرصہ بھی چاہئے۔ ان عوامل کی بنیاد پر اکثر امیدوار امتحانات میں حصہ نہیں لے سکتے۔ہمارے لئے ضروری ہوتا جا رہا ہے کہ اپنے تعلیمی شعبہ میں انقلابی اور موثر تبدیلیاں لائیں ہمیں نظام تعلیم کی خود کار مشین سے ’’آقا‘‘ اور ’’غلام‘‘ پیدا کرنے کے بجائے عہد جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ اور تعلیم کے ہتھیار سے لیس نوجوان طلباء و طالبات پیدا کرنا چاہئیں۔
اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنے نصاب کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ بنائیں۔شعبہ تعلیم پر بین الاقوامی پیمانے کے وسائل خرچ کریں اور کراچی سے خیبر تک ایسی درسگاہوں کا جال بچھانے کی عملی تیاری کریں جہاں بہتر تعلیم کے مواقع مفت دستیاب ہوں۔ جدید صدی کے چیلنج سے عہدہ برآ ہونے کیلئے ہمیں ہر قیمت پر اس امتحان سے سرخرو ہو کر گزرنا ہوگا۔اس کے علاوہ موجودہ وفاقی حکومت کو فوری طور پر عسکری دور کے اس کالے قانون کو ختم کر کے سی ایس ایس کیلئے 2001ء کی سطح پر شرائط بحال کرنا ہوں گی یا پھر ہمسایہ ممالک سے ملتی جلتی شرائط لاگو کرنا ہوں گی کیونکہ اس سے نہ ایک عام با صلاحیت شہری سول سروس میں شمولیت اختیارکرکے ملکی تعمیر و ترقی میں مفید کردار ادا کر سکتا ہے ۔
وقت ایسے انصاف پر مبنی فیصلوں کا متقاضی ہے جو مایوس نوجوانوں کو اندھیرے سے نکال کر امید کی راہوں پر گامزن کر دے ۔