ایک پاکستانی بہاری شاعرہ ہیں جن کی کمیونٹی کو تو دھتکار دیا گیا ہے مگر خود ان کی مقبولیت اور پذیرائی کی خوشبو ان کے اس دار فانی سے تیس برس قبل کوچ کرنے کے بعد بھی تازہ ہے . اس کا تازہ ترین ثبوت ایک نوجوان مسلم لیگی ( ن) کے پارلیمان کا قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث نامی اجلاس میں اپنی تقریر کے دوران پروین شاکر کی تَقْرِیباً پوری غزل زبانی روانی کے ساتھ ادا کرنا تھا .
کچھ فیصلہ تو ہو کہ کدھر جانا چاہیے
پانی کو اب تو سر سے گزر جانا چاہیے
ہر بار ایڑیوں پہ گرا ہے میرا لہو
مقتل میں اب بہ طرزِ دگر جانا چاہیے
کیا چل سکیں گے جن کا فقط مسئلہ یہ ہے
جانے سے پہلے رختِ سفر جانا چاہیے
سارا جوار بھاٹا میرے دل میں ہے مگر
الزام یہ بھی چاند کے سر جانا چاہیے
جب بھی گئے عذابِ در و بام تھا وہی
آخر کو کتنی دیر سے گھر جانا چاہیے
*تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے*
*ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہیے*
پھر انھوں نے آخری شعر ادا کرتے ہوئے جس طرح حزب مخالف کے بینچ کی جانب دیکھا وہ بھی ایک "مومنٹ ” تھا . جس پر مجھے شاعرہ کا یہ شعر یاد آگیا تھا .
کیا قیامت ہے کہ جن کے نام پر پسپا ہوئے
انہیں لوگوں کو مقابل میں صف آرا دیکھنا
پروین شاکر- اپنی زندگی میں اور سول سرونٹ کے پائیدان پر پہنچنے سے پہلے ہی اسٹیبلشمنٹ اور اقتدار کے حلقوں میں جانا پہچانا نام تھا اور کئی سیاستدان اور پارلیمان ان کے اشعار کوٹ کرتے تھے . یہ اور بات کہ ان کو صرف رومانوی عدسے سے دیکھا گیا یا میڈیا نے دکھانا چاہا اور ان کی سیاست پر کاٹ دار سخنوری کو، کوئی خاص توجہ حاصل نا ہوئی . ان کے کئی رومانوی اشعار بھی غیر رومانوی اور تلخ ترین صورت حال میں بھی نگینے کی طرح فٹ ہوجاتے ہیں جیسے کہ یہ ٹکڑا ” بات تو سچ ہے مگربات ہے مگر رسوائی کی. ”
اگر ابھی تک جو سطریں آپ نے پڑھی ہیں ان سے آپ کو یہ گمان ہوتا ہو کہ میں اپنے آپ کو آج ادبی نقاد یا سیاسی تجزیہ نگار بنا کر پیش کر رہی ہوں تو آپ سے شدید معذرت . بات یہ ہے کہ جو لکھنا چاہتی ہوں وہ بہت سخت بات ہے .شائد اس کا چھپنا بھی محال ہو اور میرے لیے چھپنا بھی نا ممکن ہے .
دل اور دماغ کی یہ کیفیت ورلڈ اکنامک فارم کی تازہ ترین رپورٹ پڑھ کر ہوئی ہے حالانکہ مجھ کو عمر اور کیریئر کی اس اسٹیج تک نا حیران ہونا، نا ہی پریشان ہونا زیب دیتا ہے مگر دل ہے پاکستانی اور ابھی تک دھڑک رہا ہے، اس لیے تڑپ بھی اٹھتا ہے . "اس سال ہم صنفی عدم مساوات میں 146ممالک کی فہرست میں 145 ویں نمبر پر ہیں یعنی صرف افغانستان سے آگے ہیں .” صرف یہی نہیں اس رپورٹ میں صحت،تعلیم، معیشت اور سیاست کے حوالے سے دیئے گئے اعداد و شمار کے مطابق ہمارے لیے "مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں .”
صدمہ اس بات کا ہے کہ اسمبلی کے فلور پر یا تو گالم گلوچ،’ لڑائی مار کٹائی ، قصیدہ گوئی یا الزام تراشی ہوتی یا مُرَصَّع اردو ، فراٹے دار پنجابی یا شستہ انگریزی کی نمائش ہوتی ہے .
نہیں بات ہوتی تو انسانی اور صنفی ترقی کی جو ملکی ترقی اور استحکام کے لازمی جز ہیں .
ہلا گللا،تماشا اور مشاعرہ بہت ہوا ،اب تو کوئی سنجیدہ کام بھی کرلیں اور ایمانداری سے بتا دیں صرف عوام پر ہی برق کیوں گرتی ہے؟ یہ آپ اشرافیہ "عام آدمی ” کی کیا رٹ لگاتے ہیں ؟ آپ کیسے اور کیوں خاص ہیں ؟ پلیز بتادیں ” ایسے ویسے سخن فروشوں ” کے علاوہ بھی کن کن کو شرم سے ڈوب کر مرجانا چاہیے ؟
ڈاکٹر رخشندہ پروین-ایک پاکستانی صحت عامہ اور صنفی امور کی ماہر ہیں اور ایک سوشل انٹراپرینور ہیں. مختلف سماجی ترقی کے سیکٹرز میں کام کرتی رہی ہیں اور کئی جامعات میں پڑھاتی بھی رہی ہیں. وہ پاکستان میں پی ٹی وی کی صبح کی لائیو نشریات اور حالات حاضرہ کے شو کی پہلی خاتون اینکر ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں. صنف کے حوالے سے پی ٹی وی پر بطور نجی پروڈیوسر ان کی سال 1999 کی سیریز جینڈر واچ ایوارڈز بھی حاصل کر چکی ہے . اس کے علاوہ جہیز بطور ایک تشدد اور صنفی تشدد کے خلاف ان کا کام نمایاں اور منفرد رہا ہے . گزشتہ دس سالوں سے وہ اپنی تحریر اور تقریر سے محب وطن بہاریوں خاص طور پر موجودہ بنگلہ دیش میں محصورین کے لئیے بھی ایک آواز بن رہی ہیں ۔