کچھ سانحات زندگی میں ایسے رونما ہوتے ہیں جنہیں انسان بھلانے کی جتنی کوشش کرتا ہے وہ اس سے زیادہ بھیانک انداز میں سامنے آکر ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں حیوانیت اور بربریت سے پوری دنیا کی تاریخ بھری پڑی ہے انسانوں کی لاشوں سے مینار بناکر کھڑے کئے گئے اور اپنی دھاک بٹھا ئی گئی لاکھوںلوگوں کے خون سے ہاتھ رنگے گئے یہ سب دور جاہلیت میں ہوتا تھا مگر جب انسانیت کو معراج ملی تو ایسے واقعات شاذونادر ہی پیش آتے جس سے انسانیت کی روح بھی کانپ جاتی دنیا بھر میں سپر پاور بننے کے لئے ایک جنگ چلی آتی رہی ہے
ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے حدیں پار کی جاتی ہیں خون کی ندیاں بہائی جاتی ہیں تاریخ ایسے واقعات سے بھی پڑی ہے جنگ وجدل مسئلے کا حل نہیں باہمی افہام وتفہیم سے ہی حالات کو قابو میں کیا جاتا ہے مگر کچھ عناصر طاقت کو ہی سب کچھ قرار دے کر ایسی حرکتیں کر ڈالتے ہیں جنہیں انسان کہنا بھی انسان کی توہین ہوتا ہے آج بھی جب وہ دن سامنے آتا ہے جب سولہ دسمبر 2104کو اطلاع ملی کہ دہشت گردوں نے آرمی پبلک سکول پر حملہ کر دیا ہے ،
تو یہ ایک معمولی سا واقعہ لگا مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا رونگھٹے کھڑے ہوتے گئے ظالموں نے نہتے بچوں کو جس درندگی سے نشانہ بنا یا اس پر روح تڑپنے لگی سوچ کر ہی انکھوں سے انسو رواں ہوتے گئے ہسپتالوں میں ایک قیامت کا منظر تھا کوئی بیٹے کو ڈھونڈ رہا تھا تو کوئی اپنے بھائی کی لاش کو تلاشنے میں لگا تھا، ماں کی ممتا اور باپ کی باپتا کا اس دن امتحان مقصود تھا جب ان کے جگر گوشوں کی لاشیں انہیں مل رہی تھیں ایک منظر قیامت تھا ایک درد کی لہر تھی جو ہر سو اٹھ رہی تھی مجھے آج وہ دن یاد آتا ہے تو رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اس واقعے کوایک سال پورا ہو گیا ہے ان والدین نے جنہوں نے اپنے جگر گوشے اس زمین پر نچھاور کئے ہیں انہوں نے کانٹوں پر یہ دن گزاررے ہیں،
ایک سال کے عرصے میں ان کا غم کم نہیں ہوا ماﺅں کے دلوں کو قرار نہیں،باپ اپنے آپ کو بچوں کو ڈانٹنے پر خود کو قصور وار ٹھہرارہے ہیں بہنیں بھائیوں کو نہ ستانے کے وعدے کر رہی ہیں مگر اب کچھ نہیں ہوسکتا، گزشتہ ایک سال میں ان گھروں میں ماتم جاری ہے جن کی چہچہار سے فضا معطر ہوتی تھی کچھ خاندانوں نے اپنے گھروں کی تعمیرات روک دی ہیں کچھ ماﺅں کا روٹین بن گیا ہے کہ اسی دن سے اپنے بچوں کے کمروں میں جاکر ان کے سامان کو دیکھ کر روتی ہیں اسی طرح بہنوں اور بھائیوں کی بھی عادت بن گئی ہے کہ وہ ان معصوموں کی یادوں کے سہارے جی رہے ہیں انہیں ہر اہٹ پر ان کے آنے کا گمان ہوتا ہے ان بچوں نے ان کے خاندانوںنے کیا کیا نہیں سوچا تھا مستقبل کی منصوبہ بندیاں دھری کی دھری رہ گئیں ہوگیا اور وہ بچے جوجنت کے پھول ہوتے ہیں،
وہ منوں مٹی تلے جابسے انسانیت کا مستقبل بچوں سے وابسطہ ہوتا ہے،انسانوں کاوہ طبقہ جو فطرت سے قریب تر ہے وہ بچے ہی ہیںاور بچے ہی ہیں جنہیں دیکھنا بڑوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک کاباعث بنتاہے۔بچے،قبیلہ بنی نوع انسان کا وہ پہلو ہیں جو بہت نازک اور بہت کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ بہت مضبوط اور بہت طاقتوربھی ہے۔بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی گھرمیں خوشیوں کاایک سماں سا بندھ جاتاہے،
جہاں پہلے کوئی بچہ نہ ہواس گھرمیں بچے کی آمد گویازندگی کی آمدکاپیش خیمہ ثابت ہوتی ہے اور جہاں پہلے بھی بچے موجود ہوں وہاں کے غنچہ بہارمیں ایک اورتروتازہ پھول کااضافہ ہوجاتاہے۔میاں اور بیوی جن کی زندگی جب ایک خاص مدت کے بعد یکسانیت کاشکارہونے لگتی ہے تو خالق کائنات اپنی بے پناہ محبت و بے کنار رحمت کے باعث ان کے درمیان ایک اور ذی روح کااضافہ کردیتاہے جو ان کی حیات نواور ان کی باہمی محبتوں اورچاہتوں کی تاسیس جدیدکاباعث بن جاتاہے۔
کاروان حیات آگے بڑھتاہے توایک نسل کے بالیدگی کے بعدجب اس سے اگلی نسل کی آمد کاسلسلہ شروع ہوتاہے تو دادا دادی اور نانانانی اپنے ہی لگائے ہوئے پودوں میں پھل پھول لگتے دیکھ کر پھولے نہیں سماتے ہیں اور اب جب کہ عملی زندگی کی تندوتیزلہروں نے انہیں کنارے کی طرف دھکیلناشروع کردیاہے تو اس آنے والی نسل نوکی مرکزیت انہیں زندگی کاسہارااورنوبہاردلچسپیاںمستعاردینے لگتی ہے اور اوران کے پسماندہ و جہاں رسیدہ چہرے اپنی پوتوں اور نواسوں کو گودوں میں اٹھاکرچمکنے اور دمکنے لگتے ہیںاور انہیں عمررفتہ کی شادمانیاں ایک بار پھر یاددلانے لگتے ہیںمگر جب بچوں کو جب نشانہ بنایا جاتا ہے
جب بربریت کی انتہا کی جاتی ہے جب انسان کے روپ میں بھیڑیئے پیدا ہوجاتے ہیں جو معصوم بچوں کو ڈھال بنا لیتے ہیں اور پھر اپنی بربریت کی انتہا کردیتے ہیں تو انسانیت کانپ جاتی ہے دل کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں جو وحشیانہ حرکت پشاور کے آرمی پبلک سکول میں عسکریت پسندوں نے کی تھی اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی میں نے اپنے صحافتی کیئریئر میں ایسی بربریت نہیں دیکھی کہ بچوںکو اندھادھند فائرنگ کرکے موت کے گھاٹ اتارا جائے مجھے جب بھی وہ دن سامنے آتا ہے تو خود کو ان بچوں کے گرد محسوس کر تا ہوں جن کو اندھادھند فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا میں بھی ان بچوں میں ایک نویں کلاس کا طالب علم تھا میں صبح گھر سے بغیر ناشتہ کئے نکلا تھا کیوںکہ پاپا کو دفتر جانے کی جلدی تھی اور میں حسب معمول لیٹ ہو گیا تھا سکول کھلنے میں پانچ منٹ تھے جب سکول پہنچا سب کچھ ٹھیک تھا تھوڑ ا وقت گزارا تو میں اپنے آٹھ سالہ دوست کے ساتھ بیٹھا کلاس روم میں آگیا ۔
کہ اسی اثنا میں فائرنگ کی آوازیں آنا شروع ہوئیں۔ کئی بچے چیخ رہے تھے ، کچھ بھاگ رہے تھے کچھ رو رہے تھے۔ ایک بندوق والا شخص ہمارے کمرے میں بھی داخل ہو ا۔ میںنے اس کی طرف دیکھا تو اس کاقد کافی بڑا تھا اس نے اپنی بندوق میری طرف کردی، میں ایک دم سے ڈر گیا میں نے پہلے کبھی بندوق نہیں دیکھی تھی اس نے مجھے کلمہ پڑھنے کے لیے کہا، مجھے ڈر لگ رہا تھا، میری آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو گئے۔ میں سوچ رہا تھا کہ کلمہ نہ سنایا تو یہ ڈانٹے گا۔ لیکن اس نے تو کلمہ بھی نہیں سنا اور ڈانٹا بھی نہیں، اس نے گولی چلا دی ۔ میرا دماغ میری کھوپڑی سے نکل کر دیوار کے ساتھ چپک گیا ۔
میرا خون گردن پر لکریں بناتا ہوا میری جرابوں تک پہنچ چکا گیا۔ میرے سامنے رکھی ہوئی کتاب میرے خون سے اپنی پیاس بجھا گئی۔ میرے دوست کی گردن میری جھولی میں گر چکی تھی۔ ہمارا خون فرش پر بہتا گیا۔ بندوقوں والے لوگ ہمارے کلاس روم میں گھومتے رہے۔
ہمارا جمتا ہوا خون ان کے بوٹوں سے چسپاں ہوتا رہا خون آلودہ بوٹوں کے نشان سارے کمرے میں لگتے جا رہے ۔ کسی نے آ کر میرے اور میرے دوست کے جسم کو اٹھایا۔ اٹھانے والا زار و قطار رو رہاتھا کچھ ہی دیر بعد کسی نے میرے جسم سے لٹکے ہوئے خون آلود لوتھڑوں کو دوبارہ ہاتھ سے اپنی جگہ لگانے کی کوشش کی لیکن وہ دوبارہ لٹک جاتے میں نے دیکھا کہ میری ماں رو رہی ہے ؟
میں اسے روتے ہوئے دیکھ کر مزید پریشان ہو گیا۔ میری ماں بار بار میرے بے حس ہونٹوں کو چوم رہی تھی میرے ہونٹ برف کی طرح ٹھنڈے اور ہلکے نمکیں ہو چکے تھے۔ لیکن وہ پھر بھی چومتی گئی۔
مگر وہ رو کیوں رہی تھی اس کا مجھے پتہ نہیں تھا پہلے تو وہ جب بھی میرا ماتھا چومتی تھی، تو مسکراتی تھی ! میں زور زور سے پوچھ رہاتھا امی آپ کیوں رو رہی ہیں ؟ لیکن وہ میری طرف دیکھنے کی بجائے، میرے جسم کی طرف کیوں دیکھ رہی تھی۔ میں آوازیں دے دے کر تھک چکا ۔
میری ماں روتی جا رہی تھی۔ ؟ یہ میرے جسم کے ساتھ کیا کر رہے ہیں ؟ مجھے کہاں لے جایا جا رہاتھا میری امی میرے ساتھ کیوں نہیں۔ میری چھوٹی بہن کدھر ہے ؟ ابو مجھے کہاں لے جا رہے تھے ؟ میں کلمہ سنانے کے لیے تیار ہوں۔۔۔ میں اونچی آواز میں کلمہ پڑھتا جا رہا ۔۔۔
لیکن کوئی بھی نہیں سن رہاتھا۔۔۔ میں روتا گیا لیکن کوئی بھی آنسو نہیں پونچھ رہاتھا۔۔ امی بھی نہیں۔۔ کیونکہ میری موت واقع ہوچکی تھی اور میں اپنے والدین سے اپنے بہن بھائیوں سے بہت دور چاچکا تھا جہاں سے واپسی ناممکن ہے مجھے پتہ چل گیا مجھے بربریت کا نشانہ بنایا گیا ہے اب اس واقعے کو بہت عرصہ ہوچکا ہے
مگر یہ کل ہی کا واقعہ لگتا ہے جس دن ہم سب آسمان میں ستارے بن گئے اس دن سے ہم سب روزانہ اپنے خاندان والوں کو دیکھتے ہیں ہم نے ہر دن اپنے گھرو الوں کو آنسو بہاتے ہوئے دیکھا ہے میں نے ابو کو سب کو دلاسے دیتے ہوئے اور خود اکیلے میں بارہا روتے ہوئے دیکھا ہے
اور اب جب ایک سال گزر گیا ہے میں اب بھی ہر چہرے کو اداس دیکھ رہاہوں اب میری باجی میرے پرانے عید کے جوتے اور کپڑے اُٹھائے اپنے پلو سے آنسو صاف کر رہی ہے میری ماںاب بھی آسمان کی طرف دیکھتی ہے دروازے کی سرسراہٹ ہر چونک اٹھتی ہے شاید وہ مجھے ڈھونڈ رہی ہے ماں میں آپ کے سامنے ہوں آپ روز آسمان کی جانب دیکھو وہاں جو سب سے چمکتے ہوئے ستارے ہیں وہ ہم سب دوست ہیں ہم یہاں سے خون میں لت پت ہوکر آسمان میں ستارے بن گئے ہیں