علم اور فطرت کی سنگت میں بابوسر یاترا

زندگی کے مصروف معمولات اور کالج کی علمی و تدریسی ذمہ داریوں سے ایک لمحے کے لیے نکل کر جب قدرت کا حسین بلاوا آئے تو دل کیسے انکار کر سکتا ہے؟

گورنمنٹ ڈگری کالج چلاس میں ہماری تعلیمی مصروفیات کے تیسرے ہفتے کی تھکاوٹ ابھی پوری طرح دل و دماغ پر چھائی ہوئی تھی کہ پرنسپل پروفیسر عبداللہ خان صاحب نے ایک شاندار ویلکم پارٹی کا بندوبست کرنے کی تجویز دی، اور یہ پارٹی کسی اور جگہ نہیں، بلکہ بابوسر کی جنت نظیر وادی میں ہونی تھی۔

ہمیں یوں لگا جیسے کام کی مصروفیات، اور گھر سے دوری، دن بھر کی تھکن اور طبیعت کی افتادگی پر چند حسین لمحات اور دلچسپ وادیوں کے وزٹ کا ٹکٹ مل گیا ہو۔ بہرحال پروفیسر عبداللہ خان کی سربراہی میں ہم بابوسر یاترا کے لئے چل دیئے۔

پروفیسر عبدالرشید پہلے سے ہی چلاس میں موجود تھے، جبکہ راقم، پروفیسر عزیز اور پروفیسر ارشاد شاہ نے حال ہی میں کالج جوائن کیا تھا۔

ہمارے ساتھ بابوسر یاترا میں لیکچرار محفوظ اللہ، محبوب بھائی، ذوالفقار علی خان….اور ڈرائیور انعام اللہ بھی شامل تھے۔

یہ سفر نہ صرف بابوسر کی دلکش وادیوں کا مشاہدہ تھا بلکہ پروفیسر عبداللہ خان، عبدالرشید، سر عزیز اور ارشاد شاہ جیسے دیگر احبابِ علم و مزاح کے بادشاہوں کے سنگت کا بھی مزہ تھا۔ راستے میں وادی تھک کے مختلف گاؤں کے سبزہ زاروں، بہتی ندیاں، اخروٹ کے بڑے بڑے درخت، کھیتوں میں مکئی کی فصلیں، پہاڑی چٹانوں ہر قیمتی درختوں کے جھنڈ، اور پہاڑوں کے بل کھاتے راستے جیسے ہمیں اپنی بانہوں میں سمیٹنے کو تیار تھے۔ گاڑی میں قہقہوں کا طوفان برپا تھا، اور میں حسب عادت اپنے ساتھیوں کی فرمائش پر مختلف موضوعات پر نان اسٹاپ گفتگو میں مشغول تھا۔

محبوب اللہ صاحب تو باقاعدہ مجھے اکساتے رہتے تھے کہ میں پوشیدہ اور حساس موضوعات پر بات کروں۔ یوں کبھی سیاست پر، کبھی تاریخ پر، کبھی مذہب پر، اور کبھی مذہب کے کچھ ایسے موضوعات پر گفتگو شروع ہو جاتی جو عموماً سنجیدہ محفلوں میں قابل قبول نہیں سمجھے جاتے، یا ان موضوعات پر بات کرنا سماجی عیب سمجھا جاتا، یا نفیس لوگ اس کو سماج کے ڈر کی خاطر سننے سنانے سے گریز کرتے ہیں۔ میں ایسے موضوعات پر مزاحیہ انداز میں کھل کر بات کرتا ہوں، یہ موضوعات ہی ایسے ہوتے ہیں جن پر سنجیدگی طاری کرکے عالمانہ بحث نہیں کی جاسکتی بلکہ مزاحیہ انداز میں قرآن و حدیث کی روشنی میں گفتگو کرنی پڑتی ہے۔

بس یوں سمجھیے کہ احباب کی علمی و فکری اور مزاح و طنز پر مشتمل گفتگو اور راقم کے چٹکلوں کا رنگ ایسا تھا کہ اگر کوئی ارسطو زندہ ہوتا تو وہ بھی ہمارے چرنوں میں بیٹھنے کے لئے بابوسر کی جانب دوڑ لگا دیتا۔

خوش گپیوں میں مصروف یہ علمی ٹولہ نیو مون اسٹار ہوٹل پہنچا۔ہوٹل کا منظر کچھ اور ہی دلکش تھا۔ ملکی و غیر ملکی سیاحوں کا رش تھا، نئے نویلے جوڑے اور بوڑھے سیاح اپنی رفیقات حیات کیساتھ زندگی کی رنگینیوں کو مزید مخمور بنانے کے لیے پتہ نہیں کہاں کہاں سے بابوسر یاترا کے لیے آئے ہوئے تھے اور ہوٹل کے دائیں بائیں گھومتے پھرتے قہقہے لگاتے، اور ان کے قہقہوں سے بابوسر خاموش ہواؤں میں سرسراہٹ سی پیدا ہوتی اور دل بے کیف وادیوں سے نکل کر لطف و سرور کی کیفیات میں مبتلا ہوجاتا۔

تھک ویلی کے سبزے، بلند پہاڑ، اور اردگرد بہتی ندیاں ایک عجیب روحانی سکون فراہم کر رہی تھیں۔ یہاں ہر موڑ پر ایسا لگتا تھا جیسے قدرت کا کوئی نیا راز آشکار ہو رہا ہو۔ ہم نے تھک نالے کے یخ پانی سے وضو کیا اور نماز کے بعد کھانے کی تیاری شروع ہوئی، یوں ہم نے اپنا دسترخوان ہوٹل کی ٹیبلوں پر بچھا لیا اور مٹن کڑاہی کیساتھ انصاف کرنا شروع کیا۔اب باتوں کا دوسرا دور شروع ہوا، تصاویر کھنچی گئیں، احباب کے چٹکلے بلند ہونے لگے اور یہاں اصل مزہ آیا۔

پروفیسر ارشاد شاہ نے شاندار حس مذاح اور ذوق لطیف پایا ہے۔ وہ وقفے وقفے سے اپنی حسِ مزاح سے محفل کو قہقہوں سے بھر دیتے، پروفیسر عبدالرشید اپنے تیکھے سوالات سے علمی مباحث کو آگے بڑھاتے، اور میں؟ میں کبھی قصے گھڑتا، کبھی لطیفے سناتا، اور کبھی فلسفیانہ انداز میں زندگی کے نازک پہلوؤں پر روشنی ڈالتا۔ دینی حوالے دیتا، نقلی دلائل بیان کرتا اور عقلی دلائل دینے کی ناکام کوشش کرتا، اس ساری گفتگو کا کمال یہ تھا کہ یہ صرف ہنسانے اور محظوظ کرنے کے لیے نہیں تھی بلکہ علمی رنگ میں ڈھلی ہوئی تھی۔ ہمارے وزٹنگ لیکچرار صاحبان میری سنجیدہ و غیر سنجیدہ بلکہ بیہودہ گفتگو کو غور سے سنتے، مسکراتے، لجاتے اور کبھی کوئی سوال داغتے۔

پروفیسروں کی محفلوں کو کشت زعفران بنانے کا اپنا پرانا اسٹائل ہے۔ اس بات پر مجھے شدید حیرت ہوتی ہے جب کچھ احباب مجھے سنجیدہ و متین بنانے کی کوشش کرتے ہیں یا بننے کی تجویز دیتے ہیں۔ کاش انہیں معلوم ہوتا کہ ہر وقت سنجیدگی طاری کرنے سے زندگی بے ذوق سی بن جاتی ہے اور بڑھاپا جلدی آجاتا ہے اور دو بیویوں کا اکلوتا شوہر اگر قبل از وقت بوڑھا ہوگیا تو کتنا بڑا نقصان ہے، اس کا کسی کو اندازہ ہی نہیں۔ بس مجھے اپنا اسٹائل خوب پسند ہے۔ مجھے اسی میں جینے دیں یار۔

لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔ جب مٹن کڑاہی کا مزہ لیا تو یوں لگا جیسے ہم نے سچ میں دنیا کی ایک بہترین نعمت چکھ لی ہو۔ اب بابوسر ٹاپ کی طرف بڑھنے کا وقت آ گیا تھا، اور جیسے ہی ہم وہاں پہنچے، سرد ہواؤں نے ہمیں اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ خزاں کا موسم اپنے پورے جوبن پر تھا، ہر طرف سرخی ہی سرخی تھی، دور پہاڑ کی چوٹیوں پر صنوبرکے درختوں کے زرد پتے زمین پر بکھرے ہوئے تھے، اور ہوا میں ایک خاموش اداسی تھی، جو کسی قدیم داستان کا حصہ معلوم ہوتی تھی۔

بابوسر ٹاپ جاتے ہوئے میں احباب کو چھیڑنے کی کوشش کرتا، پرنسپل صاحب نے سنجیدگی طاری کر رکھی تھی مگر میرے لطیف بلکہ فحش لطیفوں پر خاموش نہ رہ سکے، خوب قہقہے لگائے اور خود بھی میری لے میں لے ملانے لگے، ارشاد شاہ ہر ہر لطیفہ اور علمی نکتے پر کوئی نہ کوئی مزاحیہ تبصرہ فرما دیتے اور گاڑی احباب کے قہقہوں سے گونج اٹھتی اور ہماری گونجیں بابوسر کی پرکیف وادیوں میں گم ہوکر ہمیشہ کے لیے امر ہوجاتی۔ اس سفر میں سیاحت اور معیشت کے مختلف پہلوؤں پر بھی خوب بحث ہوتی رہی، بابوسر ٹاپ پر سخت سردی تھی۔ احباب تھرتھرا رہے تھے مگر خوب لطف اندوز بھی ہورہے تھے ۔ محبوب بار بار مجھے اکسا رہے تھے کہ میں کوئی ذومعنی لفظ کہہ کر سب کی ہنسی کا سبب بنوں اور میں بھی احباب کو ہنسانے میں کبھی کنجوسی سے کام نہیں لیتا۔

بابوسر ٹاپ کی بلندیوں پر وہ سرد ہوائیں اور دور تک پھیلی خاموشی ہمیں جیسے قدرت کی وسعت کا احساس دلا رہی تھی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب انسان اپنی ساری مصروفیات اور فکروں سے آزاد ہو کر فطرت کی خوبصورتی میں کھو جاتا ہے۔ ہم بھی بہت دیر تک فطرت کے حسن و جمال میں کھوچکے تھے۔یہ فطرت بھی اپنی رعنائیوں سے بعض دفعہ انسان کو اندر سے مار کر رکھ دیتی ہے، اور عشاق لوگ مرغ بسمل کی طرح تڑپ اٹھتے ہیں ۔

یوں ہمارا یہ سفر قہقہوں، علمی گفتگو، اور فطرت کے حسین مناظر سے بھرپور تھا۔ بابوسر کا ہر لمحہ ہمیں یہ سکھاتا رہا کہ زندگی کا اصل مزہ انہی مختصر اور خوبصورت لمحوں میں پوشیدہ ہوتا ہے، جہاں دوستوں کی سنگت، قدرت کی وسعت، اور علم کی روشنی ساتھ ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے