چمکتی آبنوسی رنگت، گھنگریالے بال، طویل قامت، تئیس چوبیس برس کا مضمحل، آزردہ وجود !
” جی بتائیے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتی ہوں”
وہ کچھ لمحے ہمیں دیکھتی رہی اور پھر بے اختیار آنسو اس کے رخساروں پہ پھسلنےلگے۔ لرزتے ہونٹوں سے کچھ زخمی الفاظ نکلے
” ڈاکٹر میری مدد کرو”
“جی بتائیے “
” چھ ماہ ہو گئے میری شادی کو، اور اذیت کا ایک سلسلہ ہے”
ہم سیدھے ہو بیٹھے اور اس لڑکی کو دلاسہ دیتے ہوئے مزید بتانے کا کہا۔ ٹوٹےپھوٹے الفاظ میں اس کی تکلیف جاننے کے بعد ہمارے دل کا درد بڑھ گیا۔ مذہب یا رسم ورواج کے نام پہ دنیا کے ایک اور خطے میں بنیادی انسانی حقوق کی نفی کرتے ہوئے عورت سے زندگی اور خوشی کا حق چھیننے کا عمل جاری تھا۔
وہ لڑکی بچپن میں ختنہ کی جا چکی تھی!
“مجھے وہ دن نہیں بھولتا!
تھا تو ایک روشن دن لیکن مجھے پوری عمر کا کرب دے گیا۔ میں آنگن میں اپنےچھوٹے بھائی کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ گھر میں کچھ لوگوں کی آمد ورفت کاسلسلہ تھا۔ ابا نے مجھے آواز دی تھی۔ میں ان کی طرف لپکی تھی، شاید وہ میرے لئےگڑیا لائےتھے۔ لیکن کھیلنے سے پہلے مجھے چاچا سے ملنا تھا جو باہر میرا انتظار کر رہا تھا۔ میں خوشی خوشی بھاگتے ہوئے گئی تھی اور پھر مجھے چار لوگوں نےزبردستی تھام لیا تھا۔ میں نے گھبرا کے ابا کو دیکھا تھا، ابا نے منہ پھیر لیا تھا۔ اس کے بعد جو ہوا، اس کی یاد ابھی بھی رات کو سونے نہیں دیتی۔ میری چیخیں آسمان کو چھو رہی تھیں۔ درد تھا کہ رگ رگ میں دوڑتا تھا۔ خون کسی فوارے کی طرح اچھلتا تھا۔ میں غش کھاتی اور درد مجھے بے ہوشی کی سرحد سے پھر واپس لے آتا۔ اس کے بعد میں بہت عرصہ چل نہیں پائی، حوائج ضروریہ بھی بہت مشکل تھے۔ رفتہ رفتہ جسم کے زخم تو مندمل ہو گئے مگر مجھے عذاب میں مبتلا کر گئے۔ میں اب سو نہیں پاتی کہ ایک ہی منظر آنکھوں کے سامنے رہتا ہے”
وہ بے طرح رو رہی تھی!
ہم نے چاہا کہ اس کا معائنہ کر کے معاملے کی سنگینی کو جانچا جائے۔ آسمان ٹوٹ پڑتا تو ہم اتنے دل گرفتہ نہیں ہوتے جتنے اس کو دیکھنے کے بعد ہک دک کھڑے تھے۔ ایک عورت کے ساتھ وحشیانہ بربریت نے ہماری آواز گم کر دی تھی اور ہمارے دل کی بے قاعدہ ہوتی دھڑکن ہمیں گھٹن کا احساس دلاتی تھی۔
” آپ دیکھ رہی ہیں میں کس حال میں ہوں، شوہر کے تقاضے ہیں۔ مجھے بتائیےمیں وظیفۀ زوجیت کیسے ادا کروں؟”
وہ زنانہ ختنوں کی انتہائی قسم کا شکار ہوئی تھی اور تیس برس میں ہزاروں مریض دیکھنے کے باوجود اس طرح کا مریض میرا پہلا اتفاق تھا۔
عورتوں کے ختنے انسانیت کے منہ پہ ایک زناٹے دار طمانچہ ہے اور جبر وتشدد کی ایک انتہائی المناک مثال۔ اس سلسلے میں دنیا کی تمام انسانی حقوق کی تنظمیں بے بس نظر آتی ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق اس وقت دو سو ملین (بیس کروڑ) عورتیں اور بچیاں ختنہ کی جا چکی ہیں اور ان کا تعلق افریقہ، ایشیا اور مڈل ایسٹ کے تیس ملکوں سے ہے۔ مغرب میں ان ملکوں سے تعلق رکھنے والی رہائش پذیر بہت سی بچیاں اس رسم کا شکار غیر قانونی طورپر ہوتی ہیں۔ ختنہ کرنے والے مرد وزن بغیر کسی بے ہوشی کی دوا کے یہ عمل کر گزرتے ہیں۔ زیادہ خون بہہ جانے سے کئی بدقسمت بچیاں زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔
زنانہ ختنوں کی چار قسمیں ہیں!
