پنجاب میں گھمبیر ابتری اور میرے خدشات

سیاستدان جب اپنے لئے مختص گیم کے بنیادی اصولوں پر عمل پیرا ہونے کے بجائے آئینی اور قانونی موشگافیوں میں پناہ تلاش کرنا شروع ہوجائیں تو بے بس ہوا لشکر نظر آتے ہیں۔ایسا لشکر بالآخر ریاست کے دیگر اداروں کی رہ نمائی کا طلب گار بن جاتا ہے۔خود کو بچگانہ انداز میں ان اداروں کی رضا کے سپرد کردینے کے باوجود سیاستدان بعدازاں نہایت ڈھٹائی سے ’’مداخلت‘‘ کی دہائی مچانا بھی شروع ہوجاتے ہیں۔عوام اگر ان کی ڈھٹائی سے اُکتاہٹ محسوس کریں تو انہیں دوش دینے کی ہمت مجھ میں تو موجود نہیں۔

آبادی کے اعتبار سے پنجاب ہمارا سب سے بڑا اور نسبتاََ خوش حال صوبہ ہے۔ ’’سکھا شاہی‘‘ کی پھیلائی ابتری نے یہاں برطانوی استعمار کو ’’مداخلت‘‘ کے مواقع فراہم کئے۔ پنجاب پر قابض ہوجانے کے بعد غیر ملکی آقائوں نے جو انتظامی بندوبست متعارف کروایا وہ برطانوی ہند کے دیگر علاقوں کو قابل رشک دکھائی دیتا رہا۔ یہ بندوبست بھی تاہم قیام پاکستان کے دوران ہوئے انسانی تاریخ کے بدترین خونی فسادات روکنے میں قطعاََ ناکام رہا۔ مذکورہ بندوبست کی توڑ پھوڑ قیام پاکستان کے چند ہی برسوں بعد لاہور میں مارشل لاء کے نفاذ کا سبب بھی ہوئی۔ جنرل اعظم خان کی نگرانی میں امن وامان اور استحکا م کی فوری اور متاثر کن بحالی نے بعدازاں ہمارے معاشرے میں فوجی آمریت کے خواہش مندوں کے ہجوم میں مسلسل ا ضافہ ہی کیا۔

رواں برس کے اپریل سے اس کالم میں آپ کو اُکتانے کی حد تک فریاد کئے چلاجارہا ہوں کہ طویل وقفے کے بعد اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلاپنجاب ایک بار پھر کامل انتشار کی جانب بڑھ رہا ہے۔اندھی نفرت وعقیدت سے بالاتر ہوکر سوچیں تو بالآخر چودھری پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ کی صورت جو بندوبست نمودار ہوا وہ اس صوبے کو مزید انتشار سے بچاسکتا تھا۔ عمران خان صاحب مگر اپنی ہی جماعت کی سرپرستی میں بنائی حکومت کو بھی مطلوبہ مہلت دینے کو آمادہ نہ ہوئے۔فیصلہ کرلیا کہ 23دسمبر کے روز اسے پنجاب اسمبلی سمیت تحلیل کرتے ہوئے ملک بھر میں نئے انتخاب کی فضا بنائی جائے۔

سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے میں مصررہا کہ پنجاب اور خیبرپختونخواہ حکومتوں کی تحلیل عمران خان صاحب کو وہ تقویت فراہم نہیں کر پائے گی جس کی انہیں توقع ہے۔ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد مذکورہ صوبوں میں ’’عبوری حکومتیں‘‘ قائم ہوں گی۔وفاقی حکومت سے کہیں زیادہ یہ حکومتیں ان قوتوں کی محتاج بن جائیں گی جنہیں عمران خان صاحب اپنی حکومت کے ’’سازشی خاتمے‘‘ کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ سابق وزیر اعظم مگر حالات کو اپنی توقع کے عین مطابق ڈھلتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔

مسلم لیگ (نون) بھی لیکن اپنے ’’گڑھ‘‘ میں نئے انتخابات سے خوفزدہ نظر آنا شروع ہوگئی۔ فیصلہ یہ ہوا کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کو ہر صورت روکا جائے۔ چودھری پرویز الٰہی بھی دل سے ایسی ہی امید باندھے ہوئے تھے۔تحریک انصاف ا ور مسلم لیگ (نون) کو البتہ بیک وقت گومگو میں مبتلا رکھا۔مسلم لیگ (نون) کے لئے مگر اب انہیں وزارت اعلیٰ کے منصب پر برقرار رکھنا ممکن نہیں رہا۔ دریں اثناء ’’زرداری فارمولا‘‘ بھی نمودار ہوگیا جو مبینہ طورپر چودھری صاحب کو پنجاب اسمبلی کے سپیکر کے منصب پر لوٹنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔اس کے لئے مگر پرویز الٰہی کو پی ڈی ایم کے نامزدکردہ وزیر اعلیٰ کی حمایت کرنا ہوگی۔گومگو کا عالم اب ان کا اپنا مقدر بن چکا ہے۔

