۹ مئی کو پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ہنگامے اور احتجاج دیکھے گئے۔ لاہور میں کور کمانڈر کی رہائش گاہ کو نذرِ آتش کر دیا گیا اور لاتعداد مقامات پر سرکاری اور نجی املاک کو نقصان بھی پہنچایا گیا۔ اس بات سے قطع نظر کہ یہ گرفتاری درست تھی یا غلط تھی، ملک میں اس طرح کے واقعات سے عالمی منظر نامے پر پاکستان کا بہت برا تاثر جاتا ہے۔ کسی من پسند شخصیت کو پس زنداں دیکھ کر سیاسی متوالوں کا جوش میں آجانا ایک فطری بات ہے مگر ایسی حساس صورت حال میں جذبات پر قابو پا کر معاملات کو سنجیدگی سے سنبھالنا بھی ضروری تھا۔
اس معاملے میں پاکستان تحریک انصاف کے قائدین نے بھی کوئی کردار ادا نہ کیا اور نہ ہی حکومت کی طرف سے کوئی متاثر کن اقدامات نظر میں آئے۔ مشتعل کارکنان کی طرف سے اس طرح کا رد عمل غیر متوقع نہیں تھا۔ اس بات میں دو رائے نہیں کہ عمران خان دنیا کے مقبول ترین سیاسی شخصیات میں سے ایک ہیں اور ان پر قانونی یا غیر قانونی دست اندازی سے ان کے چاہنے والے شدید رد عمل سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ انہوں نے اسی عقیدت میں مشتعل ہو کر عوامی مقامات پر اور سوشل میڈیا پر اس فیصلے کے خلاف آواز اٹھانا شروع کر دی اور اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔ انٹرنیٹ اور اس کا استعمال کسی بھی معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ یہ صارفین کو کو جغرافیائی اور سماجی اقتصادی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے معلومات تک رسائی حاصل کرنے اور دوسروں کے ساتھ جڑنے کی سہولت دیتا ہے۔
یوں تو ہم آزادیء اظہارِ رائے پر یقین رکھنے والی ریاست ہونے کے دعویدار ہیں لیکن اس بے چینی اور ہنگامہ خیز حالات کو قابو کرنے کے لئے انتظامی اداروں نے دیگر کاروائیاں تو کیں لیکن ساتھ ہی انٹرنیٹ کے استعمال پر بھی قدغن لگا دی۔ گو کہ یہ فیصلہ اس لئے کیا گیا تاکہ عوام میں اشتعال اور مس انفارمیشن کے فروغ کو روکا جا سکے لیکن اس فیصلے کو شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ سماجی روابط کی ویب سائٹس پر لوگ اپنے خیالات لکھ کر جذبات کا اظہار کرتے ہیں اور ان پلیٹ فارمز پر پابندی کو آزادی اظہار رائے پر پابندی سمجھا جا رہا ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے اس دور میں اس طرح کی پابندی صارفین کو انتظامیہ سے متنفر کرتی ہے۔ اس پابندی ایک کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ لوگوں کی درست معلومات تک رسائی ختم ہوگئی اور ان کی بے چینی میں مزید اضافہ ہوا۔
یہ زمانہ ڈیجیٹل انقلاب کا زمانہ ہے اور بے شمار لوگوں کا روزگار انٹرنیٹ اور سماجی روابط کی ویب سائٹس پر منحصر ہے۔ مختلف آن لائن سٹورز اپنی مصنوعات کو انٹرنیٹ پر فروخت کرتے ہیں اور اس بندش کے باعث جہاں ان کا کاروبار متاثر ہوا وہیں ملکی معیشت بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئیے کہ لاتعداد لوگ اسی انٹرنیٹ کے ذریعے روزانہ اجرت والے کام بھی کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی گاڑیوں یا موٹر سائیکلوں پر سواریاں پہنچا کر یا کھانے کی ڈیلیوری کر کے روزگار کماتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی بندش اس طبقے کو بھی متاثر کرتی ہے۔
انٹرنیٹ آج کے دور میں ایک ضرورت کی شکل اختیار کر چکا ہے لہٰذا اس طرح کی پابندیاں لگانے کے بجائے انتظامیہ کو چاہئیے کہ موجودہ قوانین کو مضبوط بنائے۔ سوشل میڈیا پر مکمل پابندی کے بجائے، حکومت غلط معلومات کے پھیلاؤ، نفرت انگیز مواد اور تشدد پر اکسانے کے لیے موجودہ قوانین کو نافذ کرنے پر توجہ مرکوز کر سکتی تھی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیتوں کو بڑھا کر اور ڈیجیٹل خواندگی کو فروغ دے کر حکام شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے سوشل میڈیا کے منفی نتائج کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
حکومت اس سلسلے میں سرمایہ کاری کر کے لوگوں کو تنقیدی سوچ اور ذمہ دارانہ سوشل میڈیا کے استعمال سے آگاہ کر سکتی ہے۔ لوگوں کو قابل اعتماد معلومات اور جھوٹ کے درمیان فرق کرنے کے لیے تربیت دینے کی بھی اشد ضرورت ہے، جس سے سنسر شپ کی ضرورت کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔ مزید یہ کہ صریحاً پورے انٹرنیٹ پر پابندی کے بجائے، حکومت امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے مشکل حالات کے دوران یا سیکیورٹی خدشات کے تحت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر عارضی پابندیاں نافذ کر سکتی تھی۔ یہ عوامی تحفظ اور انفرادی آزادیوں کے درمیان توازن قائم کرنے کی بہترین صورت ہو سکتی تھی۔