خدارا اب تو تسلیم کرلیجئے کہ ہم بحیثیت قوم سوشل میڈیا کی بدولت پھیلائے ہیجان کے یرغمال بن چکے ہیں۔ہمارے ”صحافیوں“ کے لئے لہٰذا یہ بہترین موقع تھا کہ اس شعبے کی مبادیات کو مزید توجہ اور مہارت سے استعمال کرتے ہوئے یہ سمجھانے کی کوشش کرتے کہ اصل ”خبر“ کیا ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے مگر ہمارا روایتی میڈیا بھی سوشل میڈیا پر حاوی رحجان کی نقالی کو ترجیح دینا شروع ہوگیا۔”کوا“ مگر ”ہنس“ کی طرح چل نہیں سکتا۔
نہایت دُکھ سے آپ کو یہ اطلاع دینے کو مجبور ہوں کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے ارشد شریف مرحوم کے قریب ترین دوستوں کے نام میں اپنے ہاتھ کی انگلیوں پر گنواسکتا ہوں۔ان میں سے عامر متین اور محمد مالک میرے چھوٹے بھائیوں جیسے ہیں۔اس کے علاوہ ہم دونوں کے مشترکہ دوست رﺅف کلاسرا بھی ہیں جو بہت دنوں تک صحافت کے ہنر کو مزید پختہ کرنے کے لئے ارشد شریف کے ساتھ لندن میں بھی اکٹھے رہے۔ مطیع اللہ جان کے مرحوم والد اور والدہ ارشد شریف کے خاندان کے بہت قریب تھے۔ان کا تعلق 26برسوں تک پھیلا ہوا تھا۔یہ تعلق ارشد اور مطیع کو ایک دوسرے کے مزید قریب لایا۔کاشف عباسی بھی اس کے بے تکلف دوست تھے۔ ارشد سے میری شناسائی بہت پرانی تھی۔ہم دونوں مگر ایک دوسرے کے بے تکلف دوست نہیں تھے۔ مرحوم نے میرے ساتھ ہمیشہ تکریم کا رویہ اختیار کیا۔ میرے پھکڑپن کو اپنے ہونٹوں پر آئی مسکراہٹ سے نظرانداز کردیتا۔جوابی ”جگت بازی“ اختیار نہ کرتا۔
یہ چند نام میں نے فقط اس امر کو اجاگر کرنے کے لئے لکھے ہیں کہ ارشد کی المناک موت کا حقیقی دُکھ مرحوم کے ایسے ہی دوستوں کو عمر بھر کے لئے محسوس ہوتا رہے گا۔وہ اپنے دُکھ پر بردباری سے قابو پانے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔سوشل میڈیا پر اس کی المناک موت کے بعد وائرل ہوئی وڈیوز کا تاہم بغور جائزہ لیں تو آپ کو یہ جاننے میں ہرگز دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا کہ ”صحافیوں“ میں ارشد شریف کی المناک موت پر دہائی کا اجارہ کچھ اور لوگوں کے ہاتھ جاچکا ہے۔میرے مغموم دل میں یہ حوصلہ ہرگز موجود نہیں کہ ارشد کی المناک موت کے حوالے سے سوشل میڈیا پرجو کہانیاں وائرل ہورہی ہیںان کا تنقیدی انداز میں جائزہ لے سکوں۔ بے بسی کے اعتراف کے بعد آگے بڑھ جانا ہی مناسب ہوگا۔
ارشد کی المناک موت کا حقیقی دُکھ محسوس کرنے والوں کی یک وتنہا ترجیح یہ ہوناچاہیے کہ اس کے قتل کے حقیقی اسباب اور ذمہ دار افراد کا تعین کرنے کے لئے صاف شفاف اور قابل اعتبار تفیشی عمل کا آغاز ہو۔ اس جانب مگر توجہ مرکوز نہیں کی جارہی۔ قابل اعتبار تفتیش کا تقاضہ کرتے ہوئے ہمیں یہ حقیقت بھی نگاہ میں رکھنا ہوگی کہ ارشد کا قتل کینیا میں ہوا۔ میں اس ملک میں ایک عالمی کانفرنس کی وجہ سے دس دن تک قیام پذیر رہا ہوں۔مشتاق منہاس بھی اس سفر میں میرے ہمراہ تھا۔ 2007ءمیں ہوئے اس سفر کے دوران ہم اس ملک کے دارلحکومت نیروبی کے تقریباََ قلب میں موجود ایک ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ شام ڈھلنے کے بعد ہوٹل سے باہر نکلنا چاہتے تو اس ہوٹل کا عملہ پریشان ہوجاتا۔ نہایت خلوص سے فریاد کرتا کہ ”احتیاط“ سے کام لیں۔ ان کے رویے نے خوف کی جو فضا ہمارے دلوں پر مسلط کی اس کی وجہ سے ہم کانفرنس ختم ہوجانے کے بعد ہوٹل پہنچتے ہی وہاں تک محدود رہنے کو مجبور ہوجاتے۔ حقیقت یہ بھی تھی کہ مذکورہ کانفرنس کے منتظمین نے نیروبی کے مضافات میں واقع ایک فٹ بال اسٹیڈیم میں اپنے اجتماع کا اہتمام کررکھا تھا۔ان کی ترجیح تھی کہ امن وامان عمومی صورتحال کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کے مہمان وہاں کھلاڑیوں کے لئے قائم ہوسٹلوں کے کمروں ہی میں رات گزاریں۔ میں ایسے انتظام سے خوش نہیں ہوتا۔مشتاق اور دیگر چند دوستوں کو قائل کیا کہ ہم اپنے خرچے پر نیروبی کے قلب میں واقع ہوٹل میں قیام پذیر ہوں۔تھوڑی ”جوانی“ ابھی باقی ر ہ گئی تھی۔”خطروں“ سے پنگالینے کی خواہش کچھ حد تک برقرار تھی۔
کینیا میں جرائم سے وابستہ بے تحاشہ مافیاز ہیں۔وہاں کے اکثر سیاستدان بھی جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کی وجہ سے بہت بدنام ہیں۔وہاں کے عام افراد مگر بہت نفیس اور مہمان نواز ہیں۔ خود کو ان مافیاز کے ہاتھوں بے بس محسوس کرتے ہیں۔ان کی محبت کو عمر بھر بھلانہیں سکتا۔ہمارے عوام کی اکثریت بھی صدیوں سے ”پردیسی“ کے ساتھ اچھے سلوک کو اپنی جبلت کا حصہ بنائے ہوئے ہے۔کئی برسوں تک مگر ”دہشت گردی“ کے نام پر پاکستان کو دنیا میں ”خطرناک“ ملک دکھاکر پیش کیا جاتا رہا۔ارشد شریف کے المناک قتل کومیرے بیان کردہ تناظر میں رکھ ر اگر زیر غور لائیں تو آپ بآسانی یہ تصور کرسکتے ہیں کہ اس کے قتل کی صاف،شفاف اور قابل اعتبار تحقیق وتفتیش کس قدر دشوار ثابت ہوسکتی ہے۔
اس کے بعد یہ حقیقت بھی نگاہ میں ہر صورت رکھیں کہ کینیا اور پاکستان کے مابین Mutual Legal Assistanceجسے مختصراََ MLAکہا جاتا ہے موجود نہیں۔ ایسا معاہدہ دو ممالک کو مجبور کرتا ہے کہ ان میں سے کسی ایک ملک میں دوسرے ملک سے آکر کوئی جرم سرزد کرنے یا اس کا شکار ہوئے شخص کے بارے میں ”مشترکہ تحقیقات“ہوں۔ کینیا کے اکثر شہری پاکستان میں منشیات کے کاروبار میں حصہ لینے کے الزام میں گرفتار ہوتے رہتے ہیں۔کینیا کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ ایسے افراد تک رسائی کے لئے پاکستان کے ساتھ ”ایم ایل اے“ کی خواہاںتھی۔ اس ضمن میں اس نے ہمیں ایک مسودہ بھی تیار کرکے بھیج رکھا ہے۔ پاکستان نے اس کا خاطر خواہ جواب ابھی تک نہیں دیا۔”ایم ایل اے “کے بغیر حکومت پاکستان کینیا سے متوقع ”تعاون“ کے حصول کے لئے کوئی اور ”جگاڑ“ لگانے کو مجبور ہوگی۔ عالمی اداروں یا طاقت ور ترین ممالک کا مشترکہ دباﺅ بھی اس ضمن میں درکار ہوگا۔
ارشد کی المناک موت کی قابل اعتبار تحقیق کی امید دلانے کے بجائے میں اصرار کرنے کو مجبور محسوس کررہا ہوں کہ کسی بھی ملک میں کوئی سانحہ ہوجائے تو وہاں کی حکومت اپنے اداروں کو اس کا ذمہ دار ثابت کرنے میں ڈھٹائی جیسے گریز کارویہ اختیار کرتی ہے۔ خدانخواستہ کینیا کا کوئی معروف اور دبنگ صحافی پاکستان میں ارشد شریف کی طرح قتل ہوجاتا تو ہماری حکومت بھی شاید ایسا ہی رویہ اختیار کرتی۔آپ سے محض فریاد ہی کرسکتا ہوں کہ مذکورہ حقائق کو بھی ذہن میں رکھیں۔