پہلی قسم میں clitoris کاٹ کے نکال دیا جاتا ہے۔
دوسری قسم میں clitoris کے ساتھ labia minora بھی اس زد میں آتے ہیں۔
تیسری قسم میں clitoris, Labia minora اور Labia Majora کاٹ کے سب کچھ صاف کر دیا جاتا ہے۔
چوتھی اور انتہائی قسم میں سب اعضاء مخصوصہ کاٹ کے بقیہ جگہ کی سلائی کرکے ہمیشہ کے لئے بند کر دیا جا تا ہے بول اور ماہواری کے اخراج کے لئےایک چھوٹا سا سوراخ چھوڑ دیا جاتا ہے۔
پہلی تین قسموں میں لڑکی کے نصیب میں بچپن سے تڑپنا، روز مرنا اور مر کے جی اٹھنا حصے میں آتا ہے۔ ایک درد بھری اندھیری رات اس کا مقدر بنتی ہے۔ وہ یہ بھی نہیں جانتی کہ مالک کائنات سے کیا شکوہ کرے کہ بنانے والے اگر یہ سب اعضاء غیر ضروری تھے تو بنائے کیوں؟
آدم کے بیٹے کے ہاتھ اور نظر میں حوا کی بیٹی کی تقدیر کا فیصلہ، کیوں آخرکیوں؟
چوتھی قسم کے ختنے کا شکار ہونے والی باقی کی عمر صلیب پہ مصلوب گزارتی ہے۔ زندگی کا ہر ہر لمحہ جسم و جاں سے خراج لیتا ہے۔ اذیت کی گھڑیاں ہمجولی بن جاتی ہیں۔ حوائج ضروری کا اخراج قیامت بن جاتا ہے۔ ماہواری کسی سزا سے کم نہیں ہوتی کہ تمام اعضائے مخصوصہ قلم کیے جا چکے ہیں اور اب انسانی ہاتھوں کا تراشا ہوا بدصورت سوراخ ہے جو کبھی راہ دیتا ہے، کبھی نہیں۔
بات یہیں پہ نہیں ٹلتی! رہ حیات کے دشوارترین معاملات میں سے گزرنا ابھی باقی ہے۔ اوائل عمری میں زندگی کا فیصلہ کرنے والے مردوں کے بعد اب ایک اور مرد کی آرزوؤں کا بوجھ اٹھانا ہے۔ اس مرد کو پاکیزہ ختنہ زدہ عورت بھی چاہیے اور اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل بھی۔ وہ متقاضی ہے کہ بربریت کا عمل پھ رسے دہرایا جائے، مشکل سے مندمل ہوئے زخموں کو ادھیڑ کے راہ بنائی جائےکہ مالک کی خواہشات کو بھی پورا ہونا ہے اور افزایش نسل کی بھی تمنا ہے۔
اس ظلم کے پس پردہ بہت سی توجیہات گھڑ لی گئی ہیں۔ مذہب والے مذہب کی چادر اوڑھ کے اسے جائز قرار دیتے ہیں۔ روایت کی ڈگڈگی بجانے والوں کی ایک الگ کتھا ہے۔ پدرسری نظام کو اعلیٰ سمجھ کے عورت کو دو ٹکے کی مخلوق سمجھنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ جتنے منہ ہیں اتنے فتوے!
ان بیش قیمت آرا رکھنے والوں کے خیال میں عورت نجس ہے سو پاکیزہ بنانے کے لئے ختنے کا عمل ضروری ہے۔ کچھ کی سوچ ہے کہ عورت کے بیرونی جنسی اعضاء مرد سے کچھ مماثلت رکھتے ہیں سو عورت کو عورت ہونا چاہئے، مرد سے اتنی معمولی سی مشابہت بھی کیوں ٹھہرے؟ کچھ اہل دانش عورت کی جنسی خواہشات کو غیر ضروری گردانتے ہوئے ان کا یہ حق واپس لینے کے حق میں ختنوں کی رسم کو جائز، حلال بلکی ضروری قرار دیتے ہیں۔
اس افریقی لڑکی کو اس کا شوہر ہمارے کلینک لایا تھا۔ اب ہمیں تمام کٹے پھٹے، سلے ہوئے اعضا کو آپریشن سے کھول کے اس قابل بنانا تھا کہ وہ لڑکی شوہرکے استعمال کے قابل بھی ہو جائے اور مستقبل میں وارث بھی پیدا کر سکے۔ اس سب میں ہمارے دل و جاں کا جو خون ہونا تھا، وہ کون جانے۔
ان مقامات آہ و فغان سے ہم ہر دوسرے دن گزرتے ہیں۔ کبھی کتابیں پڑھتےہوئے، کبھی سفر کرتے ہوئے، کبھی معاشرے کے خود ساختہ آقاؤں یعنی مردوں کو عورت کی قیمت لگاتے دیکھ کے، کبھی وفا شعاری اور بے وفائی کی سولی پہ جھولتی ہوئی عورت کی بے بسی محسوس کر کے اور کبھی مریض دیکھ کے ان کی کہانیاں سنتے ہوئے۔
انسانیت کی اس تذلیل اور خالق کائنات کی تخلیق کے ساتھ کیا جانے والا ظلم ہمیں ایک ہی سوال پوچھنے پہ مجبور کرتا ہے
“کیا اللہ نہیں جانتا تھا کہ عورت کو کونسے اعضا بخشنا ہیں؟”