جناب ایاز امیر کا شکریہ کہ انہوں نے دیسی لبرلز کا بھانڈہ پھوڑ دیا۔ جب سے وزیر اعظم نواز شریف نے لبرل پاکستان کی بات کی ہے ہمارے دیسی لبرلز کی ایک فوج میدان میں اتر آئی تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ لبرل ازم اور سیکولرازم ہی پاکستان کا مستقبل ہے۔ وہ یہ بحث کرتے رہے کہ لبرل ازم اور سیکولرازم کو اسلام مخالف سمجھنے والے در اصل کم علم اور کم عقل ہیں۔ کچھ تو انگریزی کی ڈکشنر یاں کھول کھول کر لبرل ازم کی تعریفیں ڈھونڈتے رہے تا کہ یہ ثابت کر سکیں کہ اس سے اسلام کو ڈرنے کی ضرورت ہے نہ مسلمانوں کو۔ گویا ایک تحریک چل پڑی جس کا مقصد لبرل ازم اور سیکولرازم کو پاکستان کے لیے ایک بہترین حل کے طور پر پیش کیا جانا ہے۔
اگر کسی نے یہ کہا کہ لبرل ازم اور سیکولر ازم ہمارے دینی اور معاشرتی اقدار کو تباہ کرنے کا کلیہ ہے او ر یہ کہ ان نظریات کی اسلامی تعلیمات اور نظریہ پاکستان میں کوئی گنجائش نہیں بلکہ اسلام کی ضد ہیں تو جواب ملا کہ ایسی باتیں کرنے والے دراصل اقلیتوں، عورتوں کے حقوق کے خلاف ہیں۔ گویا لبرل ازم اور سیکولر ازم کو اقلیتوں اور عورتوںکے حقوق کی ضمانت کے طور پر پیش کیا گیا۔ اگر کسی نے کہا کہ اسلام تو ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسان کی ذاتی زندگی سے لے کر معاشرہ کی اجتماعی زندگی کے ساتھ ساتھ سیاست، معیشت، معاشرت اور دوسرے ریاستی امور کے متعلق نہ صرف ہماری رہنمائی کرتا ہے بلکہ اس کے لیے اصول بھی وضع کرتا ہے تو اس پر لبرل ازم کے چیمپئن کہنے لگے کہ دنیا بدل گئی اس لیے ہمیں بھی اسلام کو جدید دنیا کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے بدل دینا چاہیے جس کے لیے اجتہاد کے دروازے کھولنے کی تجویز بھی پیش کی گئی۔ گزشتہ ہفتوں کے دوران اور وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے پاکستان کو ایک لبرل جمہوریت بنانے کی بات کے بعد پاکستان کا اسلامی آئین بھی ہمارے دیسی لبرلز اور سیکولرز کے نشانے پر رہا جس کے لیے قائد اعظم کی 11 اگست کی تقریر کا سہارا لے لے کر نظریہ پاکستان کو رد کرنے کی کوشش کی جاتی رہی۔
پاکستان کی نظریاتی اساس کے ساتھ اس کھلواڑ پرڈاکٹر صفدر محمود نے (اتوار 13 دسمبر) جنگ اخبار میں اپنے کالم میں ان لبرلز کو مشورہ دیا کہ قائد کا حوالہ دینے سے پہلے کم از کم قائد کی تقاریر ہی پڑھ لیں۔اپنے کالم میں ڈاکٹر صاحب نے قائد اعظم کی ایک تقریر کا حوالہ دیا جو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔ قائد اعظم نے کہا: ’’پاکستان ہندوئوں کے مناسب یا غیر مناسب رویے کی پیداوار نہیں۔ یہ ہمیشہ موجود رہا۔ صرف انہیں اس کا شعور نہیں تھا۔ ہندو اور مسلمان اکٹھے رہنے کے باوجود کبھی ایک قوم نہیں بنے، ان کا تشخص ہمیشہ جدا جدا رہا ہے۔ پاکستان اسی روز بن گیا تھا جب مسلمانوںکی آمد سے بہت عرصہ قبل پہلا غیر مسلمان اسلام کے دائرے میں شامل ہوا۔ جونہی ایک ہندو مسلمان ہوتا ہے وہ مذہبی، سماجی، ثقافتی اور معاشی طور پر اپنے ماضی سے کٹ جاتا ہے۔ مسلمان اپنی انفرادیت اور تشخص کسی بھی معاشرے میں ضم نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ صدیوں تک اکھٹے رہنے کے باوجود ہندو ہندو اور مسلمان مسلمان رہے ہیں اور یہی پاکستان کی بنیاد ہے۔ـ‘‘
اسلامی نظریہ پاکستان ایک اٹل حقیقت ہے لیکن آپ جو مرضی آئے کر لیں، قائد اعظم کی درجنوں تقریریں نکال لیں، ہمارے لبرلز اور سیکولرز یہی کہیں گے کہ قائد نے تو لبرل اور سیکولر پاکستان کا خواب دیکھا تھا۔ لیکن شکریہ ایاز امیر کا جن سے میرا نظریاتی اختلاف اپنی جگہ لیکن اپنے حالیہ کالم ’’لبرل ازم کی صبح کب طلوع ہو گی؟‘‘ میں انہوں نے لبرل ازم کی تعریف کرتے ہوئے بغیر کچھ چھپائے صاف صاف بتا دیاکہ لبرل پاکستان کو کیسا ہونا چاہیے۔کالم پڑھیں تو بغیر کسی لگی لپٹی ایاز امیر نے کھلے عام شراب کی فروخت، ڈانس کلبوںاور فحاشی کے لیے بدنام محلوں اور بازاروں کو لبرل ازم کے ساتھ جوڑا۔ وہ اپنے کالم میں سوال اٹھاتے ہیں ’’اب سوال ہے کہ ہمارے ہاں کبھی نائٹ کلب (جنہیں میں لبرل ازم کے استعارے کے طور پر استعمال کر رہا ہوں) کی صبح طلوع ہو گی؟‘‘ لبرل ازم کے صبح کے طلوع کے لیے پاکستان کا یہ سرفہرست لبرل اور سیکولر دانشور ایم کیو ایم سے امید لگاتے ہوئے کراچی کو کھول کر اس شہر کو پاکستان کا ’’لاس ویگاس‘‘ یا ’’دبئی‘‘ بنانے کی بات کرتا ہے تاکہ دنیا پاکستان کی طرف رخ کرے۔
عقائد کو گھٹن لکھنے والے اس لبرل اور سیکولر دانش ور نے ماضی کے حوالے سے لکھا کہ ایک وقت تھا کہ پاکستان میں بھی سماجی آزادیاں گھٹن کا شکار نہیں ہوا کرتی تھیں۔ ایاز امیر لکھتے ہیں: ’’آپ جو چاہیں نوش جاں کر سکتے تھے، حالات اجازت دیں تو نائٹ کلب کا رخ کریں، یا لاہور کے بازار حسن، کراچی کے نیپئر روڈ یا راولپنڈی کے راجہ بازار کی قصائی گلی میں رقص و موسیقی سے لطف اندوز ہوں۔ اب ان تمام مقامات سے زندگی فرار ہو چکی ہے‘‘۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور کا ذکر کرتے ہوئے، ایاز امیر لکھتے ہیں: ’’جب ذوالفقار علی بھٹو نے آئین تحریر کرنے کا عزم کیا تو انہیں مذہبی حوالے دینے پڑے۔ 1974 میں حالات کے جبر نے انہیں مجبور کر دیا کہ وہ آئین میں ترمیم کرتے ہوئے ایک مخصوص فرقے کو اسلام کے دائرے سے نکال دیں۔ عجب ستم ظریفی تھی کہ بھٹو بذات خود ایک لبرل اور آزاد سوچ رکھنے والے انسان تھے لیکن انہوں نے اپنے خون کے پیاسوں کو رام کرنے کے لیے شراب پر پابندی لگا دی۔‘‘ جنرل ایوب کے دور کو لبرل ازم کے لحاظ سے بہتر جانتے ہوئے ایاز امیر لکھتے ہیں’’آمریت نے سیاست کے کوچہ و در تو مسدود کر دئیے لیکن فیض صاحب اور حبیب جالب جو چاہتے پر جوش سامعین کے دلوں میں اتار سکتے تھے، کوئی اخلاقی سلاسل نہ تھی اور نہ ہی سماج پر منافقت کی تقدیس کے پہرے تھے۔
استاد امانت علی خان صاحب ہارمونیم پر ہیرا منڈی میں موجود اپنے مکان پر سرتال کی لے سے ستاروں کو وجد میں لا
سکتے تھے اور ہمارے جالب پاک ٹی ہائوس کے سامنے مال روڈ کے فٹ پاتھ پر بوتل سامنے رکھ کر بیٹھ جاتے اور کوئی آسمان نہ ٹوٹتا۔‘‘ اگرچہ کچھ لبرلز اور سیکولرز کو ایاز امیر کے اس لکھے پر غصہ آیا لیکن جو نقشہ اپنے کالم میں انہوں نے لبرل پاکستان کا کھینچا وہی لبرل ازم اور سیکولرازم کی اصل منزل ہے اور اسی منزل کو کسی بھی سیکولر اور لبرل معاشرے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اسلام اور آئینِ پاکستان سے یہ لوگ اس لیے خائف ہیں کیوں کہ بوتل، نائٹ کلب، ناچ گانے اور عیاشیوں کے لیے مخصوص بازاروں کا اِن کے ہوتے ہوئے کوئی تصور نہیں۔
بشکریہ روزنامہ”جنگ”