آپ ابھی تک غیر شادی شدہ کیوں ہیں؟

آپ اپنی عمر کی 25 بہاریں دیکھ چکے ہیں اور ابھی تک غیر شادی شدہ ہی جیتے جا رہے ہیں تو آپ سے کئی بار یہ سوال ہوتا ہو گا کہ تم شادی کیوں نہیں کرتے (فائل فوٹو اے ایف پی)

آپ اپنی عمر کی 25 بہاریں دیکھ چکے ہیں اور ابھی تک غیر شادی شدہ ہی جیتے جا رہے ہیں تو آپ سے کئی بار یہ سوال ہوتا ہو گا کہ تم شادی کیوں نہیں کرتے۔ سونے پہ سہاگا یہ کہ اگر آپ خاتون ہیں یعنی لڑکی تو اس سوال کی شدت اور بھی بڑھا چڑھا کر پیش کی جائے گی۔

آپ کو چند دن کی جوانی اور آنے والے بڑھاپے کے بھوت سے ڈرایا جائے گا۔ آپ کو بار بار بتایا جائے گا کہ اگر عمر اسی طرح بڑھتی رہی تو تم بچے پیدا کرنے کے قابل نہیں رہو گی۔ پڑھنا لکھنا اور معاشی خودمختاری آپ کے آس پاس والوں کے لیے ویسے تو کوئی اہمیت نہیں رکھتی لیکن اگر آپ کے پاس ان سب کے ساتھ ذرا اچھی شکل ہو تو یہ طعنہ بھی دیا جانے لگتا ہے کہ تم اپنے معیار سے ذرا نیچے آجاو یہ حسن چند دن کا مہمان ہے انسان کو سمجھوتہ کرنا آنا چاہیے۔

کوئی یہ نہیں جاننا چاہتا کہ آپ نے کوئی آئیڈیل بنایا بھی یا نہیں یا آپ کو اپنی جوانی، حسن اور امارت کا کوئی گھمنڈ بھی ہے یا نہیں۔

شومیِ قسمت اگر آپ ذرا سا شہرت یافتہ بھی ہوں تو یہ بھی خود سے اخذ کر لیا جاتا ہے کہ خاتون کو شہرت کا تاپ چڑھ گیا ہے اور ہر کوئی چاہے وہ کتنا ہی پڑھا لکھا اور باشعور کیوں نہ ہو یہ ضرور جتائے گا کہ آپ اب شادی کر ہی لیں کیوں کہ جس شہزادہ گلفام کے انتظار میں آپ بوڑھی ہو رہی ہیں وہ تو آئے گا نہیں اور اگر آئے گا بھی تو اسے آپ کے مقابلے میں کم عمر، حسین اور موم جیسی عورت آسانی سے مل جائے گی کوئی آپ سے شادی کیوں کرنا چاہے گا؟

اس لیے پہلی فرصت میں جو بھی جیسا بھی اچھا یا برا شخص ملے اس پر ایمان لے آؤ اور صرف اس لیے سمجھوتہ کر لو کیوں کہ تمہاری عمر بڑھ گئی ہے۔

یہ عمر کا ہوا اور ڈھلتے حسن کا منڈلاتا ہوا خطرہ کتنی ہی عورتوں کو غلط اور جذباتی فیصلوں کی طرف دھکیلتا ہے یہ کوئی نہیں جانتا۔ میرے ہی آس پاس بہت سی شادیاں اسی خوف کے باعث کی گئیں اور پھر ان عورتوں نے اپنی مرضی اپنی خواہش ایسے جیون ساتھی کے سامنے تیاگ دی جسے یہ احساس تک نہیں ہوا کہ اس کے شریکِ حیات نے کیا کچھ ایک گھر بچانے یا شادی چلانے کی خاطر قربان کر دیا ہے۔ ہر چیز کو اپنا حق سمجھ کر وصول کیا جاتا رہا۔

