عدم توجہی کا شکار دہی علاقے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی

دیہاتی علاقوں میں اکثر چیزوں کی قیمتیں زیادہ ہوتی ہیں، جس کی وجہ وہاں پر چیزوں کی ترسیل کے اخراجات اور قیمتوں کی نگرانی کرنے والے سرکاری ملازمین کی کم توجہ ہے۔ موجودہ معاشی اور سیاسی بحران کی وجہ سے چیزوں کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ ان حالات میں لوگوں کے لیے مشکل ہو گیا ہے کہ وہ اپنی محدود آمدنی میں بڑھتے ہوئے اخراجات کو پورا کرسکیں۔

شہروں کی نسبت دیہاتوں میں مہنگائی بہت زیادہ ہے ۔وہاں روزگار کے مواقع بھی نہ ہونے کے برابر ہیں. ان حالات میں لوگوں کے لئے ضروریات پوری کرنا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔ دہی علاقوں سے بہت سے لوگ شہروں میں روزگار کے لئے آتے ہیں ۔پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ان کے اپنے روزمرہ کے اخراجات میں بھی اضافہ ہوا ہے اور چیزوں کی ترسیل پر آنے والے اخراجات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔آمدنی میں اضافہ تو دور کی بات پہلے سے مقرر آ مدنی کو بھی کم کیا جا رہا ہے یا پھر ملازمین کی بڑی تعداد کو نوکریوں سے نکالا جا رہا ہے۔

دیہی علاقوں کے لوگ زیادہ پڑھے لکھے بھی نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کی تنخواہیں زیادہ ہیں ، اس لیے وہ اس مہنگائی کے طوفان سے زیادہ متاثر ہوئےہیں۔ موجودہ ملکی حالات شہروں کی نسبت دیہات کے لوگوں پر زیادہ اثر انداز ہو رہے ہیں اور دیکھنے میں آیا ہے کے ہر کوئی اپنی مرضی کی قیمت مقرر کیے ہوئے ہے، جس کی وجہ سے بھی مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

پہلے پاکستان میں مہنگائی کی شرح کا تعین کرتے وقت صرف شہری مارکیٹوں میں ہی قیمتوں کو جانچا جاتا تھا پر 2016 سے دہی علاقوں کی مارکیٹوں کو بھی اس میں شامل کیا گیا۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ شہروں کی نسبت دیہاتی مارکیٹوں کو کم جانچا جاتا ہے اور یہ عدم توجہی کا شکار ہیں ۔جس کی وجہ سے سے ایک مارکیٹ سے دوسری مارکیٹ میں بھی قیمتوں میں واضح فرق نظر آتا ہے۔ پاکستان کے ادارہ شماریات کے انڈیکس کے اعتبار سے مہنگائی میں گزشتہ سال کے مقابلے میں جنوری 2023 تک چیزوں کی قیمتوں میں 6۔27 تک اضافہ ہوا ہے۔ یہ اضافہ مسلسل جاری ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس کی ایک وجہ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت بھی ہے اور جو چیز پاکستان میں پہلے کم پیسوں میں منگائی جاتی تھی اس کے لیے اب زیادہ پیسے ادا کرنے پڑتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے