کسی کو کوئی شک تھا تو جناب عمران خان نے وہ شک بھی دور کر دیا ہے۔ سی این این کی بیکی اینڈرسن نے عمران خان سے پوچھا کہ آپ خود پر قاتلانہ حملے کا الزام تین افراد پر لگا رہے ہیں، ان تینوں کے خلاف الزام کا کوئی ثبوت آپ کے پاس ہے؟ خان صاحب نے ثبوت دینے کے بجائے الزام کا پس منظر بیان کرنا شروع کر دیا۔
اسی انٹرویو میں امریکی صحافی نے عمران خان سے پوچھا کہ آپ کو قاتلانہ حملے کی پیشگی اطلاع کیسے مل گئی تھی؟ خان صاحب نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ مجھے یہ اطلاع خفیہ اداروں کے اندر سے ملی اور یہ وہ لوگ ہیں جو اس وقت ملک کے حالات سے خوش نہیں ہیں۔
خان صاحب نے سی این این پر جو کہا اگر وہ درست ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاستی اداروں کے اندر موجود کچھ لوگ اُن کی مدد کر رہے ہیں اور یہ لڑائی قبل از وقت انتخابات کی نہیں بلکہ اپنی مرضی کا آرمی چیف لگوانے کی ہے۔
ملک کا ایک سابق وزیراعظم ببانگِ دُہل امریکی ٹی وی چینل کو بتا رہا ہے کہ پاکستانی خفیہ اداروں کے کچھ سرکش عناصر اُس کی پشت پر کھڑے ہیں۔ اگریہ بات نواز شریف یاآصف زرداری نے کہی ہوتی تو اب تک ایک بہت بڑا طوفان آ چکا ہوتا۔
عمران خان نے اپنے کچھ ناقدین کے اس مؤقف کی خود ہی تائید کر دی ہے کہ ان کی سیاست کسی انقلاب یا حقیقی آزادی کے لئے نہیں ہے بلکہ وہ خفیہ اداروں کے اندر موجود کچھ سُپر پیٹریاٹ لیکن سرکش عناصر کے سہولت کار ہیں۔
یہ عناصر دراصل ایک مخصوص طرز فکر کے نمائندہ ہیں۔ 2011ء میں پہلی دفعہ ایک خفیہ ادارے کے سربراہ نے مجھے کہا کہ ہمیں موروثی سیاست کرنے والی جماعتوں سے جان چھڑانی ہے اور پاکستان میں صدارتی نظام لانا ہے۔ جب میں نے ان صاحب سے کہا کہ جو آپ کرنا چاہتے ہیں وہ آپ کا مینڈیٹ نہیں تو انہوں نے میرے ساتھ بحث شروع کر دی۔ بحث کا اختتام انتہائی ناخوشگوار ماحول میں ہوا جس کا خمیازہ میں نے کافی عرصہ تک بھگتا۔
پچھلے سال ہم نے صدارتی نظام کی باتیں دوبارہ سننا شروع کیں۔ باخبر حلقوں میں ایک 30سالہ منصوبہ زیربحث تھا جس کے تحت اپریل 2022ء میں نئے آرمی چیف کی تقرری کے کچھ عرصہ بعد قبل از وقت انتخابات کرائے جانے تھے۔
ان انتخابات میں عمران خان کو دو تہائی اکثریت دلوانی تھی اور پھر نئی قومی اسمبلی سے آئین میں ترامیم کرا کے پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں تبدیل کرنا تھا۔ پیپلزپارٹی سے کہا گیا کہ آپ گھبرائیں نہیں عمران خان صرف ایک ٹرم اور لیں گے، اگلی ٹرم آپ کو ملے گی۔
پیپلزپارٹی کو اٹھارہویں ترمیم خطرے میں نظر آئی تو انہوں نے مسلم لیگ (ن) کو ساری کہانی بتا دی اور یوں عدم اعتماد کا کھیل شروع ہوا۔ عدم اعتماد کے کھیل میں عمران خان کو صدر عارف علوی کی مکمل حمائت حاصل تھی اور اب خان صاحب نے سی این این کے ذریعہ ساری دنیا کو بتا دیا ہے کہ اُنہیں خفیہ اداروں کے اندر موجود عناصر کی حمایت حاصل تھی۔
عمران خان خفیہ اداروں کے اندر موجود جن عناصر کی حمایت کا دعویٰ کر رہے ہیں وہ خان صاحب کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو قوم کا نجات دہندہ سمجھتے ہیں اور نجات دہندہ بننے کے لئے وہ کسی نہ کسی طرح پاکستان میں صدارتی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ عمران خان کو غور کرنا چاہئے کہ جن عناصر نے اُنہیں پہلے ہی بتا دیا کہ آپ پر وزیرآباد میں قاتلانہ حملہ ہو گا اور حملہ آور کو ایک مذہبی جنونی قرار دیا جائے گا۔
اُنہوں نے آپ کو وزیرآباد میں حفاظتی انتظامات سخت کرنے کے لئے کیوں نہ کہا؟ کیا انہوں نے یہ بھی بتا دیا تھا کہ مذہبی جنونی صرف ٹانگوں پر فائرنگ کرے گا؟ عمران خان نے حملے کا الزام وزیراعظم، وزیر داخلہ اور ایک فوجی افسر پر لگایا لیکن پنجاب میں اپنی حکومت ہونے کے باوجود نامزد ملزمان پر ایف آئی آر نہ کرا سکے۔
یہ کہنا غلط ہے کہ بغیر ثبوت کے کسی پر ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی۔ 1974ء میں ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم تھے اور پنجاب میں اُن کی حکومت تھی۔ لاہور میں پیپلز پارٹی کے ایک ناراض ایم این اے احمد رضا قصوری کے والد محمد احمد خان قصوری قتل ہو گئے۔ اُس دن بھٹو صاحب ملتان میں تھے اور آئی جی پنجاب رائو رشید بھی اُن کے ساتھ ملتان میں تھے۔
رات کو رائو رشید کو پتہ چلا کہ احمد رضا قصوری کے والد قتل ہو گئے ہیں اور وہ ایف آئی درج نہیں کرا رہے کیونکہ اُن کا خیال ہے کہ اُن کے والد کو حکومت نے قتل کرایا ہے اور انہیں انصاف نہیں ملے گا۔
رائو رشید نے لاہور پولیس سے کہا کہ قصوری سے کہیں وہ جس پر ایف آئی آر کرانا چاہتا ہے کرا دے ہم انویسٹی گیشن میں دیکھ لیں گے کہ اُن کا دعویٰ صحیح ہے یا غلط۔
قصوری نے ایف آئی آر میں وزیراعظم بھٹو کو نامزد کردیا۔ اگلے دن رائو صاحب نے وزیراعظم کو بتا دیا اور وزیراعظم نے کوئی اعتراض نہ کیا کیونکہ وہ خود بھی ایک وکیل تھے۔ بعد میں جنرل ضیاء الحق نے اس مقدمے کو بھٹو کے عدالتی قتل کیلئے کیسے استعمال کیا وہ رائو رشید صاحب کے طویل انٹرویو ’’جو میں نے دیکھا‘‘ میں موجود ہے۔
ایف آئی آر میں ملزم نامزد کرنا عمران خان کا حق ہے اور اب ریاست کا بھی یہ حق ہے کہ وہ خفیہ اداروں میں اُن عناصر کو ڈھونڈے جو عمران خان کی مدد کر رہے ہیں۔ خفیہ اداروں میں سرکش عناصر کی موجودگی ناقابل قبول ہے۔
زیادہ پرانی بات نہیں جب شیخ رشید وزیر داخلہ تھے اور ہر دوسرے دن سندھ میں گورنر راج لگانے کی دھمکیاں دیا کرتے تھے۔ آج رانا ثناء اللہ وزیر داخلہ ہیں۔ وہ بھی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں گورنر راج کی باتیں کر رہے ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد گورنر راج کا نفاذ کافی مشکل ہے۔
آئین کے تحت جس صوبے میں گورنر راج لگانا ہو یا تو اُس صوبے کی اسمبلی گورنر راج کے حق میں قرارداد پاس کرے یا پھر گورنر راج کے بعد قومی اسمبلی اور سینیٹ اپنے مشترکہ اجلاس میں گورنر راج کی تائید کریں۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد 2013ء میں پیپلز پارٹی نے بلوچستان میں اپنے ہی وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی کو گورنر راج کے ذریعے ہٹا دیا تھا اور سپریم کورٹ نے اس کی تائید کر دی تھی۔ اُس وقت آصف زرداری صدر تھے۔
آج عارف علوی صدر ہیں۔ آئین کے تحت وزیراعظم کسی صوبے میں گورنر راج کی سمری صدر کو بھیج دے تو صدر صاحب زیادہ عرصہ اُس سمری کو نہیں روک سکتے۔
عمران خان ملک کے حالات کو وہاں لے جا رہے ہیں جہاں عدلیہ بھی حکومت کے کسی ایسے فیصلے کی توثیق پر مجبور ہو سکتی ہے لیکن سیاستدانوں سے گزارش ہے کہ وہ ایک دوسرے کو گورنر راج کی دھمکیاں نہ دیں، اگر عمران خان خفیہ اداروں میں موجود سرکش عناصر کی مدد سے جلائو گھیرائو سے باز نہیں آ رہے تو فوری طور پر نئے آرمی چیف کی تقرری کر دی جائے۔ جو کام نومبر کے آخر میں کرنا ہے
نومبر کے وسط میں کر دیں۔ سارا ہنگامہ ختم ہو جائے گا۔ اس کا کریڈٹ بھی خان صاحب کو جائے گا کیونکہ کچھ سرکش عناصر کے ساتھ ملی بھگت کی خبر بھی تو انہوں نے خود بریک کی ہے۔
بشکریہ جنگ