وہ پڑھی لکھی، بر سر روزگار لڑکی جسے سمجھوتہ کرنے کے فضائل بیان کر کر کے اس بات پر راضی کر لیا جاتا رہا ہے کہ وہ جاب بھی کرے، گھر کے کام بھی برابر کرے، بچے پیدا کرے، شوہر کی خدمت اور سسرال کی رضا کی خاطر پھرکی بنی گھومتی رہے اور جیسے ہی خاندان کو معاشی زوال کا سامنا ہونے لگے تو اپنی جمع پو نجی ہنستے کھیلتے اپنے سرتاج کے سر سے وار دے۔ اور آپ یقین نہیں کریں گے کہ کسی کتاب میں نہیں پڑھا، میری دوستوں نے یہ سب بالکل ایسے ہی کیا جیسا میں بیان کر رہی ہوں۔

اس کا صلہ ایک کو اس صورت میں ملا کہ جب اس کے اپنے ہاں ایک بیٹی کی ولادت ہوئی تو اس کے پاس اپنی ہی تنخواہ استعمال کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ اس کے سارے روپے اس کا شوہر اپنے ماں باپ اور بہنوں پر خرچ کرتا اور اسے کہتا کہ اپنے مائیکے سے اپنے خرچ کی رقم منگوائے۔ ایسے کسی بھی معاملے کا انت کیا ہو سکتا تھا آخر کار بات طلاق پر جا کے رکی۔

ایسے میں ہمارے سماج سدھار کے علم بردار یہ طعنہ تیار رکھتے ہیں کہ دیکھا بڑی عمر کی پڑھی لکھی عورت تھی نا اس لیے گھر نہیں بسا پائی۔

ایسے ہی ایک جاننے والی خاتون کے جہیز میں گاڑی، مکان اور ہر طرح کا سامان طلب کیا گیا۔ ماں باپ لڑکی کی بڑھتی ہوئی عمر سے خوفزدہ تھے، جتنی اوقات تھی اس سے کہیں بڑھ کر ہر چیز کی فراہمی ممکن بنائی۔

شادی کے بعد اس کے گھر میں سارا سسرال آن سمایا اگر کہیں جگہ نہیں تھی تو اس کے لیے نہیں تھی اور جب اس نے احتجاج کیا تو طلاق دے کر واپس بھیج دیا گیا۔ لیکن طعنہ پھر وہی کہ پڑھی لکھی پکی عمر کی عورت گھر کیسے بسائے گی۔

اب تک میں نے ملازمت پیشہ خواتین کو بہت زیادہ جدوجہد کرتے ہوئے پایا ہے۔ انہیں اپنی ملازمت والی جگہ پر بھی یہ ثابت کرتے عمر بیت جاتی ہے کہ وہ اپنے کام میں مخلص اور ماہر ہے اور گھر میں بھی یہ کوشش کرتے ہلکان ہو جاتی ہے کہ وہ بہترین بیوی، ماں اور بہو ہے۔

اب آپ تھوڑ ا رک کر سوچیے کہ اگر آپ خوامخواہ کا پریشر ڈالنا بند کر دیں تو اس قسم کے غلط فیصلوں کی وجہ سے زندگیاں داو پر لگنے سے رک سکتی ہیں۔

آپ کسی کی اچھی شخصیت دیکھ کر یہ اندازے لگانا بند کردیں کہ اس نے اپنا معیار بہت ہائی فائی کر رکھا ہو گا۔ کیوں کہ شادی کے لیے آنے والے لوگ بھی کماتی ہوئی امیر بیوی، اعلیٰ تعلیم یافتہ لیکن انتہائی کم عمر، ہر وقت جی حضوری کرتی ہوئی ذہنی طور نابالغ لڑکی کی خواہش میں آتے ہیں۔

انہیں با اعتماد، اپنے حقوق سے آگاہ، باشعور اور اپنے پیروں پر کھڑی ہوئی عورت سے خوف آتا ہے اس لیے وہ گھبرا کے بھاگ جاتے ہیں۔

ویسے بھی میری ایک مرحوم دوست کا کہنا تھا کہ ساری عمر گزار کر اگر اپنے ذہنی لیول سے بہت نیچے جا کر ہی کسی آدمی کی سنگت میں رہنا ہے تو ایسے سمجھوتے سے بہتر ہے اکیلے لیکن سر اٹھا کے رہنا۔

اب ذہنی لیول سے کیا مراد ہے آپ سوچیے، ہم جلد ہی اس پر بھی اپنی رائے دیں گے۔ سلامت رہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے