گزشتہ کئی روز سے مختلف برینڈز مدرز ڈے کی مناسبت سے ایک دوسرے پر سبقت لینے کے چکر میں بڑی زبردست آفرز دے رہے تھے،کپڑے جوتے ہینڈ بیگز پر سیل لیکن صحیح تراہ تو تب نکلا جب ایک بیوٹی پارلر کی طرف سے اپنی مدرز کا میک اوور کروانے کے لئے مختلف ڈیلز کا نوٹیفکیشن موصول ہوا.
ہرچند کہ ہمارے ہاں ان دنوں کو منانے کا سرے سے کبھی کوئی رجحان نہیں رہا لیکن 13 مئی یعنی مدرز ڈے سارا دن موبائل سٹیٹس سے لے کر فیس بک، انسٹا ہر طرف بس مدرز ڈے وشز اور نوٹیفکیشنز دیکھ دیکھ کر دل میں امید سی جاگی کہ شاید میرا بیٹا بھی مجھے اسی مناسبت سے کوئی پیار بھرا پیغام بھیجے اور لاڈ کرے، بس پھر غیر ارادی طور پر وقت کی گھڑیاں انتظار کی صورت اختیار کر گئیں، یہاں تک کہ رات ہو گئی، وش تو نہیں آئی البتہ میرے بیٹے نے (جو کافی دن بعد ویک اینڈ گزارنے گھر آیا ہوا تھا) فرمائش کی, "ماں کتنے دن سے آپ کے ہاتھ کا پراٹھا نہیں کھایا مجھے اچھا سا پراٹھا بنا کر دیں” بہرحال جب کھانے کے بعد سب مل بیٹھ کر چائے پی رہے تھے کہ مجھے پھر سے مدرز ڈے یاد آ گیا اور مصنوعی خفگی کا اظہار کیا کہ آج سب بچے اپنی ماؤں کو وش کر رہے ہیں پر دن سے رات ہو گئی تم نے مجھے وش ہی نہیں کیا،یہ سن کر اس کے ابا جی نے بھی میرے بچے کی خواہ مخواہ ہلکی سی سرزنش کر دی جواباً اس نے پہلے تو ندامت سے سر جھکا لیا پھر سر اٹھا کر متانت سے ہم دونوں سے مخاطب ہوا ” ایسا نہیں ہے کہ مجھے پتا نہیں تھا کہ آج مدرز ڈے ہے, صبح سے میں بھی یہ سب دیکھ رہا ہوں لیکن زاتی طور پر مجھے اس سے اختلاف ہے کہ ہم اپنی ماؤں کو وش کرنے یا تحفہ دینے کے لئے کسی خاص دن یا تاریخ کا انتظار کیوں کریں؟ یہ دن انگریزوں کے مقرر کردہ ہیں کیونکہ ان بدنصیبوں نے اپنے ماں باپ کو تو اولڈ ہومز میں چھوڑا ہوا ہوتا ہے.
اس کی اس بات سے ہمیں بھی ایک طمانیت کا احساس ہوا اور لبوں سے الحمدللہ نکلا کہ ہمارا بیٹا کم از کم مغرب کی اندھا دھند تقلید کرنے والوں میں سے نہیں ہے. تقلید بری بات نہیں مگر اندھی تقلید دین میں ہو یا دنیا میں مہلک اثرات مرتب کرتی ہے۔ ہر معاشرے اور مذہب کا اپنا ایک جداگانہ تشخص ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ حضور نبی اکرم نے ہمیشہ دوسری قوموں سے مماثلت کو رد کرتے ہوئے منفرد شناخت دی۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ آپ نے عاشورہ کے نویں اور دسویں تاریخ کو روزہ رکھنے کی تلقین کی کیونکہ دوسری قومیں یہود و نصارٰی بھی دسویں محرم کو روزہ رکھتی تھیں۔
مغرب میں خاندانی نظام کا تصور تقریباً ناپید ہے ۔ وہاں اسلامی تعلیمات کے برعکس بوڑھے والدین کی عزت و تقریم و خدمت کے لئے کوئی حقوق مقرر نہیں نتیجتاً بڑھاپے میں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا، یہ تو اللہ بھلا کرے امریکی خاتون اینا ہاروسان کا جس نے یہ آئیڈیا دیا اور اسی کی کوششوں سے یورپ میں مدرز ڈے اور فادرز ڈے کی روایات نے جنم لیا تاکہ سال میں کم از کم ایک دن تو سب لوگ اپنی ماؤں کے لئے وقت نکالیں۔ اولڈ ہومز میں مقیم یہ بوڑھے ماں باپ سارا سال اپنے جگر گوشوں کی یاد کو سینے میں دبائے آنکھوں میں ویرانی لئے ایک ایک لمحہ انگلیوں پر گن کر اس دن کا انتظار کرتے ہوں گے اور کئی تو اسی انتظار کی کیفیت میں اس دار فانی سے کوچ کر جاتے ہوں گے۔
میرا تو خیال ہے کہ بحیثیت مسلمان ہم سب کو اپنے رب کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں وہ مذہب عطاء کیا جس میں والدین کی خدمت کو سال میں ایک یا دو دن کسی رسم کی طرح نہیں منایا جاتا بلکہ ہمارا مذہب تو وہ ہے جس میں ہر دن اور گزرتا لمحہ مدرز ڈے اور فادر ڈے ہے۔ہمارا رب تو محض اس بات پر اپنے بندے کے حصے میں نیکی ڈال دیتا ہے جب وہ والدین دونوں یا ماں یا باپ کی طرف محبت سے مسکرا کر دیکھے اور اس کے بدلے ایک افضل حج کا ثواب دینے کا وعدہ کرتا ہے۔تو زرا سوچئے کہ خدمت کا کتنا اجر ہوگا ؟ اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو گی کہ قرآن میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حقوق کے ساتھ ماں باپ کے حقوق رکھے ہیں اور ایک نہیں بلکہ کئی مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔
’’تمھارے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اللہ کی، اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔‘‘ (سورۂ بنی اسرائیل)
آج مجھے وہ ٹوئٹ بار بار یاد آ رہی ہے جس میں کسی نے کیاخوب کہا تھا کہ "اگر بیٹیوں کو اپنے والدین کو ساتھ رکھنے کی اجازت ہوتی تو دنیا میں کوئی اولڈ ہوم نہ ہوتا” اور اس کا کسی نے بڑا خوب جواب دیا تھا کہ "اگر ہر لڑکی اپنے ساس سسر کو ماں باپ کا درجہ دے کر ان کی خدمت کرے تو دنیا میں کوئی اولڈ ہوم نہ ہو”.
ہماری مشرقی اقدار اور روایات بہت پیاری ہیں بجائے اس کے کہ ہم "مدرز ڈے "اور "فادرز ڈے” کو تقویت دیں ہمیں فیملی سسٹم کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جس میں والدین اپنے بچوں کےساتھ رہیں ,پوتے پوتیوں کے ساتھ اپنی زندگی کا بہترین وقت گزاریں اور اپنے بڑھاپے کے دن اپنے پیاروں کے ساتھ گزاریں۔ ان کی اولڈ ایج کو گولڈ ایج میں تبدیل کر دیں.
میرا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ جس طرح ہم نے اپنے والدین کو گھر کے بزرگوں کی خدمت کرتے دیکھا یہاں تک کہ وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے اسی طرح ہماری اولاد انشااللہ ہمارے طرز عمل کو اپنائے گی. کاش ہم اپنی مذہبی تعلیمات کو سمجھیں اور اپنے آپ کو ان تعلیمات کے مطابق ڈھال کر اپنے کردار سے یورپ کے لوگوں کو بتائیں کہ ہمارے رب نے اولاد کے زمہ والدین کو حقوق مقرر کیۓ ہیں اور دنیا و آخرت کی کامیابی ان حقوق کی ادائیگی کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے تو باپ جنت کا دروازہ ہے.عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رب کی رضا والد کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے”.