چودھری صاحب کے فرزند مونس الٰہی صاحب کے ٹویٹس پر اعتبار کریں تو گماں ہوتا ہے کہ بالآخر پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے عمران خان صاحب کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔اگر یہ فیصلہ واقعتا ہوچکا ہے تو پنجاب اسمبلی کا سیکرٹریٹ عمران مخالف جماعتوں کی جانب سے دائر کردہ عدم اعتماد کی مختلف تحریکوں کو اتنی آسانی سے ’’باقاعدہ‘‘ انداز میں وصول نہ کرتا۔ پنجاب اسمبلی کو تحلیل کرنے کا ارادہ باندھ لیا تھا تو گورنر کی اس ایڈوائس پر فی الفور عمل کرلیا جاتاجس کے ذریعے وزیر اعلیٰ کو اپنی اکثریت ثابت کرنے کا حکم ملا۔اس جواز کو رعونت بھرے اعتماد سے نظرانداز کرتے ہوئے کہ آئینی اعتبار سے گورنر پنجاب صوبائی اسمبلی کے ’’جاری سیشن‘‘ کے دوران اعتماد کا ووٹ دکھانے والے اجلاس کا وقت طے کرسکتا ہے یا نہیں،تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) 186اراکین کے ساتھ پنجاب اسمبلی میں داخل ہوتے۔اپنے بندے گنوادینے کے بعد ایک بار پھر اعتماد سے مالا مال ہوئے چودھری پرویز الٰہی اپنی نشست پر کھڑے ہوکر صوبائی اسمبلی کی تحلیل کا اعلان کردیتے۔مذکورہ ’’فطری‘‘ ر اہ اختیار کرنے کے بجائے لیکن سپیکر پنجاب اسمبلی نے گورنر کی ایڈوائس کو غیر آئینی ٹھہراتے ہوئے ’’مسترد‘‘ کردیا۔گورنر پنجاب مذکورہ فیصلے کے بعد یہ کالم لکھنے تک پرویز الٰہی صاحب کو ’’ڈی نوٹی فائی‘‘ بھی نہیں کرپائے ہیں۔

بدھ کی رات پنجاب پر نظر رکھنے والے وفاقی حکومت کے چند نمائندوں سے میری گفتگو ہوئی۔ ان کی گفتگو نے مجھے یہ عندیہ دیا کہ وہ دل سے اس بات کے منتظر ہیں کہ جمعرات کی سہ پہر تحریک انصاف گورنر ہائوس لاہور کو ’’گھیرے‘‘ میں لے کر سری لنکا جیسے مناظر دہرانے کی کوشش کرتی نظر آئی۔ جس ’’مہم جوئی‘‘ کی انہیں توقع تھی وفاقی حکومت کو پنجاب پر گورنر راج مسلط کرنے کا جواز فراہم کرسکتی ہے۔ ناک کو تاہم سیدھا پکڑیں یا ہاتھ گھماکر گورنر پنجاب اور سپیکر پنجاب اسمبلی کے مابین جو ’’مراسلہ بازی‘‘ ہورہی ہے بالآخر عدالتوں ہی کو ’’آئین کی تشریح‘‘ کرنے کو مجبور کردے گی۔ممکنہ عدالتی مداخلت تمام فریقین کو اطمینان فراہم کر ہی نہیں سکتی۔ انتشاروخلفشار لہٰذا جاری رہے گا۔

افراتفری کا ماحول فی الوقت تو عمران خان صاحب کی حکمت عملی کو کارگر ثابت ہوا دکھارہا ہے۔میرا وسوسوں بھرا دل مگر یہ سوچنے کو مجبور ہے کہ پنجاب میں ابتری کا گھمبیر سے گھمبیر تر ہونا بالآخر تمام سیاسی فریقین کو اجتماعی نقصان پہنچائے گا۔ربّ کریم سے فریاد ہے کہ میرے خدشات درست ثابت نہ ہوں۔پنجاب کی تاریخ کا طالب علم ہوتے ہوئے اگرچہ میں اطمینان بخش انجام کی امید باندھنے سے قاصر محسوس کررہا ہوں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے