پاکستان کی بڑی اکثریت اپنے مستقبل کے بارے میں پریشان اور مضطرب ہے۔ ان دنوں یہ اضطراب عروج پر ہے لیکن مجھ ناچیز کو اس اضطراب اور بے قراری میں وہ طاقت نظر آ رہی ہے جو پاکستان کو بہت آگے لے جا سکتی ہے۔
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیراہتمام پندرہویں عالمی اردو کانفرنس میں پاکستان کی نئی نسل کا پرانی نسل کے ساتھ مکالمہ وہ امید ہے جو مجھے یقین دلا رہا تھا کہ تمام تر سیاسی افراتفری اور معاشی مسائل کے باوجود آگے بڑھنے کی جستجو قائم و دائم ہے.
بظاہر تو آرٹس کونسل کے سربراہ احمد شاہ نے کراچی میں یکم تا چار دسمبر 2022ء اہل ادب و صحافت کا ایک میلہ سجایا تھا جس میں اکیسویں صدی کے اردو ادب اور اردو صحافت کے علاوہ پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی اور سرائیکی زبان و ادب پر گفتگو کی محفلیں بھی منعقد کی گئیں لیکن ان محفلوں میں نوجوانوں کی انور مقصود، افتخار عارف، نور الہدیٰ شاہ، اصغر ندیم سید، امجد اسلام امجد، محمود شام، عکسی مفتی، زاہدہ حنا، زہرا نگاہ، کشور ناہید، تحسین فراقی اور دیگر بزرگوں کے ساتھ محبت دیکھ کر یہ اطمینان ہوا کہ سوشل میڈیا پر گالی گلوچ اور نفرت انگیز گفتگو کرنے والے نوجوان اصل پاکستان کے ترجمان نہیں بلکہ اصل پاکستان کے ترجمان وہ نوجوان تھے جو عالمی اردو کانفرنس کے مختلف اجلاسوں میں بڑی تہذیب اور شائستگی کے ساتھ ہم سے پولیٹیکل انجینئرنگ، سنسر شپ اور پارلیمینٹ کی بے بسی کے بارے میں سوالات کرتے رہے، ان سوالات میں حیرت بھی تھی، مذمت بھی تھی اور پاکستان کے بہتر مستقبل کے لئے جستجو بھی تھی۔
تین دسمبر کی شام اس کانفرنس میں پاکستان کے آج اور آنے والے کل پر نوجوانوں نے مجھ سے بہت سےسوالات کئے۔ اس اجلاس کی میزبان بھی ایک نوجوان صحافی ابصاکومل تھیں جو بار بار پوچھ رہی تھیں کہ اگر فوج سیاست سے دور ہو چکی تھی تو سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پرویز الٰہی کو عمران خان کا ساتھ دینے کے لئے کیوں کہا؟ نوجوان ایک دوسرے سے مائیک لے کر بے چینی کے ساتھ بار بار یہی پوچھے جا رہے تھے کہ کیا فوج آئندہ سیاست میں مداخلت جاری رکھے گی؟ میں اس یقین کا اظہار کرتا رہا کہ جنرل باجوہ نے جو بھی کیا وہ انفرادی حیثیت میں کیا، فوج آئندہ بطور ادارہ سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی۔ ان سوالات میں جنرل باجوہ کے ساتھ ساتھ عمران خان کے بارے میں بھی حیرتیں چھپی ہوئی تھیں جوجنرل باجوہ کی تمام تر بیک ڈور سپورٹ کے باوجود انہیں میر جعفر کہتے رہے۔ جب مجھ سے یہ سوالات کئے جا رہے تھے تو نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر لائن آف کنٹرول پر فوجی مورچوں میں اپنے جوانوں سے کہہ رہے تھے کہ اگر دشمن نے ہم پر جنگ مسلط کی تو اسے اس کے گھر میں گھس کر ماریں گے۔ امید ہے کہ جنرل عاصم منیر اپنے کردار کے ذریعہ آہستہ آہستہ ان تمام سوالات کے جواب دیتے جائیں گے جن کا سامنا مجھے کرنا پڑا۔
عالمی اردو کانفرنس میں خاکسار نے بار بار عرض کیا کہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل 1973ء کے آئین میں ہے۔ اگر اس آئین پر عملدرآمد کیا جائے تو ہم ضرور ترقی کریں گے۔
سوال کیا گیا کہ قومی اسمبلی کے منتخب رکن علی وزیر کے ساتھ ریاستی اداروں نے جو سلوک کیا ہے کیا وہ آئین کے مطابق ہے؟ میں نے عرض کیا کہ علی وزیرنے تو صرف ایک تقریر کی تھی جس پر خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے مل کر انہیں جیل میں بند کر رکھا ہے لیکن کچھ صاحبان روزانہ اداروں کے خلاف تقریریں کرتے ہیں ان کے بارے میں احتیاط کی جاتی ہے کیونکہ ان کے اور علی وزیر کے ڈومیسائل میں فرق ہے۔
ستم ظریفی دیکھئے کہ علی وزیر کو عمران خان کے دور حکومت میں گرفتار کیا گیا اور سینیٹ کے رکن اعظم سواتی کو شہباز شریف کے دور میں گرفتار کیاگیا۔ سواتی کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے لیکن ان کے خلاف مقدمات بلوچستان میں قائم کئے گئے اور انہیں گرفتار کرکے بلوچستان بھجوا دیاگیا۔
سواتی ماضی میں ایک سیاسی ابن الوقت رہے ہیں۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک فوجی افسرکےساتھ جو گالی گلوچ کی وہ قابل مذمت ہے لیکن انہیں گرفتار کرکے بلوچستان بھیجنے کا کیا مقصد ہے؟ بلوچ تو خود ناانصافی کا شکار ہیں۔
تین دن قبل میں کوئٹہ میں تھا جہاں کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور کی موجودگی میں وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ نے ظلم و ستم کی وہ وہ کہانیاں سنائیں کہ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ جس صوبے میں ظلم و ستم ختم کرنے کی ضرور ت ہے اس صوبے کو سیاسی انتقام کی علامت بنانا صرف بلوچوں کی نہیں پاکستان کے آئین کی بھی توہین ہے۔
اعظم سواتی کے خلاف قانون کے مطابق ہر کارروائی اسلام آباد میں بھی ہو سکتی ہے۔ افسوس کہ شہباز شریف کے دور میں وہی کچھ ہو رہا ہے جو عمران خان کے دور میں ہوتا رہا۔ خان صاحب کے دور میں علی وزیر کو پشاور سے گرفتار کرکے کراچی کی جیل میں بند کر دیا گیا۔ شہباز شریف کے دور میں اعظم سواتی کو اسلام آباد سے گرفتار کرکے کوئٹہ میں بند کردیا گیا۔ کیا اب شہباز شریف بھی عمران خان کی طرح یہی کہیں گے کہ وہ بے اختیار ہیں؟ شہباز شریف نے جنرل باجوہ کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود انہیں دوسری دفعہ توسیع نہیں دی حالانکہ انہیں مارشل لاء کی دھمکیاں بھی بھجوائی گئیں۔
افسوس کہ مسلم لیگ (ن) کے اندر سے بھی کچھ لوگ جنرل باجوہ کو چھ ماہ کی توسیع دلوانے کے لئے سرگرم تھے اور اسی مسلم لیگ (ن) کے اندر چند صاحبان ایسے بھی تھے جو فیض حمید کی گارنٹیاں بھی دے رہے تھے لیکن شہباز شریف نے سینئر ترین جرنیل کو آرمی چیف بنا کر مارشل لاء کی دھمکیوں کو نظر انداز کردیا۔عالمی اردو کانفرنس میں جہاں فوج کے سیاسی کردار پر بہت تنقید ہوئی وہاں سیاسی جماعتوں کے اندر موجود غیر جمہوری رویے بھی زیر بحث آئے۔
سیاسی جماعتیں اختیار کے بغیر اقتدار لینا بند کردیں تو انہیں کوئی بلیک میل نہیں کرسکتا۔ عمران خان آج اپنی غلطیوں کی سزا بھگت رہے ہیں جو انہوں نے علی وزیر کے ساتھ کیا آج ان کی پارٹی کے ساتھ ہو رہا ہے۔ جو آج شہباز شریف کے دور میں اعظم سواتی کے ساتھ ہو رہا ہے کل کو یہی کچھ مسلم لیگ ن کے ساتھ ہوگا۔
بشکریہ جنگ